عمران ریاض خان کے وہ 5 جرائم جن کی ریاست نے ان کو کھلی اجازت دے رکھی تھی

عمران ریاض خان کے وہ 5 جرائم جن کی ریاست نے ان کو کھلی اجازت دے رکھی تھی
سوشل میڈیا کے ذریعے پی ٹی آئی کا بیانیہ پھیلانے کے لئے مشہور عمران ریاض خان اس وقت سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ان کو گذشتہ رات اٹک پولیس نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل کرنے کے لئے اسلام آباد جا رہے تھے۔

پی ٹی آئی کی پوری قیادت سمیت خود عمران خان نے اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میں پنجاب پولیس کی جانب سے عمران ریاض خان کی بلا جواز گرفتاری کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ ہماری قوم کو چھٹے ہوئے بدمعاشوں پر مشتمل امپورٹڈ حکومت کے سامنے جھکانے کے لئے ملک فسطائیت کے سپرد کیا جا رہا ہے۔

دھیان رہے کہ آج آزادی صحافت کا ساتھ دینے کا دعویٰ کرنے والے یہی عمران خان تھے جن کے دور اقتدار میں ہزاروں صحافیوں کو بے روزگار کیا گیا۔ جو چینل یا اخبار عمران خان کا بیانیہ نہ چلاتا یا ان کے خلاف خبر لگاتا تو اس کے اشتہارات بند کر دیے جاتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میڈیا اداروں نے پیسوں کی کمی کا بہانہ بناتے ہوئے صحافیوں کو نوکریوں سے نکالنا شروع کر دیا تھا۔

عام صحافی ہی نہیں بلکہ میڈیا انڈسٹری کے کئی معتبر ناموں جن میں طلعت حسین، عنبر شمسی، نصرت جاوید، مرتضیٰ سولنگی، مطیع اللہ جان، عمار مسعود جیسے بڑے نام شامل تھے کو نوکریوں سے نکلوایا گیا۔ ایک پریس کانفرنس میں جب سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بڑی ڈھٹائی سے کہا تھا کہ ٹی وی چینلز کا دور تو ختم ہونے والا ہے، آنے والا وقت سوشل میڈیا کا ہے۔

ابصار عالم، مطیع اللہ جان، اسد علی طور اور احمد نورانی پر حملوں کی شاید ہی کسی پی ٹی آئی رہنما نے پرزور مذمت کی ہو، جس طرح اب عمران ریاض خان کی گرفتاری پر کی جا رہی ہے۔

حال ہی میں اے آر وائے نیوز کے ایک پروگرام میں سینئر صحافی رؤف کلاسرا نے انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف کوئی صحافی ٹویٹ کرتا تھا تو اسٹیبلشمنٹ سے دھمکیاں دلوائی جاتی تھیں۔ رؤف کلاسرا نے کہا کہ سب کو یاد ہے کہ عمران خان نے صحافیوں کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کو کس طرح استعمال کیا تھا۔ ان کی سوشل میڈیا ٹیم تمام صحافیوں کے ٹوئیٹس کو مانیٹر کرتی تھیں کہ فلاں فلاں ٹوئیٹ ہماری حکومت کے خلاف کیوں کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہ لوگ ان ٹوئیٹس کو ڈیلیٹ کرانے کی خود کوشش کرتے تھے لیکن جب ناکام ہوتے تو پھر آبپارہ کی مدد لی جاتی تھی کہ فلاں فلاں جرنلسٹ کو فون کر کے کہیں کہ فوری طور پر ٹوئیٹ کو ڈیلٹ کر دے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ بڑے بڑے صحافیوں کو فون کر کے دھمکیاں دی جاتی تھیں کیونکہ خان صاحب چاہتے تھے کہ ان ٹوئیٹس کو ہٹایا جائے۔ ٹی وی شوز اور کالم تو ایک طرف عمران خان کے دور میں کوئی صحافی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف کھل کر ٹوئیٹ نہیں کر سکتا تھا۔

رؤف کلاسرا نے کہا کہ عمران خان ہمیشہ مغرب کی مثالیں دیتے ہیں لیکن کیا کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم اپنی ایجنسیوں کو کہے کہ ان کے خلاف ٹوئیٹ کو ہٹوایا جائے۔ ایک اچھے وزیر اعظم کو تو کبھی میڈیا اور عدلیہ پر ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے، ان دونوں نے ہی بعد میں ان کے کام آنا ہوتا ہے۔

دوسری جانب عمران ریاض خان جیسوں کو پی ٹی آئی حکومت نے فری ہینڈ دیا ہوا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے ان کو عمران خان کی خصوصی آشیرباد حاصل ہے۔ انہوں نے اپنے وی لاگز میں کن کن صحافیوں کی پگڑی نہیں اچھالی اور اپنے الفاظ سے ان کی دل آزاری نہیں کی؟ ابصار عالم ہوں یا مطیع اللہ جان، ان صاحب کے عتاب کا نشانہ بنتے رہے۔

ابصار عالم



 

ابصار عالم کو جب گولی لگی تو موصوف بجائے اس واقعے کی پرزور مذمت کرتے، انہوں نے اپنے وی لاگ میں عجیب وغریب تبصرہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ابصار عالم کے بارے میں نیویارک ٹائمز میں خبر چھپی ہے۔ یہ خبر امریکی اخبار میں چھپنی ہی تھی کیونکہ پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف وہ کبھی بات کرنا نہیں چھوڑتے۔ انہوں نے خبر کی ہیڈلائن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ''فوج پر تنقید کرنے والے صحافی کو گولی مار دی گئی''۔ حالانکہ ابصار عالم خود کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے صحافت کو خیرباد کہہ دیا ہے اور وہ اب مسلم لیگ ن کا حصہ ہیں۔ یوں عمران ریاض خان نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ پاک فوج پر تنقید کے بعد کسی صحافی کو نہیں بلکہ ن لیگی کو گولی ماری گئی۔ ان کی بات سن کر تو یہی سمجھ میں آتا ہے۔

