خیبرپختونخوا سے کچھوؤں کی معدومی، 7 اقسام میں سے صرف تین باقی رہ گئیں

خیبرپختونخوا سے کچھوؤں کی معدومی، 7 اقسام میں سے صرف تین باقی رہ گئیں
خیبرپختونخوا میں کچھوے تیزی سے معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کی نئی تحقیق کے مطابق پچھلے سات سالوں میں خیبرپختونخوا کے 7 کچھوئوں کی اقسام میں صرف تین باقی رہ گئی ہیں۔

نئی تحقیق سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ 2014 سے 2021 تک کچھوؤں کی 7 اقسام میں اب صرف تین باقی رہ گئی ہیں۔ صوبے سے کچھوؤں کی معدومی کے بڑے اسباب میں غیر قانونی شکار، ماحولیاتی آلودگی، حکومتی عدم توجہ، توہمات اور کلائمنٹ چینج شامل ہیں۔

یہ دوپہر کا وقت تھا، میرے ساتھ میرے ہم عمر ساتھی اپنے گاؤں کے دریا (گودر) کنارے نہ جانے کیا تلاش کر رہے تھے کہ اچانگ ہماری نظر ایک بڑے کچھوے پر پڑی جو خاموشی سے دریا کے کنارے بیٹھا تھی۔ ہمارے بہت ہی نزدیک جانے سے بھی وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ اتنے میں میرے ایک کزن نے کچھوے کو پاؤں سے ہلایا اور وہ آہستہ آہستہ دریا کی طرف روانہ ہوگیا۔ ہم نے دیکھا کہ ایک چھوٹے سے گڑھے پر بیٹھے اُس مادہ کچھوے نے انڈے دیے تھے۔ اس وقت ہماری عمریں کم تھی یعنی قریبا 6 سے7 سال۔ ہم نے انڈے اٹھائے اور وہاں سے روانہ ہوئے۔ میں نے اپنے گاؤں کے دریا کنارے کچھوؤں کے جھنڈ دیکھے تھے، لیکن اب وہ سارے کنارے ویران پڑے ہیں، اب تو دریا میں مہینوں بعد کوئی ایک آدھ کچھوا نظر آ جاتا ہے۔



ضلع مردان گاؤں حمزہ خان کے 40 سالہ نورداد خان کا گھر گاؤں کے ساتھ بہنے والے دریا کے قریب ہے۔ وہ اپنے گاؤں کے دریا کے کناروں کی کہانی بیان کر رہا تھا۔ کہانی جاری رکھتے ہوئے نورداد نے کہا کہ جب ہم مچھلی پکڑنے کیلئے جال پانی میں ڈالتے تھے تو مچھلی کے بجائے کچھوے اس میں پھنس جاتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 20 سال پہلے دریا کے کنارے جگہ جگہ کچھوے نظر آتے تھے لیکن اب وہ غائب ہو چکے ہیں۔

نورداد خان نہیں جانتا کہ وہ کچھوے کیوں غائب ہوئے، البتہ اُس نے اپنے گاؤں میں لوگوں کو کچھوؤں کا شکار کرتے ہوئے ضرور دیکھا ہے۔ یہ کہانی صرف ضلع مردان کے حمزہ خان گاؤں کے دریا کنارے سے غائب ہونے والوں کچھوؤں کی کہانی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے بیشتر دریاؤں اور نہروں سے تیزی سے غائب ہونے والے کچھوؤں کی کہانی ہے۔

