ماما جمن دربدر جنہوں نے عمر بھر سندھ کو اپنی محبوبہ کی مانند چاہا

ماما جمن دربدر جنہوں نے عمر بھر سندھ کو اپنی محبوبہ کی مانند چاہا
ماما اسے پیار سے کہا جاتا تھا جبکہ دربدر کا خطاب اسے سندھ کے شاعر اور سیاستدان مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ (مخدوم طالب المولیٰ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر وائس چیئرمین رہنے والے مخدوم محمد امین فہیم کے والد تھے) نے دیا۔ ان کا تعلق صحرائے تھر کے سنگم پر آباد ضلع عمرکوٹ کے گاؤں روحل واء سے تھا۔ وہ جی ایم سید کے قوم پرستی کے نظریے و سیاسی فکر کا حامی کارکن، اسٹیج آرٹسٹ، دھرتی کی محبت میں گیت لکھنے اور گانے والا موسیقار تھا۔

وہ اپنی سوانح حیات (وٹھی ہر ہر جنم وربو) میں 1971 کی جنگ کے دوران لگائے گئے امدادی کیمپ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 1971 کی جنگ میں گورنمنٹ کی طرف سے متاثرین میں مفت گندم تقسیم کی جارہی تھی۔ جب وہ وہاں گندم کے حصول کے لیے پہنچے تو معلوم ہوا کہ جہاں گندم سرکاری طور پر ایک من فی فرد فراہم کی جانی تھی، وہاں مختیار کار اور پٹواری کی غیرمنصفانہ، بے ایمانی اور اقربا پروری پر مبنی تقسیم کے تحت آدھا من فی فرد دی جارہی تھی۔ انہوں نے اس ناانصافی کو دیکھ کر موقع پر احتجاج کیا لیکن وہاں ان کی ایک نہ سنی گئی۔ جس کے بعد اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ انہوں نے تھرپارکر کے ڈپٹی کمشنر کو اس غیر منصفانہ تقسیم کا پیغام پہنچایا۔ ان کی اسی مزاحمت کی بدولت منصفانہ تقسیم یقینی ہوئی اور سب متاثرین میں سرکاری اعلان کے مطابق گندم کی تقسیم یقینی بنائی گئی۔ یہ بظاہر ایک معمولی سا واقعہ تھا لیکن یہ ایک ایسے شخص کی مزاحمت سے پہلی ملاقات تھی کہ جس نے اپنی آنے والی پوری زندگی اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی مزاحمتی راہ میں وقف کر دی۔ ان کی یہ پہلی مزاحمت بھی اپنی ذات یا ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ مجموعی طور پر اپنے لوگوں کے لیے تھی۔ ان کی یہ پہلی مزاحمت اپنے لوگوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف تھی، اپنے لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے تھی۔

