نیوکلیئر فیوژن: کیا انسان توانائی کا متبادل ذریعہ دریافت کرنے کے قریب پہنچ چکا؟

نیوکلیئر فیوژن: کیا انسان توانائی کا متبادل ذریعہ دریافت کرنے کے قریب پہنچ چکا؟
کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد سائنس دان توانائی کے مستقبل سے متعلق ایک اہم سنگ میل عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

ستاروں کی توانائی

اگر آپ سائنس فکشن کہانیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو آپ نے جوہری انشقاق یعنی نیوکلیئر فیوژن کے بارے میں ضرور سن رکھا ہوگا۔ حقیقی دنیا میں سورج کو توانائی فیوژن کے عمل ہی سے مہیا ہوتی ہے۔ بعض سائنس فکشن کہانیوں میں ذکر ملتا ہے کہ مستقبل بعید کے انسانوں نے توانائی کا ایک ایسا ذریعہ دریافت کر لیا ہے جو فیوژن کے عمل کے باعث معرض وجود میں آیا ہے۔ ان کہانیوں میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ انسانوں کی جانب سے دریافت کردہ توانائی کا یہ ذریعہ بہت بڑا ہے جو ماحول کو آلودہ کرتا ہے اور نہ ہی خطرناک مقدار میں تابکار فضلہ خارج کرتا ہے۔

گزشتہ روز محکمہ توانائی سے جڑے سائنس دانوں نے ایک ایسی پیش رفت کا اعلان کیا جو اس سائنس فکشن کہانی کو حقیقت میں بدلنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ کئی عشروں کی کوشش کے بعد سائنس دان پہلی مرتبہ نیوکلیئر فیوژن ری ایکشن کا تجربہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ کامیابی یہ ہے کہ جتنی توانائی اس عمل کو مکمل کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے، اس سے زیادہ مقدار میں توانائی اس عمل کے نتیجے میں خارج یعنی پیدا ہوئی ہے۔ اس تکنیکی وضاحت کے پیچھے ایک سادہ لیکن اہم پیش رفت کارفرما ہے؛ انسان اس عمل کو دہرا سکتا ہے یا اسے نقل کر سکتا ہے جو عمل ستاروں کو توانائی پیدا کرنے کی اہلیت بخشتا ہے۔

میرے ساتھی کینتھ چانگ جو طبیعیات اور دیگر سائنسی علوم کا احاطہ کرتے ہیں، انہوں نے مجھے بتایا؛ 'یہ ایک حقیقی سائنسی لمحہ ہے۔ اس سے آپ مستقبل میں دیکھ سکتے ہیں اور ممکنات کے بارے میں امیدیں باندھ سکتے ہیں۔'

اس نتیجے کو اتنا بڑا کیوں کہا جا رہا ہے؟ غیر آلودہ توانائی کے ذریعے کے طور پر نیوکلیئر فیوژن آلودگی پھیلانے والے فوسل ایندھن کی جگہ لینے اور موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اور اگر باقی تمام چیلنجز کا حل تلاش کر لیا جاتا ہے، جو کافی زیادہ ہیں تو آج کے دور کی تمام ٹیکنالوجی کل ملا کے جتنی توانائی پیدا کر رہی ہے نیوکلیئر فیوژن ان سب سے زیادہ توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اگرچہ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ابھی اس ممکنہ مستقبل کے راستے میں بعض سنجیدہ رکاوٹیں حائل ہیں۔ سائنس دان جو عمل محض ایک بار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کیا وہ اسے کامیابی سے بار بار دہرا سکیں گے؟ کیا یہ عمل زیادہ مؤثر طریقے سے اور زیادہ تیزی سے کیا جا سکتا ہے؟ کیا اسے بڑے پیمانے پر کیا جا سکے گا؟ یہ تمام سوالات اتنے سنجیدہ ہیں کہ اگر ان کے جواب نہ ڈھونڈے گئے تو گزشتہ روز والا اعلان بہت زیادہ اہم نہیں رہے گا۔

