بدتہذیبی، غلیظ زبان اور غیر اخلاقی حرکتوں کی سُرخیل مسلم لیگ ہے

بدتہذیبی، غلیظ زبان اور غیر اخلاقی حرکتوں کی سُرخیل مسلم لیگ ہے
عمومی تصور یہ ہے کہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سیاست میں گندی زبان متعارف کرائی اور بام عروج پر پہنچایا۔ غلط تصور ہے!

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو پڑھنے کا سرے سے کوئی شوق نہیں۔ بھول جانے کی بیماری ہے۔ تاریخ کس چڑیا کا نام ہے نہیں معلوم۔ تحقیق اور غورو فکر سے ازلی دشمنی ہے۔ اس وقت ساری قوم کی توجہ دو چیزوں پر مذکور ہے: 'لاہور دا پاوا اختر لاوا' اور 'میرا دل یہ پکارے آ جا'۔ روز ان کی نت نئی اشکال سماجی میڈیا پر کروڑوں میں دیکھی جاتی ہیں۔ ایسے میں کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے جو علاج کے لیے تاریخ کھنگالی جائے۔

ہماری تاریخ ہے بھی کیا، محض 75 برس؟ انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ مگر جہاں کتب خانے غائب اور چپے چپے پر بٹ کڑاہی، چرسی کڑاہی، پھجے کے سری پاوے، ہریسہ اور نہاری پر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہو وہاں دماغوں پر چربی نہ چڑھے تو اور کیا ہو؟

1965 کا سال ہے۔ کنونشن مسلم لیگ کا 'اختر لاوا 'جنرل ایوب خان ہے۔ صدارتی انتخاب ہے۔ ایوب کے خلاف مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ ہیں۔ میرے سسر مرحوم گوجرانوالہ میں ہیں۔ کراچی میں میرے نانا ہیں۔ ایوب کا برخوردار کراچی میں اور خرم دستگیر کا باپ گوجرانوالہ میں ایک کتیا کے گلے میں سفید دوپٹہ باندھتا ہے۔ پھر ایک لالٹین جو کہ مادر ملت کا انتخابی نشان ہے، لٹکاتا ہے اور گلی گلی کوچے کوچے قریہ قریہ بستی بستی شہر شہر پھراتا ہے، یہ شور مچا کر کہ دیکھو فاطمہ جناح اپنی مہم چلا رہی ہے۔ اب نہ ایوب ہے، نہ مادر ملت ہیں، نہ میرے نانا نہ سسر۔ مگر تاریخ وہ بتلا گئے ہمیں!

65 سے 88 آ گیا۔ پی ٹی آئی کا وجود تک نہیں۔ خان ابھی تک کرکٹ میں یو ٹرن کر رہا ہے۔۔۔ گیند کو!

1988 ہے۔ مسلم لیگ ہے۔ اب 'گلو بٹ' نواز شریف ہے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو حریف ہیں۔ نواز شریف محترمہ اور ان کی والدہ نصرت بھٹو کی جعلی برہنہ تصاویر تیار کراتا ہے۔ سرکاری ہیلی کاپٹر کے ذریعےعوام پر لٹاتا ہے۔ ماشاء اللہ کتنا نیک کام ہے۔ مگر تسلی پھر بھی نہیں ہوتی۔ 88 کا شہباز گل اور فواد چودھری شیدا ٹلی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شان میں ایک نعرہ مستانہ بلند ہوتا ہے؛ کوکا کولا پیپسی، بے نظیر ٹیکسی! اسمبلی میں نواز شریف کے جیالے نعرے لگاتے ہیں؛ 'پیلی ٹیکسی پیلی ٹیکسی' یعنی ییلو کیب۔ پنجابی زبان میں بہت وسعت ہے۔ ٹیکسی کا مطلب گشتی اور گشتی کا جسم فروش عورت۔

