'اب تو یہی دعا کرتے ہیں کہ اگر میرا بھائی زندہ نہیں لوٹتا تو کم از کم اس کی لاش ہی لوٹ آئے'

'اب تو یہی دعا کرتے ہیں کہ اگر میرا بھائی زندہ نہیں لوٹتا تو کم از کم اس کی لاش ہی لوٹ آئے'
یہ سال 2016 کے فروری کا مہینہ تھا اور میں اپنے بھائی جو "ٹرک ڈرائیور" تھے، کے ساتھ ٹرک لوڈ ہونے کے انتظار میں ایک اڈے  پر بیٹھا تھا۔ میرا بڑا بھائی سالار (فرضی نام) ٹرک چلاتا تھا اور میں ان کے ساتھ بطور معاون ڈرائیور کام کرتا تھا۔

ہم چائے پر دیگر ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے کہ اس دوران سرکاری نمبر پلیٹ کی دو گاڑیاں ہمارے پاس آکر رکیں۔ گاڑیوں سے سادہ لباس میں ملبوس 8 کے قریب مسلح لوگ نیچے آئے اور ہمارے قریب پہنچتے ہی گرجتے ہوئے پوچھا! "تم میں سے سالار کون ہے"؟

اُن کے غصے کو دیکھ کر وہاں موجود تقریباً تمام ڈرائیوروں نے میرے بھائی کی طرف دیکھا جس کے بعد مسلح لوگ میری بھائی کی جانب بڑھے اور ان کا "شناختی کارڈ" چیک کرنے کے بعد گردن سے پکڑ کر گاڑی میں ڈال کر اپنے ساتھ لے گئے۔

سالار کے بھائی کہتے ہیں ہم نے کچھ مہینے اس امید پر انتظار کیا کہ شاید بھائی لوٹ آئے لیکن جب مہینوں بعد واپسی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے، تو ہم نے جبری گمشدگیوں کے کمیشن میں درخواست دائر کردی۔

درخواست دائر کرنے کے بعد دو سال تک کیس چلا اور میرے بھائی کا پروڈکشن آرڈر جاری کیا گیا۔ پروڈکشن آرڈر جاری ہوئے چھ مہینے سے زائد عرصے کا وقت گزر چکا ہے لیکن تاحال نہیں معلوم، میرا بھائی کہاں پر ہے؟ زندہ ہے یا مردہ؟

وہ کہتے ہیں ہم نے پشاور ہائی کورٹ میں بھی کیس دائر کیا لیکن وہاں سے بھی مایوسی ہوئی اور اب ہم بے یارومدد گار اس انتظار میں ہیں کہ شاید بھائی کسی روز زندہ لوٹے یا کم از کم ان کے لاش ہی لوٹ آئے۔

سالار کی عمر اس وقت 45 سال تھی، جب اُن کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ ان کا تعلق قبائلی ضلع سے ہے مگر وہ چارسدہ میں خاندان سمیت کئی سال سے رہائش پذیر تھے۔

وہ چار بچوں کے باپ اور شوگر کے مرض میں مبتلا تھے۔ اُن کے بھائی نے کہا جب کمیشن کی جانب سے پروڈکش آرڈر جاری ہوا اور پھر بھی رہائی نہیں ہو رہی تھی تو کمیشن میں ایک افسر سے پوچھا "رہائی کا حکم ہونے کے باوجود میرا بھائی کیوں رہا نہیں ہو رہا؟ تو انھوں نے مختصر جواب دیا کہ اللہ سے مانگو کیونکہ جن کے پاس ہے وہ ہم سب سے طاقتور ہیں۔

2022 کے پہلے چھ مہینوں میں لاپتہ افراد کے کتنے نئے کیسز درج ہوئے؟

پاکستان میں لاپتہ افراد پر کام کرنے والے کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق سال 2022 کے پہلے چھ مہینوں میں لاپتہ افراد کے 351 نئے کیسز درج ہوئے۔ اعدادوشمار کے مطابق جنوری میں لاپتہ افراد کے 34، فروری میں 48، مارچ میں 76، اپریل میں 122، مئی میں 35 جبکہ جون کے مہینے میں 36 کیسز درج ہوئے۔

کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق "کمیشن کے قیام سے اب تک لاپتہ افراد کے کل 8 ہزار 696 کیسز درج ہو چکے ہیں جن میں سے 6 ہزار 513 کیسز پر کام مکمل کیا جا چکا ہے جبکہ 2 ہزار 219 کیسز تاحال زیر التوا ہیں۔

لاپتہ افراد کے حوالے سے خصوصی کمیٹی کا قیام

وفاقی حکومت نے جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کے حوالے سے کابینہ کی خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو اپنی رپورٹ کابینہ کو پیش کرے گی۔ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کمیٹی کے چیئرمین ہوں گے جبکہ ارکان میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت شازیہ مری، وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود، وزیر دفاعی پیداوار اسرار ترین، وزیر بحری امور فیصل سبزواری اور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آغا حسن بلوچ شامل ہیں۔

فوج کے زیر نگرانی حفاظتی مراکز میں کتنے لوگ قید ہیں؟

لاپتہ افراد کے کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں 962 افراد قید ہے، جن میں سب سے زیادہ تعداد 803 خیبر پختونخوا کے شہریوں کی ہیں۔ کمیشن کے مطابق اب تک 5 ہزار 242 افراد کا سراغ لگا لیا گیا ہے۔ سراغ لگائے گئے افراد میں 3 ہزار 448 افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں جبکہ دیگر فوج کے زیر نگرانی حفاظتی مراکز اور جیلوں میں قید ہیں۔ کمیشن کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق کمیشن کے پاس درج لاپتہ افراد کے کل کیسز میں سے 234 افراد کی لاشیں برامد ہو چکی ہیں۔

لاپتہ افراد کے سالانہ وار اعدادوشمار کیا ہیں؟

کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ چھ سالوں میں لاپتہ افراد کے درج ہونے والے کیسز میں سب سے زیادہ کیسز سال 2021ء میں درج ہوئے۔ سال 2016ء میں لاپتہ افراد کے 728، سال 2017ء میں 868، 2018ء میں 1098 میں، سال 2019ء میں 800 جبکہ 2020ء میں 415 کیسز درج ہوئے۔

2021ء میں بلوچستان کے کتنے لاپتہ افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹے؟

کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2021ء میں بلوچستان کے 249 لاپتہ افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹے۔ جون میں 137، نومبر میں 67 جبکہ دسمبر کے مہینے میں 45 لاپتہ افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹے۔

جبری گمشدگیوں کا کمیشن اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے گذشتہ ماہ لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے تھے کہ جبری گمشدگیوں کے کمیشن کا اصل مقصد تو تھا کہ کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسا نہ کرے۔ 2011ء سے کمیشن بیٹھا ہوا ہے اور کوئی حکومت کو سفارشات نہیں دیں۔ کیوں نہ عدالت قرار دے کہ جبری گمشدگیوں کا کمیشن اپنے قیام کے مقاصد پورے کرنے میں ناکام رہا۔

بلوچستان کے طالب علموں کی نسلی پروفائلنگ پر کمیشن کا قیام

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کے تحت قائم کئے گئے کمیشن کا پہلا اجلاس 4 جولائی کو طلب کر لیا ہے۔ کمیشن بلوچ طلبہ کی نسلی پروفائلنگ اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر کام کریگی۔ کمیشن اجلاس کی سربراہی کنونیر وچئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کرینگے جبکہ کمیشن نے سیکرٹری انسانی حقوق کو چار جولائی صبح ساڑھے دس بجے طلب کر لیا۔ کمیشن کے دیگر ممبران میں سینیٹر رضا ربانی، افراسیاب خٹک، اسد عمر، کامران مرتضیٰ اور سینیٹر مشاہد حسین سید شامل ہے۔

600 لاپتہ افراد کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے پر رہائی کیوں نہیں ہوئی؟