نیوکلیئر سائنس سے جڑی کوئی بھی چیز بہت جلد تکنیکی اور پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں چند بنیادی باتیں نیچے دی جا رہی ہیں تا کہ سمجھا جا سکے کہ گزشتہ روز کا یہ اعلان کس طرح ایک بڑی دریافت کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

سورج کی نقل تیار کرنا

انشقاق یا فیوژن ایسا عمل ہے جو سورج اور دوسرے ستاروں کو توانائی مہیا کرتا ہے۔ سورج کی بے پناہ کشش ثقل ہائیڈروجن ایٹموں کو مسلسل سکیڑتی اور انہیں ہیلیم میں مدغم کرتی رہتی ہے اور اس عمل سے بہت بڑی مقدار میں توانائی پھوٹتی رہتی ہے۔ یہی توانائی پورے نظام شمسی میں روشنی اور حرارت کے طور پر منتقل ہوتی رہتی ہے اور بعض غیر معمولی حالات میں زندگی کے لیے سازگار حالات بھی یہی توانائی پیدا کرتی ہے۔

زمین پر سائنس دان امید لگا چکے ہیں کہ وہ اسی عمل انشقاق کے ایک چھوٹے سے حصے کو نقل کریں گے اور یوں یہ عمل ہماری ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچے کو توانائی مہیا کرے گا۔ جس طرح کوئلہ، تیل اور گیس جل کر ماحول کے لیے زہریلی گیسیں خارج کرتے ہیں، عمل انشقاق کے ذریعے مضر گیسیں نہیں خارج ہوں گی۔ اس کے علاوہ موجودہ جوہری پاور پلانٹ جو تابکاری فضلہ خارج کرتے ہیں عمل انشقاق سے یہ فضلہ بھی نہیں پیدا ہوگا۔

نیوکلیئر فیوژن ری ایکشن کا کام کرنے کا طریقہ کار


نیو کلیئر فیوژن کے بیش تر تجربات میں ڈونٹ کی جسامت جتنے ری ایکٹر اور مقناطیسی فیلڈز استعمال ہوتے ہیں تاکہ ہائیڈروجن کو پھنسایا جائے، اسے مدغم کیا جائے اور اس سے توانائی خارج کروائی جائے۔ ابھی تک ان تجربات کے نتیجے میں اس مقدار سے زیادہ توانائی خارج نہیں کروائی جا سکی جتنی ان تجربات میں استعمال ہوتی ہے اور توانائی کے حقیقی ذریعے کے حصول کے لیے یہ مقصد حاصل کرنا بنیادی شرط ہے۔

محکمہ توانائی کی لیبارٹری نے جو کیا وہ اس سے قدرے مختلف تھا۔ اس نے ہائیڈروجن کی ایک چھوٹی سی گولی پر 192 لیزر فائر کیے۔ ان فائروں نے گولی کو گرم کر دیا جس سے یہ پھٹنے، ہیلیم میں فیوز ہونے اور توانائی کا ایک دھماکہ خارج کرنے کا باعث بنتی ہے۔

لیزر کیسے اور کس جگہ فائر کیے جائیں، ان میں تبدیلی لا لر برسوں سے لیبارٹری میں یہ تجربات کیے جا رہے تھے۔ 5 دسمبر کو بالآخر ان تبدیلیوں کا ایک مثبت نتیجہ برآمد ہوا؛ جوہری فیوژن نے تقریباً 50 فیصد زیادہ توانائی پیدا کی بہ نسبت لیزرز سے آنے والی توانائی کے۔ (اگرچہ لیزرز کو فائر کرنے میں زیادہ توانائی استعمال ہوتی ہے اور یہ ایک اور حل طلب مسئلہ ہے)

کینتھ نے بتایا کہ 'وہ واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ایک نیوکلیئر فیوژن ری ایکشن کیا ہے جو کہ ری ایکشن شروع کرنے کے لیے درکار توانائی سے زیادہ مقدار میں توانائی پیدا کرتا ہے۔ گزشتہ 50 سالوں سے نیوکلیئر فیوژن پر تحقیق ہو رہی ہے اور اس سے پہلے کبھی بھی اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا جا سکا۔'

