کیا ساؤتھ فلم انڈسٹری نے بالی ووڈ کا راج ختم کر دیا ہے؟

کیا ساؤتھ فلم انڈسٹری نے بالی ووڈ کا راج ختم کر دیا ہے؟
اگر چہ دنیا بھر میں فلمسازی کے حوالے سے امامت ہالی وڈ نے ہی کی مگر بھارت ہمشہ سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ فلمیں بنانے والا ملک رہا ہے جہاں ہر سال 400 کے قریب فلمیں ریلیز ہوتی ہیں جو 10 سے زائد زبانوں میں ہوتی ہیں۔

چار بڑے فلمی مراکز جن میں ممبئی،چنئی ،حیدرآباد ،اور کولکتہ رہے ہیں مگر مرکزیت میں ہمشہ بالی وڈ نے ساؤتھ انڈین فلموں کو اپنے سے کئی قدم پچھے ہی رکھا۔ بالی وڈ کی طرح ساؤتھ انڈین فلموں کو دنیا بھر میں ریلیز کیا جاتا تھا جن تامل ،تلگو ،میالم ،اور کنڑا بھاشا کی فلمیں شامل ہیں ،مگر جب ہندی سنیما اور ساؤتھ انڈین سنیما کا موازنہ ہوا ہمشہ سبقت ہندی سنیما کو رہی، ایک بنگالی بھاشا ہے مگر وہاں ہمشہ متوازی سنیما کی فلمیں ہی چلیں۔

جو مقبولیت ہندی سنیما کے سپر اسٹارز دلیپ کمار، راج کپور، دیو آنند سے ہوتی ہوئی راجش کھنہ، امیتابھ بچن، دھرمیندر، مٹھن چکرورتی، انیل کپور، سنی دیول ، سنجے دت، شاہ رخ خان، عامر خان، سلمان خان۔ اجے دیوگن۔ اکشے کمار۔ ہری تک روشن کو ملی وہاں تک ساؤتھ انڈین اسٹارز جن میں رجنی کانت، کمل ہاسن جیسے بلند پایہ ایکڑ اسکے علاہ چرن جیو ،ناگر جونا شامل ہیں نہیں پہنچ سکے۔

مگر پچھلے تین سالوں میں حالات نے پلٹا کھایا ہے، ہندی سنیما ساؤتھ انڈین سنیما کے سامنے ماند پڑ رہا ہے، کبھی ہندی سنیما جو پین انڈیا سنیما کہلاتا تھا اب یہ اعزاز ساؤتھ انڈین سنیما کو حاصل ہو رہا ہے۔ ساؤتھ انڈین سنیما کی چار فلموں نے جس نے پین انڈیا اور پوری دنیا میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اس نے بولی وڈ کی مرکزیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، کیا اب مرکز تبدیل ہونے جا رہا ہے؟

بھارت میں اب یہ بحث فلمی حلقوں میں چل رہی چار ساؤتھ انڈین فلمیں جن میں باہو بلی 2 ،ربوٹ 2.0 ،ٹرپل آر، اور کے جی ایف 2 شامل ہیں ان کی شاندار پین انڈیا کامیابی اور پچھلے تین سالوں بالی ووڈ کی کوئی بھی پین انڈیا کامیابی حاصل نہیں کر سکی جو فلمیں سپر ہٹ ہوئی وہ ہندی سرکٹ تک محدود رہی ہیں۔ اب ساؤتھ انڈین سٹارز پربھاس ،رام چرن ،جونیر این ٹی آر اور یش کسی طرح بھی بالی وڈ سٹارز سے کم پاپولر نہیں ییں۔

جہاں تک بالی وڈ فلموں کی ناکامی کا تعلق اس کی کچھ وجوہات ہیں ان میں سرفہرست معیاری موسیقی کا فقدان ہے۔ ہندی سنیما ہمشہ سے اپنی مدھر موسیقی کے باعث دلوں حکومت کرتا رہا۔ حسرت جے پوری، ساحر لدھیانوی، بخشی، کفیی اعظمی، مخدوم محی الدین، جاوید اختر اور گلزار جیسے شاعر جو ہندی سے زیادہ اُردو زبان کے لفظ استعمال کرتے تھے ان گیتوں کو شنکر جے کشن، مدن موہن ایس ڈی آر ڈی برمن، لکشمی کانت، پیارے لال، انو ملک، ندیم شراون جیسے موسیقار کشور کمار، مکیش، محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، کمار سانو، ادت نرائن اور الکا یاگنک جیسے گاہکوں نے امر کر دیا۔

ہندی سنیما نے اپنی اس روایت کو فراموش کر دیا اور پنجابی پاپ گانے والے گلوکار وں کو موقع دینے لگے جو ہندی فلموں میں پنجابی کے لفظوں کو استعمال کرنے لگے جس ہندی سنیما کی موسیقی کو بہت نقصان پہنچا دیا اور اسکی مقبولیت کم ہونے لگی پھر ہندی سنیما اپنی روح سے ہٹ گیا جن رسم رواجوں رشتوں اور جذبات پر فلمیں بنائی جاتی تھیں انکے جگہ ہم جنس پرستی، ویمن اپرومنٹ کے نام پر اپنی تہذیب روایت کو پاؤں تلے روندتی ہوے موضوعات پر فلمیں بنائی جو صرف ایک مخصوص طبقہ کو پسند آتی تھی پھر اورنجنل کہانی کا فقدان ہالی وڈ اور ساؤتھ انڈین فلموں کے ری میک نے بہت نقصان دیا، اسکے برعکس ساؤتھ انڈین سنیما مدھر موسیقی اپنی تہذیب اور روایات سے جڑے مضوعات اور اروجنل کہانیوں کے باعث پین انڈیا کامیابیاں حاصل کرتا گیا اور آج ایک سوالیہ نشان لگا رہا کہ آیا بالی وڈ اپنی مرکزیت کھو چکا ہے یہاں دوبارہ کم بیک کرے گا؟

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