خیبرپختونخوا میں کچھوؤں پر نئی تحقیق

خیبر پختونخوا سے کچھوؤں کے غائب ہونے کے حوالے سے عبدالولی خان یونیورسٹی ذوالوجی ڈیپارٹمینٹ کے پی ایچ ڈی سکالر یاسین نسیم کی نئی تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ خیبرپختونخوا سے گذشتہ 15 سالوں میں کچھوے تیزی کیساتھ غائب ہوئے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں کچھوئوں پر 2014 سے پہلے کوئی ریسرچ موجود نہیں ہے۔ متعلقہ محکمہ وائلڈ لائف سمیت کسی کو نہیں پتہ تھا کہ صوبے میں کچھوؤں کی کتنی اقسام پائی جاتی ہیں۔ یاسین نے بتایا کہ ساتھیوں سمیت جب وہ کچھوؤں پر تحقیق کر رہے تھے تو اُنہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس حوالے سے صرف 2014 میں کی جانے والی ایک ریسرچ موجود تھی جسے پروفیسر امتیاز نے تحریر کیا تھا۔ وہ ریسرچ صرف ضلع چارسدہ میں کچھوؤں کی 7 اقسام کے بارے میں تھی، جبکہ ہماری ریسرچ پختونخوا کے تین اضلاع مردان، ملاکنڈ اور چارسدہ میں کچھوؤں کی بائیو ڈاورسٹی یعنی حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے تھی۔ یاد رہے کہ یاسین کی ریسرچ ملاکنڈ ڈویژن میں کچھوؤں کی بائیوڈاورسٹی کی پہلی ریسرچ ہے، اس سے پہلے حکومت سمیت کسی ادارے اس پر نے کام نہیں کیا تھا۔



یاسین نے بتایا کہ ایک سال ریسرچ کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ خیبر پختونخوا کے تین اضلاع میں پچھلے 7 سالوں میں کچھوؤں کی 7 اقسام موجود تھیں جن میں اب صرف تین باقی ہیں۔ نلسونیہ گنیگیٹکہ، نلسونیہ حُرم اور لائسیمی پنکٹیٹہ انڈر سونی جس کو انڈین فلیپ شیل ٹرٹل بھی کہتے ہیں شامل ہیں۔ انڈین فلیف شیل ٹرٹل زیادہ تر مردان میں پائی جاتی ہیں۔ عالمی ادارے ورلڈ کنزرویشن یونین (آئی یو سی این) کے مطابق نلسونیہ گنیگیٹکہ اور نلسونیہ حُرم دنیا میں تیزی سے معدوم ہو رہی ہیں جو کہ ادارے کی موجودہ 2021 کے ریڈ لیسٹ میں شامل ہیں، جبکہ انڈین فلیپ شیل ٹرٹل کی نسل بھی معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ یاسین نے مزید بتایا کہ عبدالولی خان یونیورسٹی زوالوجی ڈیپارٹمنٹ ان تین قسموں کی افزائش نسل پر کام کر رہی ہے۔ یہ تینوں اقسام یونیورسٹی میں ہمارے ساتھ موجود ہیں لیکن صوبے کے تینوں اضلاع میں کچھوؤں پر ریسرچ کے دوران ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ہمارے ماحولیاتی نظام سے یہ اقسام بھی تیزی سے غائب ہو رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں کچھوؤں کا شکار اور کاروبار

نورداد خان نے اپنے گاؤں میں لوگوں کو کچھوؤں کا شکار کرتے دیکھا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آج سے قریبا 15 سال پہلے پنجاب سے 15 کے لوگ آئے تھے۔ اُن کے پاس ایک لمبے تیزدار آلے تھے۔ مجھ سمیت گاؤں والے دیکھ رہے تھے کہ وہ کچھوؤں کو اُس تیز دار آلے سے مار رہے تھے۔ اُنہوں نے ایک ہی دن میں اتنے کچھوؤں کا شکار کیا کہ اپنے ساتھ ڈاٹسن گاڑی میں لے گئے۔



آپ نے اُنہیں کیوں نہیں روکا؟ نورداد خان نے جواب دیا کہ شکاری گاؤں کے بااثر لوگوں کے مہمان تھے اور دوسرا یہ کہ "بھلا کچھوئوں کو مارنے سے کسی کو کیا نقصان ہونا تھا"۔ یاسین نے بتایا کہ ریسرچ کے دوران ہمیں یہ پتا چلا کہ کچھوؤں کا غیر قانونی شکار کرنے والے گاؤں میں کچھوے کو زہریلا ثابت کرنے کیلئے مختلف افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ عام لوگوں کو ماحولیاتی نظام میں کچھوؤں کی اہمیت کے بارے میں بالکل بھی علم نہیں ہے، اس لئے آج بھی مختلف علاقوں میں بچے کچھوؤں کو انہیں افواہوں کی بدولت مارتے ہیں۔