ملک میں لاپتہ افراد پر کام کرنے والی انسانی حقوق کی کارکن آمنہ مسعود جنجوعہ نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ یہ بات تو واضح ہے کہ یہ کمیشن اپنے اہداف حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کمیشن نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو جو رپورٹ جمع کرائی ہے اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کمیشن نے 600 لاپتہ افراد کے پروڈکشن آرڈرز جاری کئے ہیں مگر ان تمام کیسز میں کسی کی بھی رہائی نہیں ہوئی۔ آمنہ مسعود کہتی ہیں ہر پروڈکشن آرڈر میں ذمہ دار خفیہ ایجنسی کو احکامات دئیے گئے ہیں کہ "یہ لاپتہ فرد اپ کی حراست میں ہے اور اس کو رہا کریں " لیکن نہ وہ رہا کر رہے ہیں اور نہ ہی اُن کو قانون کے کٹھرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔

وہ کہتی ہیں پہلے دہشتگردوں سے روابط کے الزام میں لوگوں کو اٹھایا جاتا تھا لیکن اب انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت سیاسی اور سماجی طور پر تنقیدی سوچ سمیت سوشل میڈیا پر متحرک آوازوں کو بھی اُٹھایا جا رہا ہے اور کراچی میں ارسلان خان کا کیس اس کا زندہ مثال ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے خفیہ اداروں پر جبری گمشدگیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگتا ہے مگر وہ مسلسل ایسے الزامات کی تردید کرتی آ رہی ہے۔ گذشتہ ہفتے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض پیرزادہ نے ڈان ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ کچھ لاپتہ افراد کے ہندوستانی جاسوس کلبھوشں یادوکے ساتھ روابط تھے۔

لاپتہ افراد کا بل لاپتہ کیوں ہوا؟

گذشتہ روز سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کو سیکریٹری وزارت انسانی حقوق نے بتایا کہ لاپتہ افراد کا بل تاحال لاپتہ ہے اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس بل کا سراغ لگالے۔ سابق وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بل پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس بل پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو تین سال میں قائل کیا تھا۔

کیا فوجی قیادت جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہے؟

گذشتہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایک ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حکومت سمیت فوج قیادت بھی لاپتہ افراد کے مسئلے کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہے اور دونوں فریق چاہتے ہیں کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہو۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے نیا دور میڈیا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مہذب معاشروں میں جبری گمشدگیوں کا ہونا انتہائی سنگین مسئلہ ہے اور اب اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل ہونا چاہیے۔

مجھ پر عید سے پہلے عید آئی ہے

گذشتہ روز خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند میں 7 سے زائد لاپتہ افراد سالوں بعد اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے۔ ان تمام لاپتہ افراد نے فوج کے زیر نگرانی حفاظتی مراکز میں 6 سے 11 سال قید گزاری۔ نیا دور میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک لاپتہ فرد "جو ہفتے کے روز رہا ہونے والوں میں شامل تھے کہ والد نے بتایا کہ اُن کو یقین تھا کہ اُن کا بیٹا زندہ نہیں ہوگا۔ لیکن جمعے کے روز ہمیں اطلاع دی گئی کہ آپ کا بیٹا رہا ہونے والا ہے۔ ٹیلیفون کال پر بات کرتے ہوئے ان کے والد آبدیدہ ہو گئے اور کچھ لمحوں بعد بات شروع کرتے ہوئے کہا" ہمیں جیسے ہی اطلاع ملی تو ہم پوری رات نہیں سوئے، ساری رات نوافل پڑھے اور صدقہ دیا اور آج میرا بیٹا میرے پاس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جن کا بچہ لاپتہ ہوتا ہے نہ زندہ اور نہ مردہ ہونے کا جب علم ہو تو زندگی جہنم بن جاتی ہے اور گھر میں لاش تو نہیں ہوتی مگر ہر سانس میں ماتم کا سماع ہوتا ہے۔ بس اللہ یہ درد کسی کو نہ دکھائے۔

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