ضیا آمریت سے قائم انتہا پسندی کی بنیادوں کو ختم کرنا ہوگا، ٹویٹر اسپیس پر مقررین کا اظہارِ خیال

ضیا آمریت سے قائم انتہا پسندی کی بنیادوں کو ختم کرنا ہوگا، ٹویٹر اسپیس پر مقررین کا اظہارِ خیال
جولائی 1977 میں مارشال کے نفاذ کو ’’یومِ سیاہ‘‘کے طور پر یاد رکھنے کے لیے ٹویٹر اسپیس پر ایک مذاکرہ منعقد کیا گیا۔ مذاکرے کا اہتمام پی پی پی وائس آف بھٹوز کی جانب سے کیا گیا جسے جہانگیر بدر انسٹیٹیوٹ آف ویژن اینڈ لیڈر شپ (JBIVL) کا تعاون حاصل تھا۔

مذاکرے میں پاکستان اور بیرون ملک مقیم پاکستان پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکنان، پی پی پی اوورسیز کے عہدے داران اور کارکنوں سمیت دیگر سیاسی، سماجی و صحافتی شخصیات نے بھرپور جوش اور ولولے کے ساتھ شرکت کی۔

ٹویٹر اسپیس مذاکرے کی نظامت چیف کو آرڈی نیٹر سیف اللہ سیفی نے کی جب کہ اُن کی معاونت، ڈپٹی سیکرٹری شعبہ اطلاعات پی پی پی خیبر پختونخوا اور چئیرمین پی پی پی وائس آف بھٹوز، سید طاہر عباس اور پی پی پی برطانیہ کے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری اور کو آرڈی نیٹر برائے پی پی پی وائس آف بھٹوز برائے یوکے اور یورپ عمر میمن نے کی۔

مقررین نے پانچ جولائی 1977 کو منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے عمل کو ملک کی تاریخ کا بدقسمت دن قرار دیا۔ مذاکرے میں شہید بینظیر بھٹو کی بہن، بی بی صنم بھٹو، دیرینہ دوست وکٹوریہ اسکوفیلڈ، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر برائے امورِ خارجہ بلاول بھٹو کے ترجمان، ذوالفقار علی بدر، معروف صحافی نذیر لغاری اور دیگر اہم شخصیات شامل تھیں۔

محترمہ صنم بھٹو کی، طبیعت کی خرابی کے باوجود کسی بھی ٹویٹر اسپیس کے مذاکرے میں پہلی مرتبہ شرکت نے کارکنوں اور شرکا میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کردیا۔

وہ پروگرام کی ابتدا سے اختتام تک موجود رہیں اور ہر مقرر کی تقریر غور سے سننے کے بعد اپنی رائے کا اظہار بھی کرتی رہیں۔ بعض مواقع پر بالخصوص محترمہ صنم بھٹو کی باتوں سے ماحول میں جذباتی کیفیت بھی طاری ہوئی۔ محترمہ صنم بھٹو نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ تمام مقررین کے خیالات کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔

انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو ہمیشہ اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ضیا آمریت میں برادری ازم کی بنیاد پڑی جس سے ملک کو خطرناک حد تک نقصان پہنچا۔ انھوں نے مزید کہا کہ بلاول بھٹو زرداری سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ میڈیا کو اُن کے مثبت کاموں کو اُجاگر کرنا چاہیے۔ میڈیا کے بعض حصے بلاول بھٹو کی ملک کے لیے خدمات کو عوام کے سامنے پیش کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نوجوانوں کو سیاست میں آگے لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اس موقع پر شہید بے نظیر بھٹو کی دیرینہ دوست وکٹوریہ اسکوفیلڈ نے ضیا آمریت کی شدید مذمت کرتے ہوئے تمام جمہوریت پسندوں، شہید بے نظیر بھٹو کی شخصیت اور ان کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ بھٹو خاندان کو بھی شان دار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پانچ جولائی 1977 کا دن پاکستان، جمہوریت اور اس کے عوام کے لیے ایک بھیانک خواب سے کم نہیں ہے۔

سینئر صحافی نذیر لغاری نے کہا کہ بھٹو خاندان سمیت دیگر جمہوریت پسندوں نے جس طرح ضیا آمریت کا مقابلہ کیا اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ انھوں 5 جولائی 1977 کی یادیں بیان کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت بھی بارشیں ہو رہی تھیں اور ان دنوں بھی یہی موسم ہے۔

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور وزیر برائے خارجہ اُمور، بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان ذوالفقار علی بدر نے اپنے والد اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل، مرحوم ڈاکٹر جہانگیر بدر کی ضیا آمریت میں جدوجہد کا ذکر کیا۔ انھوں بتایا کہ کس طرح دیگر جمہوریت پسندوں اور اُن کے والد نے ضیا آمریت میں اسیری، کوڑوں، پھانسیوں، جلا وطنی اور دیگر صعوبتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

