"پولیس گردی/تھانہ کلچر"، ایک ’کلک‘ نے نظامِ انصاف کو ’ننگا‘ کر دیا

یہ انسان جو بیس تیس ہزار کی چوری یا اس سے بھی کم تر کسی غلطی کی بنا پر تھانوں کے محافظوں کے ہاتھوں غیرانسانی صورت حال سے دوچار ہے۔ اس کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اربوں روپے چوری کرنے والوں کے پیچھے یہی قانون کے محافظ سر جھکائے کھڑے ہوتے ہیں یا ان کے لیے راستے آسان کرنے کی ڈیوٹی پر مامور ہوتے ہیں۔ ہمارے دوست طاہر مودی کے کیمرے کی ایک کلک نے درحقیقت اس نظام انصاف کو ننگا کیا ہے۔

پولیس ٹارچر ہمارے معاشرے کا دیرینہ بلکہ مستقل ایشو ہے، ایسے دل خراش واقعات ریکارڈ پر ہیں، جن کی خبریں، فیچرز شائع ہوئے، اگرچہ تصاویر بھی بنیں مگر بوجوہ شائع نہ ہو سکیں۔ ہماری صحافتی تاریخ میں، یہ پہلی تصویر تھی جو بھاری نفری والے تھانہ میں بنی، پیشہ وارانہ مہارت سے محفوظ کرکے کامیابی سے باہر لائی گئی اور تمام تر دبائو کے باوجود چھپائی یا بیچی نہیں بلکہ شائع کی گئی۔ اس تصویر نے سب کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس کی تشہیر دنیا بھر میں ہوئی، بہت پذیرائی ملی،ایوارڈز اور اعزازت دیئے گئے۔

ان دنوں وفاق میں پاکستان پیپلزپارٹی جبکہ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی۔ پارلیمنٹ میں ن لیگی ڈپٹی اپوزیشن لیڈر گوہر ایوب خان نے اس تصویر کو روزنامہ ’’خبریں‘‘ کے صفۂ اوّل پر نمایاں شائع کرا کے اس کے اوپر یہ ’’اوورکیپشن‘‘ لگوایا:
"Humen Rights in Beanzir Bhutto's Pakistan"
اور یوں روایتی پولیس گردی کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ایکسپلائیٹ کیا گیا اس شہرئہ آفاق تصویر کے سیاق و سباق کی مختصر روداد پیش خدمت ہے۔

جمعرات 26اور جمعہ 27اکتوبر1995ء کی درمیانی شب ڈھائی تین بجے روزنامہ ’’اخبارلاہور‘‘ کی ٹیم ایڈیٹر اقبال جکھڑ کی زیر قیادت تھانہ باغبانپورہ لاہور پہنچی، ٹیم میں ڈپٹی ایڈیٹر اعجاز مرزا، اسسٹنٹ ایڈیٹر عامر رانا، کرائم رپورٹر رجب علی شیخ اور سٹاف فوٹوگرافرز تقویم شیخ اور طاہر محمود مودی شامل تھے۔ اس منظر کو مودی کے کیمرہ نے محفوظ کیا۔میڈیا ٹیم تمام رکاوٹیں عبور کرکے تھانہ کے اندر پہنچی تو سامنے موجود اس منظر میں ایس ایچ او ریاست جاوید باجوہ باوردی اہلکاروں کے ہمراہ سول لباس میں ’’مصروف تفتیش‘‘ تھا۔ یہ تصویر ہفتہ 28اکتوبر 1995ء کے ’’اخبارلاہور‘‘ میں صفحۂ اول پر نمایاں شائع ہوئی، وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے براہ راست ایکشن لیا، تمام متعلقہ ادارے، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں متحرک ہوئیں، عدلیہ نے ازخودنوٹس لے کر کارروائی کی۔