چند دن پہلے ماما جمن دربدر کے انتقال کی خبر سن کر خیال آیا کہ آج تھر سمیت پورا سندھ یتیم ہو گیا۔ اب تھر کی تپتی ریت پر رلی بچھا کر کون محفلیں سجائے گا۔ اداسیوں کی تاریک راتوں کو مسکراہٹوں سے کون جگمگائے گا، شدت پسندی کے گھٹن زدہ ماحول میں منصور بن کر انا الحق کی صدا کون بلند کرے گا۔ پھر خیال آیا کہ بِیج کا محو خاک ہونا، دراصل اس کی وفات نہیں بلکہ ولادت ہے۔ ماما جمن دربدر کی وفات دراصل اس کی ولادت ہے۔ وہ فکر جی ایم سید کہ جس کی پیروی اور پرچار میں اس کی زندگی گزری (خواہ ہم اس فکر/نظرئے سے اختلاف کریں)، ان کے محو خاک ہونے سے اُس فکر نے ایک نئی انگرائی لی ہے۔ اس کا ثبوت ماما کی وفات کے بعد ان کے افکار و نظریات پر سندھ کے لوگوں بالخصوص نوجوانوں میں بیدار ہونے والا ایک نرم گوشہ ہے اور اس فکر کو لے کر ایک مرتبہ پھر دھیمی آنچ پر شروع ہونے والی بحث ہے۔
ماما جمن ایک ایسی شخصیت تھے کہ جس نے ہزار تکلیفوں، دکھوں اور اذیتوں کے درمیان مسکرانے، مسکراہٹیں اور خوشیاں بکھیرنے اور مایوسیوں سے بھرے جہان میں چہروں پر خوشیاں سجانے کے فن کی ترویج کی۔ انہوں نے زندگی اپنے لوگوں کے لیے وقف کر دی۔ وہ محض ایک فرد نہیں بلکہ اپنے آپ میں ایک پورا ادارہ تھا کہ جو سندھ میں شعور اور جی ایم سید کی فکر کی تبلیغ کے لیے ہر حد تک گیا۔ اس نے اس راستے میں کئی صعوبتیں جھیلیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنی سوانح حیات جو کہ گذشتہ سال شائع ہوئی ہے، میں کئی واقعات کا ذکر کیا ہے۔

اس کی زندگی دکھوں، شرارتوں اور تجربات کا ایک منفرد و حسین امتزاج تھی۔ وہ عاشق مزاج اس حد تک تھا کہ عشق نے اسے دربدر بنا دیا۔ انہوں نے جس سے بھی عشق کیا تو نباہ میں طویل مسافتیں طے کیں۔ اس نے عشق کی لاج رکھ کر دکھائی بلکہ عشق کے لیے اپنا کردار مثال کے طور پر چھوڑ گیا۔ اس کا سندھ سے عشق تو جنموں کا تھا کہ اس نے اپنی پوری زندگی سندھ سے عشق کی راہ میں وقف کر دی۔ اپنے محبوب کی ایک دید کی جستجو نے اسے حیدرآباد سے لاہور کے لیے پیدل رخت سفر باندھنے پر مجبور کر دیا۔ ایک ایسا سفر جس کے ساتھ تکلیفوں کا لامتناہی سلسلہ جڑا ہوا تھا۔ لاہور میں اس نے اپنے محبوب کی تلاش میں داتا دربار سے لے کر لاہور کے پارکوں میں ایک دید کی تمنا میں کئی راتیں گزار دیں۔ اپنی سوانح حیات میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ لاہور کے پارکوں میں سات، آٹھ دن محبوب کے انتظار میں یونہی گاتے وقت بتاتے گزر گئے۔ میرے اندر ایک جنگ برپا تھی، کیفیتوں، سوچوں اور جذبوں کی جنگ جو کہ اپنے آپ سے تھی۔ اس جنگ میں میں خود ہی سے شکست کھا رہا تھا۔ میں خود کو شکست نہیں دینا چاہ رہا تھا لیکن حالات مجبور کر رہے تھے۔ ایک طرف کوئی امید، کوئی پتہ، کوئی شناسائی اور کوئی رستہ نہ تھا اور منزل بھی تو پتا نہیں کہاں تھی؟



وہ بتاتے ہیں کہ مال روڈ جو کہ ایک بڑے رقبے پر پھیلا ہوا تھا، وہاں اپنے محبوب کا پتہ کرنا ناممکن تھا۔ نہ جانے وہ کون سے پارک میں آئے گی؟ آئے گی بھی کہ نہیں؟ صرف مایوسی اور شکست کی سرگوشیاں تھیں، مگر پھر بھی انتظار تھا۔ انتظار کتنا طویل اور کب تک؟ ان سارے سوالوں اور سرگوشیوں کے مابین خودکلامی کا ایک جھونکا میری طاقت تھا اور وہ تھا کہ 'وہ ضرور آئے گی'۔ بالآخر وہ ملی، وصل ہوا، وصل کے بعد ماما جمن دربدر نے ہجر کی ہولناکیاں اور اذیتیں بھی برداشت کیں۔ فرقت کی تاریک راہوں پر نہ جانے وہ کتنا بھٹکا، اس راہ میں نہ جانے وہ کتنے شدید کرب کے عالم سے بھی گزرا۔