اس موقع پر انھوں نے ڈاکٹر جہانگیر بدر کی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو پر ڈاکٹریٹ کرنے کا ذکر بھی کیا۔ معروف صحافی، فلم میکر اور انسانی حقوق کی علم دار محترمہ بینا سرور نے بھٹو خاندان کی آمریت کے خلاف جدوجہد کو خراجِ عقیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ 5 جولائی 1977 کا بھیانک سایہ آج بھی ہمارے سروں پر مسلط ہے لیکن اس کے باوجود کہیں کہیں امید کی کرنیں بھی چھلکتی ہیں۔ انھوں نے ضیا آمریت میں صحافیوں کی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے انھیں زبردست خراج عقیدت پیش بھی پیش کیا۔

سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ بے نظیر بھٹو دنیا کے تمام ترقی پسندوں اور آزادی پسندوں کے لیے ایک روشن مثال ہیں۔ انھوں نے تجویز دی کہ 5 جولائی کے سانحے کو نصاب کا حصہ بنانا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اس دن کو سرکاری طور پر ایک قومی المیے کی شکل میں یاد رکھنا چاہیے۔

پی پی پی خیبر پختونخوا شعبہ خواتین کی جنرل سیکرٹری شازیہ طہماس نے کہا کہ عوامی حکومت کا غیر آئینی طور پر خاتمہ نہ ہوتا تو آج عوام کی تقدیر بدل چکی ہوتی۔ا نھوں نے تجویز پیش کی کہ اس طرح کے ٹویٹر اسپیس مذاکرات کا باقاعدگی سے انعقاد بہت ضروری ہے۔

پی پی پی برطانیہ کے صدر محسن باری نے کہا کہ آمریت کے دور میں نفرت اور انتہا پسندی کی بنیادیں رکھی گئیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی اور استحکام آئین اور جمہوریت میں ہے۔ پی پی پی برطانیہ کے جنرل سیکرٹری اظہر بڑالوی نے شہید ذوالفقار بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا کے نفاذ سے متعلق کہا کہ 11 سال آئین معطل کر کے ملک میں مارشل لا مسلط رہا اور آمریت کے وہ 11 سال ہماری تاریخ کے سیاہ ترین دور کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔

پی پی پی گلف مڈل ایسٹ کے صدر میاں منیر ہانس نے کہا کہ 5 جولائی 1977 کو ملک میں تقسیم، نفرت اور انتہا پسندی کی بنیادیں رکھی گئیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ 45 سال قبل عوامی حکومت کا غیر آئینی خاتمہ نہ ہوتا تو آج ملکی حالات مختلف ہوتے۔ ہمیں اب نفرت اور تعصب کی سیاست کو ختم کرکے آگے کی جانب بڑھنا ہوگا۔

پی پی پی لیبر ونگ سندھ کے سابق صدر حنیف بلوچ نے کہا کہ 45 سال پہلے ہونے والے آئینی اور جمہوری سانحے کے اثرات ہمارا آج تک پیچھا کر رہے ہیں۔ انھوں نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو سے وابسطہ اپنی یادیں بھی بیان کیں۔

پی پی پی کینیڈا کے جنرل سیکرٹری طاہر راؤ نے کہا کہ شہید بھٹو کی آئینی حکومت پر اگر شب خون نہ مارا جاتا تو آج پاکستان کا دنیا میں ایک الگ مقام ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو اُن کے نانا اور والدہ میں تھیں۔

مقررین نے کہا کہ چاہے کوئی پیپلز پارٹی کا حامی ہو یا نہ ہو لیکن ہر ترقی پسند پاکستانی پیپلز پارٹی کی طرف ہی دیکھتا ہے۔ کیوں کہ یہ قومی سطح پر ترقی پسند سوچ رکھنے والی واحد جماعت نظر آتی ہے۔

مقررین کا اس بات پر مکمل اتفاق تھا کہ ملک میں جلد از جلد طلبہ یونینز کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ گالم گلوچ اور انفرادیت پسندی کی سیاست کے ماحول کو تبدیل کرنے کے لیے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ سیاست کی طرف راغب کرنا ناگزیر ہے۔ اُنھیں یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ کیسے لوگوں تک مہذب طریقے سے اپنی بات پہنچائی جا سکتی ہے۔

اس کامیاب ٹویٹر اسپیس مذاکرے کے اختتام پر ذوالفقار علی بدر اور سید طاہر عباس نے شرکا کو آگاہ کیا کہ بہت جلد نوجوانوں کی سیاسی وسماجی تربیت کے لیے اسٹڈی سرکل کی صورت میں ہفتہ وار لیکچرز ٹویٹر اسپیس پر منعقد کئے جائیں گے۔ دیگر شرکا میں امریکا کے سابق صدر شفقت تنویر کے علاوہ سینئر صحافی ودود مشتاق اور دیگر اہم شخصیات نے یومِ سیاہ کے مذاکرے میں خصوصی طور پر شرکت کی۔

حرا ایک میڈیا پروفیشنل اور لکھاری ہیں جو بنیادی طور پر سماجی مسائل بالخصوص خواتین کے مسائل پر قلم کشائی کرتی ہیں۔