پولیس کا تشدد
پولیس کا تشدد


’’اخبارلاہور‘‘ کی اس تصویر کو روزنامہ ’’خبریں‘‘ ،روزنامہ ’’جنگ‘‘ سمیت قومی اخبارات و جرائد نے بار بار شائع کیا۔ عالمی میڈیا میں بہت چرچا ہوا، خصوصی ایڈیشن چھاپے گئے،سپیشل ٹرانسمشنز پیش کی گئیں، ٹاک شوز بپاہوئے، ڈاکیومینٹریز ریلز ہوئیں، ناروے کے سب سے ضخیم اور کثیرالاشاعت اخبار نے اس تصویر کے عکاس طاہر محمود مودی کا تفصیلی انٹرویو2بڑے رنگین صفحات کی زینت بنایا۔ اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمون نے اعزازت، ایوارڈز دیئے، ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘‘ نے اسے جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق پر اپنی سالانہ رپورٹ کا ٹائیٹل بنایا۔ یہ تصویر دنیا بھر کی متعدد فوٹو لائبریریز، یونیورسٹیز، پریس کلبز اداروں، تنظیموں کے شعبہ ’’ریکارڈ اینڈ ریفرنس‘‘ کا حصہ بن چکی ہے۔ اسے متعدد بین الاقوامی تصویری نمائشوں میں بھرپور پذیرائی ملی۔ بڑے سائز میں فریم شدہ یہ تصویر ’’مچ گیلری‘‘ لاہور پریس کلب میں آویزاں کی گئی(اس تصویر میں ’’زیرتفتیش‘‘ فرد کو جس طرح جکڑا گیا ہے اسے پولیس کی زبان میں ’’چرغہ بنانا‘‘ کہا جاتا ہے)

فوٹوگرافر طاہر مودی
فوٹوگرافر طاہر مودی


پاکستان میں حال ہی میں ایک قابل تعریف بل پاس ہوا ہے۔ یہ حراست میں تشدد کے خلاف ایک بہترین بل ہے۔ مگر کسی نے اس بل کو اہمیت نہیں دی۔ نہ تو اخبارات نے اس پر سرخیاں جمائیں، اور نہ ہی اس کی توصیف میں لکھاریوں نے کالم لکھے۔ استشنا کے طور پر البتہ ایک آدھ اخبار نے اس پر اداریہ لکھا جو قابل تحسین ہے۔ اس طرح کے موضوعات پر عموماً کالم اس لیے نہیں لکھے جاتے کہ ان کو زیادہ مقبولیت نہیں ملتی۔ سوشل میڈیا پر ’’لائیک‘‘ نہیں آتے۔ اس سے کوئی معاشی یا سیاسی فائدہ نہیں ہوتا۔

یہ موضوع ایسے لوگوں سے متعلق ہوتا ہے جن کے پیچھے کوئی لابی، کوئی با اثر سیاست دان، سیاسی پارٹی یا سرمایہ کار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے اہم ترین مسائل سے جڑے موضوعات کے بارے میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ ان کا وجود ہی نہیں، اور اگر ہے بھی تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
گزشتہ سال یا گزشتہ سے پچھلے برس پاکستان میں جیلوں کی مخدوش حالت اور قیدیوں کے ناگفتہ بہہ حالات پر ایک کالم لکھا گیا۔ جس کے جواب میں ایک قیدی نے اپنے دوست کے توسط سے یہ پیغام دیا کہ اس نے اپنے عرصہ قید میں قیدیوں کے حالات پر یہ پہلا کالم پڑھا ہے، اور شکر گزار ہے۔ ظاہر ہے اس دور میں جب لوگ سوشل میڈیا پر مقبولیت کی دوڑ میں مبتلا ہوں، قیدیوں کے حالات پر کون لکھے گا۔ ان لوگوں کی تو سوشل میڈیا پر وہ رسائی نہیں کہ آپ کی تعریفوں کے پل باندھ سکیں۔ یہی بات تشدد کے خلاف اس بل پر بھی صادق آتی ہے۔ یہ بل ملزمان، مجرمان یا ان کے عزیر و اقارب کے ساتھ پولیس کے سلوک کے بارے میں ہے۔

