اردو پاکستان کی قومی زبان کیوں ہے؟

اردو پاکستان کی قومی زبان کیوں ہے؟
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کی قومی زبان یہاں بسنے والی کل آبادی میں سے محض 7 ہی فیصد لوگوں کی مادری زبان ہے۔ اگست 1947 میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو بنگلا ملک کی اکثریتی آبادی کی مادری زبان تھی۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں آباد 38 فیصد سے زیادہ لوگوں کی مادری زبان پنجابی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اتنے کم لوگوں کی مادری زبان ہونے کے باوجود قیام پاکستان سے اب تک بدستور اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہے؟ بنگالی، پنجابی یا دوسری علاقائی زبانوں میں قومی زبان بننے کی اہلیت کیوں نہ پیدا ہو سکی؟

سنسکرت، پراکرت، پالی، مراٹھی، بنگالی، تمل، تیلگو، ملیالم، کناڈا سمیت دیگر زبانیں برصغیر کی سرزمین پر صدیوں سے بولی جا رہی ہیں۔ ساتویں اور آٹھویں صدی میں جب مسلمان عرب تاجروں کی برصغیر میں آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو مقامی لوگوں نے ان تاجروں کو ایک نئی زبان عربی میں بات چیت کرتے سنا۔ اس طرح کئی نئی زبانیں بھی مسلمانوں کے ساتھ برصغیر میں آ گئیں۔ بعد میں افغانستان، ترکی، عرب اور ایران سے آنے والے مسلمانوں نے برصغیر کی حکومت اپنے ہاتھوں میں لی تو انہوں نے اپنی زبانوں کو یہاں رواج دیا۔ حکمرانوں کی نسبت سے یوں ان زبانوں کو درباری زبانوں کا درجہ بھی ملا۔

اسی دور میں مقامی لوگ ایک نئی زبان بولنا شروع ہوئے جسے آج ہم ہندوستانی زبان کا نام دے سکتے ہیں۔ یہی زبان آگے چل کر ہندی اور اردو میں تقسیم ہوئی۔ ہندوستانی زبان سلاطین دہلی سے مغلوں کا زمانہ آتے آتے عوامی زبان بن چکی تھی۔ اگرچہ درباری زبان کا درجہ فارسی کو حاصل تھا مگر ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے لوگ باہمی کاروباری اور دیگر معاملات نمٹانے کے لیے اسی ہندوستانی زبان کا استعمال کرتے تھے۔

1928 میں موتی لال نہرو نے اپنی رپورٹ میں قومی زبان کے حوالے سے اعلان کیا کہ آزاد ہندوستان کی زبان ہندوستانی ہوگی اور اس کے دو رسم الخط ہوں گے؛ دیوناگری اور فارسی۔ علاقائی زبانوں کو صوبے خود پروموٹ کریں گے۔ 1936 میں یہی بات کانگریس نے باقاعدہ قرارداد پیش کرکے کہہ دی۔ آزادی کا وقت قریب آیا تو مسلمان بھی ہندوؤں کی زبان نہیں بولنا چاہتے تھے اور انہوں نے ہندوستانی زبان میں عربی، فارسی اور ترکی زبانوں کے الفاظ شامل کرکے اسے زیادہ سے زیادہ مخصوص بنانے کی پالیسی اختیار کی جب کہ ہندوؤں نے اس میں سنسکرت کے الفاظ گوندھ کر اسے اپنی زبان بنانے کا عمل جاری رکھا۔ اسی تناظر میں آل انڈیا مسلم لیگ نے جب برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی جدوجہد کا آغاز کیا تو انہوں نے اسی ہندوستانی زبان کو ابلاغ کا ذریعہ بنایا۔

جب پاکستان بنا تو یہاں کی آبادی میں محض 7 فیصد لوگ ایسے تھے جن کی مادری زبان اردو تھی جب کہ بنگالی اور پنجابی دو علاقائی یا صوبائی زبانیں آبادی کے بڑے حصے کی زبانیں تھیں۔ اس کے باوجود بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اردو زبان کو ہی پاکستان کی قومی زبان بنانے پر اصرار کیا۔ مسلم لیگ کا مؤقف تھا کہ ہندوستانی کوئی زبان نہیں ہے۔ یہ محض کانگریس کا پراپیگنڈا ہے۔ ہندوؤں کی زبان ہندی ہے جب کہ مسلمانوں کی زبان اردو ہے۔