حامد میر 'غدار'



اپنے ایک دوسرے وی لاگ میں عمران ریاض خان نے پاکستان کے جید صحافی حامد میر کو کھلم کھلا غدار قرار دیتے ہوئے ان کو انڈین ایجنٹ قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ حامد میر کا انڈیا کے کئی گروپس کے ساتھ تعلق ہے اور اس کے ان کے پاس ثبوت موجود ہیں۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی وی لاگز کر کے حامد میر اور ان کے حق میں بلند ہونے والی آوازوں کو غدار قرار دیا۔

نور مقدم قتل کیس

https://twitter.com/KhalekKohistani/status/1424812745178943494?s=20&t=Ch9BVS8DKqtZ3TSAOjhyyQ

عمران ریاض خان نے اپنے وی لاگ میں بربریت کا نشانہ بننے والی خاتون نور مقدم کو بھی نہیں چھوڑا تھا۔ انہوں نے پوری مہم نور مقدم کے خلاف چلائی۔ انہوں نے ایک خاتون کی وفات کے بعد اس کے کردار پر گند اچھالا۔ ایک وی لاگ میں کہا کہ کسی نامحرم سے تعلق اور رابطے رکھنا گناہ ہے۔ اور اس طرح کے گناہ کے کاموں کا انجام یہی ہوتا ہے۔ ایک جگہ کہا کہ یہ اپنے باپ سے زیادہ ظاہر جعفر کے ساتھ رابطے میں تھی۔ جن لوگوں نے ان کے اس افسوسناک رویے پر تنقید کی، یہ ان کو بھی لتاڑتے رہے۔

مطیع اللہ جان کے ساتھ ریپ کا الزام اور اس پر گھٹیا انداز میں مذاق

https://twitter.com/MyPMisCorrupt/status/1531239484397867010?s=20&t=6m1B3U83Si3vM6ITAcVZig

عمران ریاض خان نے سمیع ابراہیم کے ساتھ مل کر مطیع اللہ جان پر گھٹیا الزامات کی بوچھاڑ کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے لئے آئے عمران ریاض خان اور سمیع ابراہیم سے مطیع اللہ جان نے سماعت کے حوالے سے سوالات کیے تو دونوں آپے سے باہر ہو گئے اور غلیظ اور نازیبا الزامات عائد کیے۔ عمران ریاض نے کہا کہ مطیع اللہ جان بتائیں انہیں ملٹری اکیڈمی سے کیوں نکالا گیا؟ فوجی بیرک میں کسی نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ سمیع ابراہیم نے بے ہودہ الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے مطیع اللہ جان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک پیارے بچے کی تصویر دیکھی ہے، وہ بچپن میں بہت خوبصورت تھے۔ عمران ریاض خان نے لقمہ دیا کہ کاش ہم بھی ان سے بچپن میں ملے ہوتے۔

صحافی مطیع اللہ جان نے عمران ریاض اور سمیع ابراہیم کی بےہودہ گفتگو پر کہا تھا کہ اگر ان دونوں افراد کے پاس کوئی ثبوت ہے تو ٹی وی چینل پر آئیں اور اپنے یہ الفاظ دہرائیں۔

ناجیہ اشعر

صحافی اور اینکر پرسن ناجیہ اشعر نے بھی عمران ریاض کی گرفتاری پر ٹوئیٹ کرتے ہوئے لکھا کہ آزادی اظہار ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن جھوٹے اور بے بنیاد الزامات نہیں۔ عمران ریاض خان نے مجھ پر ملک دشمنی کے گھٹیا اور بیہودہ الزامات لگائے جس نے مجھے اور میری فیملی کو کئی مہینے ذہنی کرب میں مبتلا رکھا۔

https://twitter.com/najiaashar/status/1544558817278664707?s=20&t=r8wsGe4jlaYQF9Chb8JOPg

انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود میں ان کی غیر قانونی گرفتاری کی مذمت کرتی ہوں۔ ناجیہ اشعر کو جواب دیتے ہوئے انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر نے لکھا کہ "مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ بھی اس کے عتاب کا شکار رہیں۔ مجھ پر اور گلالئی اسماعیل پر اس نے پورا پروگرام کیا اور مجھ پر ناصرف غداری کے الزامات لگائے بلکہ کوئلے کی کان میں شہید ہونے والوں پر بھی بہت بری زبان استعمال کی جس کی وجہ سے ملکی سطح پر مرنے والوں کے خلاف مہم چلی"۔

آج عمران خان ان میں سے کسی بات کے لئے نہیں، فوج پر تنقید کے لئے گرفتار کیے گئے ہیں۔ وائے افسوس، عمران ریاض خان اور ریاستِ پاکستان ایک ہی ذہنیت کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ ریاست کو چاہیے کہ اگر وہ واقعی اس قسم کی صحافت کے خلاف ہے تو لوگوں کو نفرت انگیز مہم چلانے اور جھوٹی خبریں پھیلانے سے روکے، خود پر تنقید سے نہیں۔ البتہ ریاست کے خلاف بھی جھوٹ پر مبنی مہم کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