عبدالولی خان یونیورسٹی کی ریسرچ سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ کچھوؤں کی تیزی سے غائب ہونے کی سب سے بڑی وجہ غیر قانونی شکار ہے۔ نام نہ بتانے کی شرط پر ضلع ملاکنڈ کے رہنے والے 43 سالہ ایک شکاری نے فون پر بتایا کہ اُس نے 15 سال کچھوؤں کے بیچنے کا کاروبار کیا ہے۔ ایک بڑے کچھوے کی قیمت 10 سال پہلے 300 روپے تھی جبکہ اب فی کلو 500 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ کچھوؤں کا شکار ملاکنڈ میں دریا( موسا مینہ خوڑ) اور دریا( جلالہ خوڑ) سے کرتے تھے، اور ضلع ملاکنڈ میں پاکستان اور چائنہ کی شراکت پر بننے والے ملاکنڈ 3 ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لئے چائنہ سے آئے ہوئے اہلکاروں پر بیچتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ کچھوؤں کا شکار اب بھی کیا جاتا ہے اور اس کو خریدنے کے اپنے لوگ ہوتے ہیں۔ لاہور تک لوگوں کیساتھ رابطے میں رہنا پڑتا ہے، زیادہ تر ہم چائنیز پر بیچتے ہیں۔



عبدالولی خان یونیورسٹی کے ریسرچ میں "دی بورڈ آف فارن ٹریڈ " رپورٹ کے مطابق 1992 سے 1998 تک 900 ٹن ہارٹ شیلز تائی وان اور پاکستان سے چائنہ کو ایکسپورٹ کیا جاتا رہا ہے۔ غیر قانونی طریقے سے زندہ کچھوے جنوبی ایشیا کے ممالک سے 13 ہزار میٹرک ٹن تک چائنہ کو ایکسپورٹ ہو رہے ہیں جس میں سب سے بڑی ایک مارکیٹ پاکستان ہے۔ فی کلو خشک شیل کی قیمت سو سے دو سو روپے ہے۔ ان میں سب سے زیادہ قیمتی شیل انڈین فلیپ شیل ٹرٹل کی ہے جس کی قیمت 400 سے 500 روپے فی کلو ہے۔ آئی یو سی این کی جانب سے یو ایس ایڈ کی 2017 میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چاروں صوبوں سے کچھوئوں کی غیر قانونی سمگلنگ اب بھی جاری ہے اور پاکستان اس کی ایک بہت بڑا مارکیٹ ہے۔

ماحولیاتی نظام میں کچھوؤں کی اہمیت

بنیادی طور ہمارے ماحولیاتی نظام میں کچھوے کی موجودگی صاف پانی اور صاف ماحول کا ایک انڈیکیٹر ہے۔ حمزہ خان گاؤں کے نورداد خان نے کہا کہ دریا میں کچھوئوں کے غائب ہونے سے پہلے جب بڑی عید پر گاؤں کے لوگ قربانی کے ضائع فضلات دریا میں پھینکتے تھے تو دو دن میں دریا صاف ہو جاتا تھا، کچھوے ان کو کھا جاتے تھے، لیکن اب وہ گند مہینوں تک پڑا رہتا ہے۔

پی ایچ ڈی سکالر یاسین نے بتایا کہ پانی کو صاف رکھنے کے علاوہ کچھوے ایگریکلچر بائیو ڈاورسٹی کو برقرار رکھنے کیلئے بھی ناگزیر ہیں۔ یہ مختلف قسم کے وائلڈ پلانٹس سیڈز یعنی جنگلی پودوں کے تخم کو پھیلانے میں مدد دیتے ہیں۔ کچھوؤں کو ماحول کا سکیونجر کہا جاتا ہے۔ ان کی خوارک پانی میں موجود ہر قسم کے مرے ہوئے دوسرے نوع ہوتے ہیں۔ یاسین نے مزید بتایا کہ کچھوؤں کے شیل کا تیل مختلف بیماریوں جیسے دل کی بیماری، استھما اور انتڑیوں کے علاج کے لئے ادویات میں استمعال کیا جاتا ہے۔ کچھوے ایک سیزن میں 15 تک انڈے دیتی ہیں، کچھوے 10 سال سے لے کر 100 سال تک زندہ رہتے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں کچھوؤں کی موجودگی اور ان کا مستقبل