پاکستان بنا تو نئی قوم کی شناخت میں ایک تو اسلام آ گیا اور پھر اردو زبان۔ جب ہم ہندوستان سے الگ ہوئے تو پھر ہم نے اپنی الگ شناخت بنانے کے لئے کچھ علامتوں کو اپنے لئے مخصوص کرنا شروع کر دیا۔ اردو زبان بھی انہی علامتوں میں سے ایک تھی جس نے پاکستانی قوم کو ہندوستانی قوم سے الگ شناخت دینے کی کوشش کی۔

اس کے علاوہ ریاست جب نوکریاں دیتی ہے تو اس بات کو بھی دیکھتی ہے کہ مناسب امیدوار وہ ہے جو اردو زبان کو سمجھتا ہو۔ خاص طور پر فوج میں ملازمت کے لئے اردو زبان سے واقفیت ضروری سمجھی جاتی ہے۔ ریاست چیزوں کو سٹریم لائن کرتی ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ سبھی کے لئے ایک جیسے قوانین بنیں ایک جیسے اصول ہوں تاکہ لوگوں میں باہمی ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔

اردو پاکستانی کی قومی زبان یوں بھی بنی کہ پاکستان بنانے والی زیادہ تر انٹیلی جنشیا کا تعلق علی گڑھ کالج سے تھا اور ان لوگوں کی زبان اردو تھی۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی ان رہنماؤں کی تقریریں اردو زبان میں ہوتی تھیں۔ یہ سب علی گڑھ سے تربیت حاصل کر کے آئے تھے۔

2017 کے اعدادوشمار کے مطابق مادری زبان کے لحاظ سے پنجابی زبان بولنے والوں کی تعداد 38 فیصد سے زیادہ ہے۔ دوسرے نمبر پہ پشتو آتی ہے جن کے بولنے والے کل آبادی کا 19 فیصد حصہ بنتے ہیں۔ اس کے بعد سندھی زبان بولنے والوں کی تعداد 14 فیصد ہے۔ اس کے بعد سرائیکی زبان بولنے والوں کا نمبر آتا ہے جنہیں بولنے والوں کی تعداد 13 فیصد ہے۔

اردو کو چھوڑ کے باقی زبانوں میں سے کوئی بھی زبان پاکستان کی قومی زبان کیوں نہ بن سکی، اس بارے میں معروف دانش ور ڈاکٹر اشتیاق احمد مختلف زبانوں کے حوالے سے تفصیل سے گفتگو کرتے ہیں۔

پنجابی زبان

مسلمانوں نے کئی سو سالوں تک برصغیر میں حکومت کی مگر کبھی بھی پنجابی زبان سرکاری زبان نہیں بن سکی۔ کبھی ترکی زبان سرکاری زبان بنی اور کبھی فارسی کو سرکاری زبان بنایا گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ خود پنجابی تھے مگر انہوں نے بھی سرکاری زبان کے طور پر فارسی ہی کو برقرار رکھا۔ لہٰذا پنجابی کبھی کسی ریاست کی بھی سرکاری زبان نہیں بن سکی۔

پنجابی زبان کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ اسے بولنے میں کوئی دشواری نہیں تھی۔ ہندو، سکھ، عیسائی اور مسلمان اسے آسانی سے بول لیتے تھے مگر جب لکھنے کی بات آتی تھی تو یہاں مسئلہ پیدا ہوتا تھا۔ پنجابی کے تین رسم الخط بن گئے تھے۔ دیوناگری، گورمکھی اور شاہ مکھی۔

پاکستان بنا تو پنجاب میں پہلے ہی سے سکولوں اور کالجوں میں اردو زبان رائج تھی۔ یہاں کی اشرافیہ نے کبھی پنجابی زبان کو قومی زبان بنانے کی کوشش نہیں کی۔ یہاں تک کہ پنجاب اسمبلی میں بھی پنجابی زبان میں تقریر نہیں کی جا سکتی۔ پنجابی صوبہ پنجاب کی سرکاری زبان بھی نہیں بن پائی تو قومی زبان کیا بنے گی۔