اب ہدف یہ ہے کہ اس طریقہ کار کو مزید بہتر بنایا جائے۔ امید ہے کہ اسے تجارتی طور پر قابل عمل بنایا جا سکے گا اور آخر کار توانائی کے دوسرے ذرائع جو بہت زیادہ آلودگی خارج کرتے ہیں، یہ ان کی جگہ لے سکے گا۔

رکاوٹیں

سائنس دانوں کے لیے اگرچہ یہ نتائج خاصے پرجوش ہیں لیکن انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ اس پیش رفت کو وسیع پیمانے پر تجارتی استعمال کی طرف لے جانے میں (اگر کبھی ایسا ممکن ہو پایا) ابھی ممکنہ طور پر کئی دہائیوں کا کام باقی ہے۔

ایک تو یہ بات کہ سائنس دانوں نے اس قسم کا فیوژن ری ایکشن ایک ہی بار کیا ہے۔ اس عمل کو تجارتی استعمال کے لیے قابل اعتماد بنانے اور مستقل طور پر دہرانے کے لیے سہولیات کی ضرورت ہوگی جن میں سے ایک یہ ہے کہ لیزر کو ایک سیکنڈ میں 10 بار فائر کرنے کے قابل بنایا جائے۔

اس مخصوص عمل کے لیے استعمال ہونے والے مختف طرح کے ایندھن میں سے بعض کا حصول بھی مشکل ہو سکتا ہے۔ دیگر ممکنہ ایندھن موجود ہیں، ممکنہ طور پر چاند کی سطح پر کان کنی سے یہ ایندھن حاصل ہوں گے (جی ہاں، یہ بات اتنی ہی مافوق العقل ہے جتنی سننے میں لگتی ہے) لیکن ان کو حاصل کرنے اور استعمال میں لانے کے لیے مکمل طور پر مختلف طرح کی کامیابیاں درکار ہوں گی۔

اس منصوبے کی لاگت اور پیمانے سے متعلق مزید عملی سوالات بھی موجود ہیں۔ محکمہ توانائی کا لیزر کمپلیکس فٹ بال کے تین میدانوں کے برابر جگہ گھیرتا ہے۔ کینتھ نے بتایا؛ 'بہت بڑا، بہت مہنگا، کمرشل پاور پلانٹ کے لیے بہت ناکارہ۔'

اس کے باوجود سائنسی پیش رفت کے لیے یہ عام سی بات ہے کہ عوامی استعمال کے لیے تیار کرنے سے پہلے لیبارٹری کے ماحول میں اس پر تجربات شروع کیے جائیں۔ کم از کم یہ دریافت اتنا ضرور ظاہر کرتی ہے کہ جوہری فیوژن توانائی کا ایک ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اب اس کو قابل استعمال ٹیکنالوجی میں تبدیل کرنے کی کوششیں شروع کرنے پر کام کا آغاز شروع ہونا ہے۔

حرف آخر

اس پیش رفت سے سائنس دانوں کو زیر زمین دھماکے کیے بغیر نیوکلیئر ری ایکشن کا مطالعہ کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

فیوژن سے حاصل ہونے والی توانائی ایک حقیقت بن بھی جاتی ہے تو شاید یہ اتنی جلدی نہ بن سکے کہ موسمیاتی تبدیلی کے عنقریب رونما ہونے والے بدترین اثرات کو ٹالنے میں مددگار ثابت ہو۔

'21 ویں صدی کے آغاز میں سب سے اہم تکنیکی مسئلہ شاید یہ ہو کہ کون سی قوم جوہری فیوژن کے اس نظام کو کنٹرول کرے گی'۔ 1995 میں ٹائمز کے لیے اپنی رائے میں ماہر مستقبل لارنس ای جوزف نے یہ دلیل پیش کی تھی۔