ماما جمن دربدر اپنی سوانح حیات میں بتاتے ہیں کہ زندگی اور موت ہروقت انسان کے ساتھ چلتے ہیں۔ ہم ہر وقت زندگی کے پہلو میں دوڑتے اور بھاگتے رہتے ہیں۔ پر نہیں پتہ کہ کب موت کے ساتھ بھاگنے کی باری آ جائے۔ لیکن اب یہ زمانہ گواہ ہے کہ جب ماما جمن دربدر کی موت کے ساتھ بھاگنے کی باری آئی تو انہوں نے موت کو بھی مثال بنا دیا۔

اس نے اپنی پوری زندگی فکر سید کا ایک کارکن بن کر لوگوں کے لیے جدوجہد کرنے میں گزار دی۔ اقتداری طاقتوں کے آگے کبھی سرخم نہیں کیا لیکن اپنے نظریاتی اور سیاسی مخالفوں کے لیے ہمیشہ اپنی بانہیں کھول کر رکھیں۔ اپنے سیاسی مخالفوں کے ساتھ بھی ہمیشہ حسن سلوک، پیار، محبت سے لبریز رویہ اختیار کیے رکھا۔ گو کہ ان کا سیاسی نظریہ، فکر و جدوجہد بالکل مخالف سمت میں تھے، اس نے جو بھی گیت گائے یا شاعری کی اس کی بنیاد بھی قوم پرستی پر مبنی تھی لیکن ماما جمن دربدر کی وفات کی خبر پر سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا جمن دربدر کی شاعری کبھی بھی بھلائی نہیں جائے گی۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماما جمن دربدر کی وفات سندھی ادب کی دنیا کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔

ماما جمن دربدر سندھ کا عاشق تھا اور سندھ اس کی محبوبہ۔ اسے آہوں، سسکیوں اور چیخوں کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے گیتوں کی گونج میں اپنی محبوبہ کے دامن میں اتارا گیا جو کہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی منفرد تدفین تھی۔ وہ محو خاک ہو کر بھی اپنے سیکولر ہونے کا ثبوت دے گیا اور سندھ کے سیکولر چہرے کو مزید روشن کر گیا۔ ماما جمن دربدر تمام سیاسی کارکنوں کو یہ سبق دے کر گیا کہ اپنے نظریے کے ساتھ کارکن پختہ اور سچا رہے تو ان کے جنازے بھی ان کی عظمت اور وقار کی گواہی دیتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ وہ کوئی بڑا شاعر نہیں تھا جس کی کئی کتب شائع اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئی ہوں۔ وہ کوئی بہت بڑا موسیقار، سیاسی لیڈر اور نمایاں و مشہور سماجی کارکن بھی نہیں تھا اور نہ ہی اس نے ایسا کوئی دعویٰ کیا تھا بلکہ وہ تو خود کو ہمیشہ ایک ادنیٰ سا سیاسی کارکن کہتا تھا۔ لیکن پھر بھی اس کی حیثیت ایک لیڈر سے بہت بڑی ہے۔ انہیں کبھی کوئی سرکاری ایوارڈ نہیں ملے لیکن انہیں صدارتی ایوارڈ لینے والوں سے بھی زیادہ عوامی پذیرائی ملنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ایوارڈ ملنے سے یا بڑا لیڈر کہلانے سے انسان بڑا نہیں بن جاتا بلکہ انسان اپنے کردار، اپنے نظریے اور لوگوں کے ساتھ سچائی سے بڑا انسان بنتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ماما جمن دربدر ایک چھوٹا سا سیاسی کارکن تھا لیکن بہت بڑا انسان تھا۔