پاکستان: فیک نیوز کون بنا رہا ہے، کون چلا رہا ہے؟

پاکستان: فیک نیوز کون بنا رہا ہے، کون چلا رہا ہے؟
پاکستان میں فیک نیوز کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق سوشل میڈیا ہی نہیں مین سٹریم میڈیا میں بھی ایسی خبریں دیکھنے کو مل جاتی بھی جن کو مخصوص مقاصد کے ساتھ حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔

عام طور پر ایسی خبروں کے ذرائع واضح نہیں ہوتے۔ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والی ایسی فیک نیوز میں بتائی گئی باتوں کی تصدیق کرنا عام آدمی کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ تجزیہ نگاروں کے بقول پاکستان میں حقائق کی ترتیب اور توازن بگاڑ کر بھی اپنی من پسند پارٹی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک واقعہ ایک ٹی وی چینل پر ایک طرح سے پیش کیا جاتا ہے لیکن وہی واقعہ اگر دوسرے چینل پر دیکھیں تو اس کا تاثر بالکل مختلف ملتا ہے۔ یہ صورتحال عام آدمی کو کنفیوز کرنے کا باعث بن رہی ہے۔

فیک نیوز کیا ہے ؟

پاکستان یونین آف جرنلٹس کے سابق صدر اور سینئر صحافی مظہر عباس بتاتے ہیں کہ فیک نیوز غلط خبر سے مختلف ہوتی ہے۔ غلط خبر کی تردید بھی ہوتی ہے، تصیح بھی ہو جاتی ہے اور اس پر معذرت بھی کر لی جاتی ہے لیکن فیک نیوز دھڑلے سے دی جاتی ہے اسے حقائق کو مسخ کرکے کسی کی شہرت خراب کرنے کے لیے بدنیتی کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے اور اسے عام خبر کے طور پر شئیر کیا جاتا ہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں، '' خبر کہتے ہی اسی کو ہے جو حقائق پر مبنی ہو اگر اس میں حقائق نہیں ہیں تو پھر آپ اسے پروپیگنڈا یا کوئی اور نام دے لیں لیکن یہ خبر ہرگز نہیں ہوگی۔‘‘

نمل یونیورسٹی میں صحافت کے استاد پروفیسر ڈاکٹر خالد سلطان کے نزدیک فیک نیوز میڈیا کا وہ مواد ہوتا ہے، جسے بد دیانتی کے ساتھ رائے عامہ کو خاص طور پر موڑنے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک اس کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی، اس میں قابل اعتماد حوالے نہیں ہوتے اور اس کے ذرائع جانے پہچانے نہیں ہوتے بلکہ پراسرار، مبہم اور گمنام سے ہوتے ہیں۔ '' فیک نیوز کسی واقعے، شخصیت یا بیان سے متعلق ہو سکتی ہے‘‘۔

فیک نیوز ایک عالمی مسئلہ

ابلاغی ماہرین بتاتے ہیں کہ فیک نیوز ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن اس کا رجحان دنیا کے ان خطوں میں زیادہ ہے جہاں  ایک طرف عوام خبروں کی ویریفیکیشن کی اہلیت نہیں رکھتے اور دوسری طرف جہاں فیک نیوز دینے والوں پر قانون کی گرفت کمزور ہے۔ محاذ آرائی والے معاشروں میں بھی فیک نیوز تیزی سے پھیلتی ہے۔ سوشل میڈیا کی دنیا نے تو فیک نیوز کے کاروبار کو بہت بڑھاوا دیا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں بہت سے ایسے طبی ماہرین کی ایسے خیالات پر مبنی خبریں اور پوسٹیں دیکھنے میں آئیں جن کی تصدیق طبی سائنس سے نہیں ہوسکتی۔