ہمارے ادب کی زبان دیکھ لیں۔ پنجاب میں پیدا ہونے والے شاعروں ادیبوں نے ادب اردو زبان میں تخلیق کیا ہے۔ چاہے وہ شاعری ہے، شارٹ سٹوری ہے یا ناول ہے؛ پنجاب میں رہنے والے ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں نے اردو زبان میں ہی لکھا ہے۔

پشتو زبان

پشتو زبان کے ساتھ یہ مسئلہ ہوا کہ افغان اور پشتون حکمرانوں نے پشتو زبان کو کبھی سرکاری زبان نہیں بنایا۔ چاہے وہ افغانستان کی حکومت ہو، خیبر پختون خوا کی یا برصغیر کے صوبوں کے افغان گورنر ہوں، ان سب نے سرکاری زبان فارسی رکھی۔

صوبہ خیبر پختون خوا میں جب نیشنل عوامی پارٹی کی پہلی مرتبہ حکومت بنی تو عبدالولی خان نے اردو کو سرکاری زبان بنا لیا اور 2014 تک وہاں اردو زبان میں تعلیم دی جاتی رہی۔ حالانکہ ان کے والد خان عبدالغفار خان پختون نیشنل ازم کی حمایت کرتے رہے۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ ولی خان مرکزی دھارے کی سیاست میں داخل ہونا چاہتے تھے اور اس میں داخلے کا پاسپورٹ اردو زبان ہی کو سمجھا جاتا ہے۔

بنگالی زبان

1857 کے بعد انگریزوں نے بنگالیوں کو فوج سے بے دخل کر دیا کیونکہ اس بغاوت میں زیادہ عمل دخل بنگالیوں ہی کا تھا۔ اس لئے انگریزوں نے مقامی طور پہ بنگالی زبان کو نہیں چھیڑا۔ بنگالی زبان بہت ترقی یافتہ زبان تھی۔ اردو شمالی اور شمال مغربی بھارت میں تو آ گئی مگر بنگالی زبان کو انگریزوں نے بھی اپنے دور بلا روک ٹوک پھلنے پھولنے کی اجازت دے دی۔

مارچ 1948 میں جب قائداعظم نے بنگال میں جا کر اعلان کیا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی تو اس پر سخت اعتراض ہوا۔ یہیں سے بنگالی نیشنل ازم کا جذبہ ابھرنے لگا اور بنگالی زبان کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ بالآخر بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں نکلا۔

سندھی زبان

جس طرح بنگالی زبان ایک ترقی یافتہ زبان تھی اسی طرح سندھی زبان بھی ترقی یافتہ زبان تھی۔

سر چارلس نیپئر کی سندھ پر حکمرانی سے پہلے کچھ ادوار میں سندھ میں سرکاری زبان سندھی تھی مگر بعد میں انگریز دور میں جو یہاں پہ افسر تعینات ہوئے وہ اردو اداروں کے پڑھے لکھے تھے۔ سندھی مسلمانوں نے کوئی سکول کالج نہیں کھولے۔ یہاں زیادہ تر ہندوؤں نے سکول کالج کھولے۔

سندھی وڈیروں نے عام سندھیوں کو کبھی سکول میں آنے ہی نہیں دیا۔ سندھیوں نے کبھی سندھی انٹیلی جنشیا کو پروموٹ ہی نہیں کیا۔ ممتاز بھٹو جب آئے تو پہلی بار عام سندھی کو سکول کالج میں آنے کا موقع ملا۔

جب یہاں اردو زبان بولنے والے آئے تو چونکہ انہیں یہ برتری بھی حاصل تھی کہ انہوں نے مغل حکمرانوں کے ساتھ مل کے کام کیا ہوا ہے تو اس لئے آہستہ آہستہ وہ کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں بااختیار ہوتے گئے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ مقامی سندھیوں نے کبھی سندھی انٹیلی جنشیا تیار ہی نہیں کی جس کی وجہ سے اردو بولنے والوں کو مقامی طور پہ کسی قسم کا مقابلہ درپیش ہی نہیں ہوا۔