1989 میں جب بی بی امریکہ کے کامیاب دورے سے لوٹیں تو اس کے ثمرات عباس اطہر مرحوم نے اپنے کالم کی سرخی میں اس طرح سموئے؛ 'سُتھن ڈپلومیسی!' سُتھن پنجابی میں شلوار کو کہتے ہیں۔ یہ دو الفاظ اپنے اندر ہزار داستانیں سمائے بیٹھے ہیں۔ ایک جملہ تو مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ بی بی کے وفد کو 'نسوانی دستہ' لکھا گیا۔ اس میں بھی منٹو کی کئی کہانیاں ملیں گی۔

اب 2005 ہے۔ بلوچستان میں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ اجتماعی آبرو ریزی کا شور و غوغا ہے۔ حاضر سروس فوجی کپتان حماد ملزم ہے۔ مسلم لیگ قاف کے بانی جنرل مشرف فرماتے ہیں کہ حماد بے گناہ ہے اور شازیہ ایسی بدکردار عورتیں یورپ امریکہ وغیرہ میں سیاسی پناہ کی خاطر ایسے ڈرامے رچاتی ہیں!

2015 آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا خواجہ آصف جو آج کل وزیر دفاع ہے پی ٹی آئی کی شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی اور فردوس عاشق اعون کو ڈمپر کے نام سے پکارتا ہے۔

2021 ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہتا ہے میں پہاڑیا ہوں، ایک کے بجائے دس گالیاں دیتا ہوں۔ اور میں جوتا ماروں گا قومی اسمبلی کے سپیکر کو۔ سبحان اللہ! کیا گنوان خاندان ہے!

کچھ ذکر خیر ہو جاوے فردوس عاشق اور پی پی پی کی شرمیلا فاروقی کا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں فردوس کہہ رہی ہے کہ کہیں سے بھی شروعات ہوئی ہو اس کے سیاسی سفر کی کم ازکم ہیرا منڈی سے نہیں ہوئی۔ ہیرا منڈی جسم فروش عورتوں کا گڑھ ہے۔ پھر فرماتی ہیں کسی کے بیڈ روم سے نہیں پہنچی اسمبلی میں۔ نشانہ ہدف کشمالہ طارق ہے بیڈ روم جنرل مشرف کا ہے۔ کشمالہ بی بی مشرف دور میں عورتوں کی مخصوص نشستوں پر ممبر قومی اسمبلی بنائی گئیں۔ شرمیلا فاروقی مریم نواز شریف کو ہدف بناتے ہوئے فرماتی ہیں کہ وہ جیون میں کبھی بھی اپنے باپ کے اے ڈی سی کے ساتھ فرار نہیں ہوئیں۔ ماشاء اللہ! کیا ان کاموں کے لیے یہ لوگ آتے ہیں پارلیمنٹ میں؟

مکافات عمل بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اللہ کرے کسی کے ساتھ بھی نہ ہو۔ اللہ کرے سب کا پردہ رہے۔ مکافات عمل بھٹو کے ساتھ ہوا۔ صدام کے ساتھ ہوا۔ قذافی کے ساتھ ہوا۔ تاجی کھوکھر کے ساتھ ہوا۔ اور نجانے کتنے ہوں گے مگر سب ہمارے آس پاس ہی ہیں لیکن ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔ اب جو پی ٹی آئی کر رہی ہے اسے مکافات عمل سمجھیے۔ یہ ٹولہ تو غلیظ زبان میں شاگرد ہے مسلم لیگ کا۔ گالم گلوچ، بہتان، قذف، کردارکشی، چھچھور پن اور کیچڑ اچھالنے کے حروف تہجی، گرامر اور انشا پردازی اسے مسلم لیگ سے وراثت میں ملے۔ کوئی بھی اچھا بیٹا باپ کے کاروبار کو آگے ضرور بڑھاتا ہے۔ سو پی ٹی آئی نے غلاظت کے سہ منزلہ ڈھیر کو کثیرالمنزلہ عمارت میں تبدیل کر دیا۔ اس کی بنیادی وجہ سماجی میڈیا ہے جو ماضی میں نہ تھا۔ اگر ہوتا تو یقیناً یہ اعزاز بھی مسلم لیگ کے پاس ہی رہتا۔