یوکرائن جنگ کے دوران بھی ایسی خبریں میڈیا کی زینت بنیں جن میں طرف داری یا اینگلنگ کا رجحان کافی نمایاں تھا۔ کئی جعلی ٹوئٹر اکاونٹس بھی سامنے آئے۔ ایک ویڈیو میں یہ ظاہر کیا گیا کہ یوکرین جنگ شروع ہونے پر روسی فوجیوں نے جشن منایا۔ اس ویڈیو میں فوجیوں کو رقص کرتے ہوئے گانے گاتے دیکھایا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ویڈیو سن دو ہزار اٹھارہ کی ہے جبکہ یہ روس میں نہیں بنائی گئی۔ یہ ازبک فوجی ہیں، جو تاشقند میں ایک فوجی پریڈ کے دوران موج مستی کر رہے ہیں۔

پاکستان میں فیک نیوز کا ذمہ دار کون؟

پاکستان کے ایک سینئر تجزیہ کار اور سٹی فورٹی ٹو نیوز گروپ  کے گروپ ایڈیٹر نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فیک نیوز کا سلسلہ تو ملک میں کافی عرصے سے چل ہی رہا تھا ۔ لیکن پاکستان میں ہائبرڈ سسٹم لانے کے لیے عدلیہ پر دباو ڈالنے، مخالف سیاست دانوں کی کردار کشی کرنے اور غیر جانب دار صحافیوں کو عوام کی نظروں سے گرانے کے لیے اعلیٰ ترین سطح پر فیک نیوز کا ایک نظام بنایا گیا۔ ’’پنجاب کے دو صوبائی وزراء  نے حال ہی میں اس سلسلے میں ایک پریس کانفرنس میں ان لوگوں کی تفصیل بتائی ہے جن کو سوشل میڈیا پر حمایت حاصل کرنے کے لیے پیسے دیے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ نظام بھی جہادی گروپوں کی طرح اپنے بنانے والوں کے گلے پڑھ گیا ہے۔ سب کو پتا ہے کہ کہاں کہاں کیاکیا ہوتا رہا ہے۔ اس پر بڑی رقوم خرچ کی گئیں۔غلط پروپیگنڈہ کیا گیا، جعلی اسکینڈلز بنائے گئے، عورتوں کی تذلیل کی گئی۔اسی دور میں مرضی کے میڈیا مالکان کو نوازا گیا اور کئی اینکرخوب امیر ہو ئے۔‘‘

تجزیہ نگاروں کے بقول جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو پھر اس میں وسعت آتی گئی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے میڈیا سیلوں نے بھی حصہ ڈالا ۔ پھر امیج بنانے والی پی آر کمپنیاں بھی آ گئیں۔ آج کاروباری دنیا میں بھی ایسی خبرییں دیکھی جاسکتی ہیں۔

پاکستان کا صحافی کیا کرے؟

مظہر عباس کہتے ہیں کہ نیگٹیویٹی میڈیا میں زیادہ بکتی ہے۔ ماضی میں شام کے اخبارات ہوں یا آج کا سوشل میڈیا فیک خبریں عوام کی توجہ حاصل کر ہی لیتی ہیں۔ لیکن صحافیوں کو کسی کے ایجنڈے کے لیے کام نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے پاس فیک نیوز آئے تو انہیں یہ خبر نہیں دینی چاہیے وہ کسی اور ایشو پر توجہ مرکوز کر لیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ اگر ایک چینل کا مالک صحافتی اقدار کے منافی کمپرومائز کرکے کسی سیاسی جماعت کے خلاف جعلی خبریں چلوانا چاہتا ہے تو صحافی بے چارہ کیا کرے۔ مظہر عباس کہتے ہیں کہ صحافی کو پروفیشنل طریقے پر خبر کو پرکھنے اور بنانے پر اصرار کرنا چاہیے اور اگر ممکن ہو تو وہ اپنے لیے کوئی اور ادارہ تلاش کرلے۔ مظہر عباس کے خیال میں صحافیوں کو صحافتی اخلاقیات کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔

کی جاناں میں کون

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اظہر عباس نے بتایا کہ صحافی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نہیں ہو سکتا۔ ان کے مطابق صحافیوں کے بلاگز اور سماجی رابطوں کی سائیٹس پر بھی ان کی کریڈبیلیتی اور پروفیشنل ازم جھلکنا چاہیے۔ انہیں عام لوگوں کی طرح کچی پکی یا سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں اہم شخصیات اور کئی نامور صحافیوں کے نام پر جعلی سوشل میڈیا اکاونٹس بھی بنے ہوئے ہیں۔ اس نامہ نگار کے کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے صف اول کے ایک قومی چینل پر کام کرنے والے مزاحیہ پروگرام کے ایک مقبول اینکر پرسن سے دریافت کیا کہ اس نے اپنے ٹویٹ اکاونٹ پر ایک غیر میعاری پوسٹ کیوں کی ہے۔ تو اس نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ یہ اکاونٹ میرے نام پر بنا ہے لیکن مجھے معلوم نہیں کہ اسے کون چلا رہا ہے اور اس پر خبریں کون شئیر کر رہا ہے۔ میں کئی مرتبہ اس کی تردید کر چکا ہیوں۔ ایسے اکاونٹ پر شیئر کیے جانے والے مواد کو اگر سرچ میں ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسے بہت سے اکاونٹس سے شئیر کیا گیا ہے۔

صحافی خبر دے ڈاکیا نہ بنے

غیرجانب دار تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ صحافیوں کو اپنی مرضی کے ساتھ آزادانہ طور پر حقائق اکٹھے کرنے اور  ان کی چھان بین کرکے پروفیشنل انداز میں خبر دینی چاہیے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بڑی خبر پر مبنی فائل لا کر کسی رپورٹر کو دے تو اسے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ اس میں حقائق کیا ہیں، اس بندے کی کریڈبیلیٹی کیا ہے اور وہ یہ خبر چھپوا کر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ''وہ آپ کو خبر دے رہا ہے یا آپ کو استعمال کر رہا ہے، کسی خبر کے لیے سورسز کا دیانت دار ہونا بھی ضروری ہے۔ ایسی خبروں کو فلٹر کرنے کا نظام بھی ہونا چاہیے جیسے پاکستان کے ایک بڑے ٹی وی چینل میں نیوز ایڈیٹر اور ڈائریکٹر نیوز کے علاوہ ایک ایڈیٹوریل بورڈ بھی نشر کیے جانے والے مواد کو دیکھتا ہے اور وہ اپنے مالک کی مرضی کے خلاف بھی سفارشات دیتا ہے اس کے باوجود اگر ٹی وی کا مالک خبر چلوانا چاہے تو پھر اس کی ذمہ داری صحافیوں پر عائد نہیں ہوتی۔‘‘

فیک نیوز کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

نوید چوہدری بتاتے ہیں کہ فیک نیوز کا خاتمہ ایک دن میں ممکن ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ذمہ داروں (خواہ وہ کتنے ہی با اثر کیوں نہ ہوں) کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ان کے بقول، '' ایک پاکستانی ٹی وی نے برطانیہ میں غلط خبر دی اس کو ایسی سزا ملی کہ اس کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ اب وہ پاکستان میں فیک نیوز دے گا تو آپ اندازہ لگا لیں کہ اس کے خلاف کون کیسے کارروائی کرے گا۔ صحافی اور کالم نگار محمد عامر خاکوانی کہتے ہیں کہ کسی واقعے کے بعد تو کسی خبر کو پروفیشنل انداز میں خبری اقدار کی روشنی میں بنایا جا سکتا ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ لائیو جلسوں میں سیکورٹی کے اداروں کی تضحیک کی جاتی ہے، مخالف سیاست دانوں کو چیری بلاسم، ککڑی اور فتنہ کہہ کر پکارا جاتا ہے، سارے ٹی وی اس کو لائیو دکھاتے ہیں اور پورا پاکستان اس کو سنتا ہے۔‘‘

تنویر شہزاد کی یہ تحریر ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) میں شائع ہوئی