پاکستان میں فرش واٹر کچھوؤں کی کل 08 اقسام ہیں جن میں 7 خیبر پختونخوا میں پائی جاتی ہیں۔ ضلع ملاکنڈ، چارسدہ اور مردان میں ریسرچ کے بعد اب صرف تین رہ گئی ہیں۔"خیبر پختونخوا وائلڈ لائف اینڈ بائیو ڈاروسٹی ایکٹ 2015" کے مطابق کچھوؤں سمیت کسی بھی جنگلی جانور کا شکار قانونی جرم ہے۔ اسی ایکٹ کے تحت ہی متعلقہ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کچھوؤں کے غیر قانونی شکار پر ایکشن لیتی ہے۔ خیبر پختونخوا وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے ڈی ایف او ہیڈ کوارٹرز صلاح الدین نے بتایا کہ محکمے کے پاس کچھوؤں کی تحفظ کے حوالے سے کوئی پروجیکٹ موجود نہیں ہے۔



یاد رہے کہ پاکستان کلائمنٹ چینج سے متاثرہ ملکوں کی فہرست میں پانچویں نمبر پر موجود ہے۔ انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی بحران کلائیمنٹ چینج بھی کچھوؤں کی معدومی کی ایک وجہ ہے۔ خیبر پختونخوا میں کچھوے متعلقہ محکمے کی نظروں سے اب تک اوجھل ہیں۔ محکمے کے پاس کچھوئوں کو تحفظ کے حوالے آگاہی کا بھی کوئی پروجیکٹ موجود نہیں ہے۔ یاسین نے کچھوؤں کی تحفظ کے حوالے سے بتایا کہ عام لوگوں کو ماحولیاتی نظام میں کچھوے کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری ہے۔ ان کی رہنے کی جگہوں کو تحٖفظ، قانونی شکار پر پابندی سے ان کی معدومیت کو روکا جا سکتا ہے۔ کارخانوں سے نکلے فضلات کو دریاؤں سے روکنا ہوگا۔ اُنہوں نے کہا اگر حکومت نے اس پر جلد ایکشن نہیں لیا تو جلد کچھوے مکمل طور پختونخوا سے معدوم ہو جائینگے۔

حیاتیاتی تنوع کا بُحران

حیاتیاتی تنوع زندگی ہے۔ اقوام متحدہ کی حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی نظام کیلئے مختص آزاد بین الحکومتی ادارے انٹر گورمینٹل پینل آن بائیو ڈاورسٹی اینڈ ایکو سسٹم سروسز (آئی پی بی ایس) کہ حالیہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا میں 70 فیصد بیماریاں حیاتیاتی تنوع کے ضیاع کی وجہ سے انسانوں میں پھیل رہی ہیں۔ اس وقت دنیا میں انسانی سرگرمیوں کی بدولت 10 لاکھ انواع معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ماحولیاتی نظام کی بقا کیلئے کچھوؤں کا موجود ہونا ضروری ہے۔ قدرتی طور پر پانی کو صاف رکھنے کیلئے سکیونجر کچھوؤں کی خیبر پختونخوا سے معدومی خطرے کی ایک گھنٹی ہے، کچھوؤں کا شمار دنیا کے اولین انواع میں ہوتا ہے ہمارے ماحولیاتی نظام سے ان کی معدومی انسانوں کی معدومی سے مترادف ہے۔

آصف مہمند کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے۔ وہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہیں اور کلائمیٹ چینج اور دیگر ماحولیاتی موضوعات سے متعلق لکھتے ہیں۔