جب 2021 میں مریم نواز منڈی بہاؤالدین میں کسی جلسے سے مخاطب تھیں تو پی ٹی آئی والے ٹوئٹر پر یہ دو ٹرینڈ چلا رہے تھے؛ 'رنڈی ان منڈی' اور 'رائے ونڈ کی رنڈی'۔ عمران خان نے مریم نواز کو 'نانی' کے لقب سے نوازا جو اب زبان زد عام ہے۔ شیدا ٹلی بلاول بھٹو کو بلو رانی اور ہیجڑہ کہتا ہے۔ لندن میں پی ٹی آئی کے بچے مریم نواز کو کھلے عام کہتے پھرتے ہیں کہ اس نے شادی کے چار ماہ بعد بچہ پیدا کر دیا۔ مریم اورنگزیب کو ڈڈو چارجر اور حسین شریف کو گونگلو کا نام پی ٹی آئی ہی نے دیا۔ اب پی ٹی آئی کی گالی کا جواب گالی سے پٹواری دے رہے ہیں۔ مقابلہ سخت ہے۔

قریب 35 برس قبل آئی جے آئی (اسلامی جمہوری اتحاد۔۔ نواز شریف کی اس وقت کی مسلم لیگ اس اتحاد میں سب سے بڑی جماعت تھی) آئے روز پی پی پی پر یہ الزامات دھرتا تھا کہ وہ بھارت، امریکہ اور روس کی پٹھو ہے۔ ذرا سمجھ دار قسم کا انگریزی پریس ہمیشہ یہ رونا روتا تھا کہ اس نازک دور میں جب ملک انتشار کا شکار ہے، سرحدیں غیر محفوظ ہیں، معیشت غرق ہو چکی ہے، ملک کا بدن نسلی، مسلکی، رنگ و زبان ایسی تفریق کے زخموں سے چور ہے، ہماری صحافت ایک دوسرے کے خلاف دست و گریباں ہے، اس چوتھے ریاستی ستون کو اپنا اصلی کردار ادا کرنا چاہئیے۔ فرقہ واریت اور غیر جمہوری رواج کی مذمت کرنی چاہئیے اور آپس میں مل کر اس کا توڑ کرنا چاہئیے تا کہ جمہوریت مضبوط اور آمریت کمزور ہو۔

اس دور میں جلسوں میں کسی کو بدعنوان کہنا بنا ثبوت کے بہت مشکل تھا۔ اب تو بدعنوانی ایک سیاسی گُن ہے۔

شیخ رشید، گالم گلوچ میں لفظوں کا بازی گر، بقول اس کے پاکستان میں حب الوطنی کا واحد ٹھیکیدار آئی جے آئی باقی سارے غدار۔ کہتا تھا اعتزاز احسن نے سارے راز بھارت کو فروخت کر دیے ہیں اور ہندوستان سندھی ہندوؤں کی مدد سے صوبے میں انتشار پھیلا رہا ہے۔ ایک ہی سانس میں وزیر اعظم غدار، وزیر داخلہ غدار اور پاکستان کے تمام ہندو غدار۔

اتنے سالوں میں بھی کچھ نہیں بدلا۔ اس سے بڑھ کر مقام افسوس ہو سکتا ہے؟ دل خون کے آنسو نہ روئے تو اور کیا کرے! البتہ اخلاقی گراوٹ میں ہم نے بے پناہ ترقی کی جس کی مثال اوپر دی جا چکی ہے اور اس ترقی سے ہمارا پڑوسی بھارت بہت کچھ سیکھ چکا ہے۔

2016 میں بی جے پی کے دیا شنکر سنگھ نے مایا وتی کو فاحشہ کہہ کر پکارا۔

2014 میں سماج وادی پارٹی کے ملائم سنگھ یادیو نے زنا بالجبر (ریپ) کی سزا موت کے حوالے سے کہا کہ لڑکے تو لڑکے ہوتے ہیں، غلطیاں تو کریں گے!

اسی سال ترینمول کانگریس پارٹی کے تپاس پال کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں موصوف اپوزیشن کو یہ کہہ کر دھمکا رہے ہیں کہ باز آ جاؤ ورنہ میں اپنے لونڈے تمہارے اوپر چھوڑ دوں گا جو تمہارے گھروں میں گھس کر تمہاری عورتوں سے بلاتکار کریں گے!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