ماہی گیروں کو قید کی مدت پوری ہونے پر فوری رہا کیا جائے: سائوتھ ایشیا پیس ایکشن نیٹ ورک

ماہی گیروں کو قید کی مدت پوری ہونے پر فوری رہا کیا جائے: سائوتھ ایشیا پیس ایکشن نیٹ ورک
 

پاکستانی جیل میں قید انڈین ماہی گیر کالو ویرا کا کراچی کے ایک ہسپتال میں دوران علاج گذشتہ ماہ 6 جولائی کو انتقال ہو گیا۔ انہوں نے جیل میں قید کی سزا کی مدت دسمبر 2021ء میں ہی مکمل کر لی تھی لیکن اس کے باوجود ان کو واپس نہیں بھجوایا گیا تھا۔

آنجہانی کالو ویرا کے انتقال کے باوجود پاکستانی حکام نے 10 دن کی تاخیر سے بھارتی ہائی کمیشن کو اس بارے اطلاع دی۔

اس کے علاوہ اتنا وقت گزرنے کے باوجود بھی کالو ویرا کی میت کو انڈیا بھجوانے کا کوئی انتظام نظر نہیں آ رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب آنجہانی کے خاندان کو دوسرے ذرائع سے ان کے انتقال کی خبر مل چکی ہے اور وہ اپنے پیارے کی میت کے حصول کیلئے بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی ماہی گیر کی ’دوسری طرف‘ قید کے دوران موت ہوئی ہو۔ عام طور پر کسی ہندوستانی یا پاکستانی جو دوسرے ملک میں قید کے دوران مر جاتا ہے اس کی لاش کو وطن واپس لانے میں ایک ماہ سے زیادہ کا وقت لگتا ہے۔ وطن واپسی واہگہ بارڈر کے ذریعے کی جاتی ہے حالانکہ ایسی زیادہ تر قید جنوبی ساحلی علاقوں میں ہوتی ہے۔

یہاں ایک دوسرے انڈین شہری کی مثال بھی دینا ضروری ہے۔ نانو رام نامی ایک اور ماہی گیر نے 16 جنوری 2019ء کو اپنی قید کی سزا مکمل کر لی تھی لیکن اس کا بھی بیماری کی حالت میں 2022ء فروری کو کراچی کے ایک ہسپتال میں انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے بعد 4 اپریل 2022ء کو اس کی میت انڈین حکام کے حوالے کی گئی تھی۔

دوسری جانب بھارتی کوسٹ گارڈ نے 2017ء میں امیر حمزہ نامی ایک بنگالی تارکین وطن ماہی گیر کو گرفتار کر لیا تھا۔ وہ جون 2021 میں بھارت میں کووِڈ 19 سے انتقال کر گیا۔ حکام کو اس کی لاش پاکستان واپس بھیجنے میں تین ماہ لگے۔ اس نے بھی اپنی قید کی سزا پوری کر لی تھی لیکن اسے حراست میں رکھا گیا تھا۔

جب ماہی گیر خطے میں غیر نشان زدہ سمندری سرحدوں کو عبور کرتے ہیں تو طویل قید ان کو درپیش خطرات میں سے ایک ہے۔ اس وقت پاکستان کراچی کی لانڈھی جیل میں 632 بھارتی ماہی گیر قید ہیں جبکہ بھارت میں 95 پاکستانی ماہی گیر گجرات کی جیلوں میں قید ہیں۔ تمام افراد کو نادانستہ طور پر سمندری حدود عبور کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

جیل کی سزا بھگتنے کے بعد بھی وہ جیل میں ہی رہتے ہیں۔ اگر کالو، منو اور حمزہ کو سزا پوری کرنے کے بعد فوری طور پر واپس بھیج دیا جاتا تو شاید وہ آج زندہ ہوتے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارتی قید میں موجود سری لنکن اور بنگلا دیشی ماہی گیروں کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ کچھ معاملات میں، یہ بھی دیکھنے میں آیا سرحدی گشتی اہلکاروں نے غیر نشان زدہ سمندری سرحد سے تجاوز کرتے ہوئے پکڑے گئے ماہی گیروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ایسا پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوتا ہے، اور بنگلا دیش اور بھارت کے درمیان بھی ہوتا ہے۔

مزید برآں، کئی نابالغ جو نادانستہ طور پر کشمیر کے متنازعہ علاقے میں لائن آف کنٹرول کے اس پار سے سرحد پار کر جاتے ہیں ان کو دوسری طرف اصلاحی مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ کچھ معاملات میں، انہیں دنوں میں واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ جب ان کی شناخت کی تصدیق ہو جاتی ہے اور سرحد پار کے خاندانوں سے رابطہ کیا جاتا ہے۔

بھارت اور اس کے برعکس سری لنکا اور بنگلا دیشی ماہی گیروں کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ سری لنکا اور ہندوستان کے معاملے میں، عام طور پر کافی تیزی سے وطن واپسی ہوتی ہے، بعض اوقات گرفتاری کے ہفتوں کے اندر، بشمول کشتیاں واپس کی جاتی ہیں۔

ہم خطے کی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر درج ذیل اقدامات کریں۔

1:ایک دوسرے کے ملک کے قیدیوں کو جیسے ہی وہ اپنی جیل کی سزائیں پوری کر لیں، رہا کریں اور واپس بھیجیں، خاص طور پر عمر رسیدہ قیدی، خواتین قیدی اور معمولی جرائم والے شہری قیدی اس زمرے میں آنے چاہیں جبکہ ضبط شدہ ماہی گیریوں کی کشتیوں کو بھی فوری طور پر واپس کریں۔

2: قیدیوں سے متعلق ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ عدالتی کمیٹی کو بحال کریں اور دوسرے ملک کی طبی ٹیموں کو وقتاً فوقتاً دورہ کرنے اور معائنہ کرنے کی اجازت دیں۔ بھارت، سری لنکا، اور بھارت بنگلا دیش کے درمیان اسی طرح کی دو طرفہ کمیٹیاں قائم کی جانا ضروری ہیں۔

3:سرحد پار قیدیوں تک قونصلر رسائی اور ان کے اور ان کے رشتہ داروں کے درمیان رابطے کی اجازت دیں، بشمول آن لائن مواصلات کا آپشن دینا ضروری ہے۔

4: سندھ اور گجرات کی جیلوں میں بند یا مرنے والوں کو واہگہ اٹاری بارڈر تک 1000 کلومیٹر اوپر کا سفر کرنے کی بجائے سمندری راستے یا کھوکھرا پار بارڈر کے ذریعے واپس اپنے گھروں کو واپس بھیجنے کی اجازت دیں۔

5:نادانستہ سرحدی کراسنگ کو غیر مجرم فعل قرار دیا جائے۔

خطے کے تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنی حراست میں قید افراد خصوصاً سرحد پار قیدیوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد پیدا کرنے اور جنوبی ایشیائی خطے میں مجموعی طور پر ہمسایہ تعلقات کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