سرحد کے پار بھارت میں بھی انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد زبان سے متعلق کئی مسائل پیدا ہوئے مگر انہوں نے ان مسائل کو بروقت حل کر لیا۔ جیسے جیسے بھارت میں انتظامی ڈھانچہ بنا تو ہندوستانی زبان کو رواج دیا گیا کیونکہ زیادہ تر لوگ یہ زبان بولتے سمجھتے تھے۔ جنوبی بھارت کو نکال دیں کیونکہ وہاں کی اپنی زبانیں تھیں اور وہاں ہندوستانی زبان بولنے سمجھنے والے بہت کم تھے۔

آزادی ملی تو جواہر لعل نہرو ہندوستانی زبان کو قومی زبان بنانا چاہتے تھے مگر انہیں ہندو نیشنلسٹوں کی طرف سے اس بنیاد پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کہ ہماری زبان پاکستان سے مختلف ہونی چاہیے ورنہ الگ ہونے کا جواز کم رہ جاتا ہے۔ اس لئے انہوں نے ہندی کو قومی زبان بنایا جس میں سنسکرت کے الفاظ شامل ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جسے وہ ہندی زبان کہ رہے ہیں وہ اردو ہی ہے۔ بالی ووڈ کی زبان کہنے کو ہندی ہے مگر وہ ہے اردو ہی۔ کیونکہ یہ عام فہم زبان تھی۔

اس کے علاوہ زبان سے متعلق اور مسئلے بھی وہاں پیدا ہوئے۔ بھارت میں چونکہ جمہوریت مضبوط ہو گئی اس لئے انہوں نے زبان کا مسئلہ قانون سازی سے حل کر لیا۔ شمالی انڈیا اور جنوبی انڈیا کے مابین بھی زبان کا مسئلہ پیدا ہوا جس کو انہوں نے ایسے حل کیا کہ جنوبی انڈیا میں چار زبانوں کو سرکاری زبانوں کی حیثیت دے دی گئی؛ تمل، تیلگو، ملیالم اور کناڈا زبان۔ اس طرح جب سب کو اپنی اپنی زبان مل گئی تو شمالی اور جنوبی انڈیا کے مابین یہ تنازعہ ختم ہو گیا۔

اس کے بعد بھارتی پنجاب میں زبان کا مسئلہ پیدا ہوا۔ ہریانہ میں زیادہ تر ایسے لوگ تھے جو ہندوستانی زبان بولنے والے تھے جب کہ باقی پنجاب میں پنجابی زبان بولی جاتی تھی۔ اسی بنیاد پہ پھر پنجاب کی تقسیم عمل میں آئی اور ہریانہ الگ سے صوبہ بنا۔ بھارت میں انہوں نے اس مسئلے کو بھی حل کر لیا۔ اب وہاں ایک الگ پنجابی صوبہ ہے جہاں پنجابیوں کی اکثریت ہے اور وہاں کی زبان بھی پنجابی ہے۔

پاکستان میں زبان کا مسئلہ اس لئے بھی بہتر طور پر حل نہ کیا جا سکا کہ نہ ہی یہاں جمہوریت قائم ہو سکی اور نہ ہی زبانوں کی بنیاد پہ یہاں کے صوبوں کو دوبارہ سے منظم کیا جا سکا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر پاکستان بھی بھارت کی طرح ایک سے زیادہ زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دے دیتا تو شاید آج پاکستان بطور ایک وفاق کے مضبوط تر ہوتا، کمزور نہیں۔

نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں ڈاکٹر اشتیاق احمد کی گفتگو سے مدد لی گئی ہے۔ یہ گفتگو یوٹیوب پر موجود ہے۔ اسے سننے کے لئے نیچے دیے گئے لنکس کو کلک کیا جا سکتا ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=itF_IIZR9Ec&t=1s
https://www.youtube.com/watch?v=kEneexfUXDU&t=2s
https://www.youtube.com/watch?v=4F7rfHni41k&t=310s

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں اور عالمی ادب، سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نیا دور کے ساتھ بطور تحقیق کار اور لکھاری منسلک ہیں۔