سینئر صحافی اقبال جھکڑ
سینئر صحافی اقبال جھکڑ


اس ’’سلوک‘‘ سے مراد پولیس کا ملزمان پر تشدد، ان کے عزیز و اقارب کی بے جا گرفتاریاں اور ان سے معلومات کے حصول کے لیے ان پر تشدد یا ان کی ناجائز اور غیر قانونی حراست شامل ہے۔ اس میں خصوصاً ملزمان کی قرابت دار خواتین کی گرفتاری یا ملزمان کی تلاش و گرفتاری کے دوران ان سے بد سلوکی اور بسا اوقات بے حرمتی کے واقعات شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ پولیس کی ان کارروائیوں اور بد سلوکی کا شکار ہونے والے بے شمار لوگوں کا تعلق سماج کے کم خوش قسمت، غریب اور بے بس طبقات سے ہوتا ہے، اس لیے کوئی ان پر توجہ نہیں دیتا۔

ان کے حق کے لیے کالم اور اداریے نہیں لکھے جاتے۔ اینکر پرسنز کی ان میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ پاکستان میں تھانوں اور عقوبت خانوں میں سرکاری اہلکاروں کی طرف سے تشدد کا وحشیانہ عمل پاکستان کی تشکیل سے لے کر آج تک جاری ہے۔ اس کا آغاز نوجوان ترقی پسند رہنما حسن ناصر سے ہوا تھا، جن کو تشدد سے شاہی قلعہ میں شہید کیا گیا۔ نذیر عباسی سمیت کئی سیاسی کارکن اس تشدد کا شکار ہوئے۔ اس دوران چوہتر برسوں میں اس باب میں دنیا میں ناقابل یقین تبدیلیاں آئی۔

پوری دنیا اس بات پر تقریباً اتفاق کر چکی ہے کہ پولیس تشدد ایک وحشیانہ اور ظالمانہ عمل ہے، جس کی روک تھام کے لیے قانون سازی سمیت دیگر ضروری اقدامات ضروری ہیں۔ اس بات کا اعلان اقوم متحدہ نے چھبیس جون انیس سو ستاسی میں اپنے کنوینشن میں کیا تھا، اور عالمی قانون کی حیثیت سے اس کو اپنے آرٹیکل میں شامل کیا تھا۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے اس کنوینشن کی روشنی میں اس حوالے سے قانون سازی کی۔ لیکن پاکستان میں کسی پارلیمنٹ نے اس کنوینشن کی روشنی میں، جسے پاکستان عالمی برادری کے سامنے تسلیم کرچکا تھا، قانون سازی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

مختلف پارلیمان کے دور میں پاکستان میں پولیس تشدد کے کئی ظالمانہ واقعات ہوئے۔ کئی لوگوں کی تھانوں اور عقوبت خانوں میں تشدد سے موت واقع ہوئی۔ یہاں تک کہ سیاسی کارکنوں کو سرکاری تحویل میں عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس شدت کے باوجود پارلیمان اپنے فرض منصبی پورا کرنے میں ناکام رہی۔ بالآخر یہ فریضہ پارلیمان نے سر انجام دیا، اور سرکاری تحویل میں تشدد کے خلاف بل پاس کر دیا۔

یہ بل پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمن نے پیش کیا۔ اور وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے اس کی حمایت کی، بل کے چیدہ چیدہ نقاط میں پہلا نقطہ یہ ہے کہ پاکستان میں تشدد میں ملوث کسی بھی سرکاری ملازم کو 10 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
اگر کوئی سرکاری ملازم، جس کا فرض تشدد کو روکنا ہے، وہ جان بوجھ کر یا غفلت سے اس کی روک تھام میں ناکام ہو جائے، تو اسے پانچ سال قید اور دس لاکھ روپے تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جو بھی شخص کسی شخص کی دوران حراست موت کا باعث بنتا ہے، دوران حراست جنسی تشدد کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے، اس جرم کی سازش کرتا ہے، یا اس جرم کے ارتکاب میں کسی اور کی مدد کرتا ہے، اسے عمر قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے، جس کی حد تین ملین روپے تک ہو سکتی ہے۔ ’’

اس کے علاوہ، اگر کوئی سرکاری ملازم، جس کا قانونی فرض حراست کے دوران اموات اور حراست کے دوران جنسی تشدد کی روک تھام کرنا ہے، وہ جان بوجھ کر یا غفلت کی وجہ سے ایسا کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے، تو اسے کم از کم سات سال قید اور ایک ملین روپے تک جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

بل کے مطابق، جرمانہ مقتول یا ان کے قانونی ورثاء کو ادا کیا جائے گا۔ اگر جرمانہ ادا کرنے میں ناکامی کی صورت میں سرکاری ملازم کو بالترتیب تین سال اور پانچ سال تک اضافی قید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان میں عموماً دیکھا گیا ہے کہ پولیس کسی ملزم کی گرفتاری میں ناکامی پر ملزم کے عزیر و اقارب کر گرفتار کر لیتی ہیں۔ یہ ایک غیر مہذب ہتھکنڈا ہے، جس پر پوری مہذب دنیا میں پابندی ہے۔ اس صورت حال کے تدارک کے لیے بل میں کہا گیا ہے کہ ’’کسی بھی شخص کو جس پر کسی جرم کا الزام عائد کیا گیا ہے، اس شخص کا ٹھکانہ معلوم کرنے یا اس کے خلاف شہادت اور ثبوت حاصل کے لئے کسی اور شخص کو تحویل میں نہیں لیا جاسکتا ہے۔ اس طرح خواتین کے تحفظ اور پولیس کے ہاتھوں ان کی بے حرمتی کے واقعات کی روک تھام کے لیے بل میں واضح کیا گیا ہے کہ خواتین کو صرف ایک خاتون اہلکار کے ذریعہ ہی تحویل میں لیا جاسکتا ہے۔

اس بل میں حراست کے دوران کسی شخص پر تشدد کی صورت میں شکایت درج کرنے کا طریقہ کار بھی بتایا گیا ہے۔ عدالت کو جب کسی شخص کی شکایت موصول ہوگی وہ سب سے پہلے اس شخص کا بیان ریکارڈ کرے گی، اور ہدایت کرے گی کہ اس شخص کا طبی اور نفسیاتی معائنہ کیا جائے، جس کا نتیجہ 24 گھنٹوں میں عدالت میں پیش کرنا پڑے گا۔

اگر عدالت کو شواہد مل جائیں کہ تشدد ہوا ہے تو عدالت اس معاملے کو مزید کارروائی کے لئے سیشن کورٹ کے پاس بھیجے گی۔ سیشن عدالت تحقیقات کی ہدایت کرے گی اور 15 دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے گی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ سیشن عدالت روزانہ کی بنیاد پر شکایت کی سماعت کرے گی اور 60 دن میں فیصلہ سنائے گی۔ بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ تشدد کے ذریعے نکالا جانے والا بیان عدالت میں ناقابل قبول ہوگا۔ اس بل میں کچھ خامیاں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔

مگر بحیثیت مجموعی یہ ایک اچھا بل ہے۔ لیکن ریاست کا اصل امتحان اس بل پر عمل درآمد ہے۔ پولیس اور دوسرے اداروں کی اس وقت جو حالت زار ہے، اور تشدد کا کلچر جس طرح ان میں عام ہے، اس کی موجودگی میں بل کا عملی نفاذ ایک بڑا چلینج ہے۔ اگر اس بل پر پچاس فیصد بھی عمل کیا گیا تو ’’کرمینل جسٹس سسٹم‘‘ یعنی فوج داری نظام انصاف میں نمایاں تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔

طاہر اصغر مصنف و صحافی ہیں ان کی دلچسپی کے موضوعات پروفائل اور آپ بیتی لکھنا ہے۔ وہ جالب بیتی اور منٹو فن و شخصیت کی کہانی کے مصنف ہیں۔ زیر طبع ناول ’’قصہ غوغا غٹرغوں‘‘ ہے ۔موسیقی اور ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