شُکر ہے اے خون آشام گزشتہ سال، تُو رخصت ہوا!

شُکر ہے اے خون آشام گزشتہ سال، تُو رخصت ہوا!
دوست احباب کی جانب سے ' نیا سال مبارک' یا ہیپی نیو ایئر ایسے پیغامات کی بھرمار ہے۔ وہ بیچارے تو خلوص کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ شاید میں پیدائشی قنوطی ہوں۔ یاس و حسرت سے عشق ہے۔ اسی لئے ہر چیز کو مختلف انداز سے دیکھتا ہوں۔ بچپن میں اسی عادت کی وجہ سے اپنی پیاری والدہ سے مار بھی کھائی۔ بھری محفل میں ایسی بات کہنے کی عادت تھی جیسی اب مضامین میں لکھتا ہوں۔ اب ڈانٹنے مارنے والا کوئی نہیں۔ سو کھلی چھٹی ہے۔

ہر سال کے آغاز پر ہیپی نیو ایئر کی نوید سنائی جاتی ہے۔ جو آغاز سے اختتام تک خون آشام مناظر سے بھرپور ہوتا ہے۔ کون سا لمحہ خوشی کا آتا ہے شاید وہی جس میں ہم سب ایک دوسرے کو نئے سال کی آمد پر ایک عدد 'ہیپی نیو ایئر' کا پیغام ارسال کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھئی یہ خوشی کیا کم ہے کہ اگلا سال دیکھنے کے لئے زندہ ہو۔ ابھی تک کسی بم دھماکے یا خود کش حملے میں مارے نہیں گئے۔ اس زاویے سے تو واقعی گزرا ہوا سال مسرت سے بھرپور محسوس ہوتا ہے۔

کیسے مان لوں کہ نیا سال خوشیاں لے کر آئے گا؟ کیا 30 لاکھ سے زائد غریب لوگ جو سیلاب کی وجہ سے پچھلے چھ ماہ سے کھلے آسمان تلے موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کو کھانے کے لئے من و سلویٰ ملنا شروع ہو جائے گا؟ ننگے بدن پر ریشم و کمخواب کی پوشاک یا رہنے کو تاج محل میسر ہو گا؟ کیا ان کے بچے اعلیٰ درسگاہوں میں بھیجے جائیں گے؟ کیا دو دو، تین تین، چار چار سال کی بچیوں سے لمبی لمبی داڑھی والے حفاظ قرآن جنسی زیادتی اور اس کے بعد ان کا قتل کرنا بند کر دیں گے؟

کیا کسی خواجہ سرا کو انسان سمجھا جائے گا؟ کیا سیاست دان اور وہ جو اس ملک کی تقدیر کے مالک ہیں، انسانوں کا خون پینا بند کر دیں گے؟ کیا قریب 10 ہزار لوگ جو لاپتہ ہیں، دوبارہ اپنے گھر لوٹ سکیں گے؟ کیا طاقت ور کا احتساب ہو گا؟ کیا مذہبی، نسلی و مسلکی بنیادوں پر خون بہنا بند ہو جائے گا؟ کیا مولوی منبر سے فساد پھیلانا بند کر دے گا؟ کیا نام نہاد علما ٹی ٹی پی کے درندہ صفت غول کی مذمت میں آواز بلند کریں گے؟ کیا مدارسں میں لونڈے بازی ختم ہو جائے گی؟ کیا افسر شاہی لوگوں کے مسائل حل کرنا شروع کر دے گی؟

کیا رشوت اور بدعنوانی کا کینسر جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا؟ کیا بھائی بہنوں کو وراثت میں حصہ دینا شروع ہو جائیں گے؟ کیا بے غیرت دولہے جہیز لینے کے بجائے ہونے والے ساس سسر کا بوجھ کم کرنا شروع ہو جائیں گے؟ کیا منگنی اور شادی بیاہ ایسی تقریبات سادگی سے ہونے لگ جائیں گی؟ کیا حج پہ حج اور تھوک کے حساب سے عمرے کرنے والے تاجر ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کرنا بند کر دیں گے؟ کیا ڈاکٹر مریضوں کا علاج اپنے پرائیویٹ کلینک کے بجائے سرکاری ہسپتال میں کرنا شروع کر دیں گے؟

کیا بے بس لوگوں کو لینڈ مافیا سے نجات مل سکے گی؟ کیا سیاست دان چوبیس گھنٹوں کی بنیاد پر مخالفین کو ننگا کرنے کے بجائے اسمبلی میں بیٹھ کر قانون سازی کریں گے؟ کیا پاکستان نازک دور سے باہر آ جائے گا؟ کیا اس ملک میں بجلی، گیس، پانی کی فراوانی ہو چکی ہو گی؟ کیا غریب آدمی الیکشن میں کھڑا ہو سکتا ہے؟ کیا وڈیروں کے مزارعے اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں؟ کیا لیڈر سرخ بتی پر رکنا شروع ہو گئے ہیں؟ کیا صحافیوں نے طاقتوروں کی دلالی چھوڑ کر اس مقدس پیشے کی عزت بحال کر دی ہے؟ کیا وکلا گردی ختم ہو چکی ہے؟ کیا نوکریاں میرٹ پر ملنا شروع ہو چکی ہیں؟ کیا سیاست دانوں نے پولیس اور افسر شاہی کے کاموں میں مداخلت بند کر دی ہے؟ اگر یہ سب کچھ 2023 میں حاصل ہو جائے اور موجودہ برس امن و شانتی سے گزر جائے تو پھر وجہ سمجھ آتی ہے ایک دوسرے کو ہیپی نیو ایئر کے پیغامات بھیجنے کی۔

میں سالگرہ نہیں مناتا۔ اپنی تاریخ پیدائش فیس بک پر خفیہ رکھی ہوئی ہے پرائیویسی سیٹنگز کی بدولت۔ وجہ دو ہیں؛ یا ہم ایک ہی بار پیدا ہوتے ہیں اور ایک ہی بار مرتے ہیں۔ یا ہم سب یا ہم میں سے کچھ روز مرتے اور پیدا ہوتے ہیں۔ کیا ہر لمحہ نیا نہیں ہوتا؟ کیا ہر سانس پہلے والے سے مختلف نہیں ہوتا؟ تو پھر کیا ضرورت اس فضول نوٹنکی کی؟ جب میں بچہ تھا تو بزرگوں سے یہی سنتا کہ موجودہ دور بہت ہی مایوس کن ہے۔ ان کا دور بہت اچھا تھا۔ مہنگائی بہت ہو چکی ہے۔ بڑے چھوٹے کی تمیز ختم ہو چکی ہے۔ معاشرہ بے حس ہو چکا ہے۔ خون رنگ بدل کر سفید ہو چکا ہے۔ تو آج میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ غلط کہہ رہے تھے۔ جس دور میں انہیں سب برائیاں نظر آیا کرتی تھیں دراصل وہ دور بہت بہتر تھا۔ جو شکایات وہ کیا کرتے تھے، وہ آج کے معاشرے میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ یا پھر یوں کہیے کہ پچھلی ایک صدی میں کچھ نہیں بدلا۔ حالات بد سے بد تر ہی ہوئے۔ کم از کم پاکستان کے بارے میں تو یہ بات صادق آتی ہے۔

اب افغانستان میں وہ لوگ حکمرانی کر رہے ہیں جنہیں دنیا کائنات کے بدترین دہشت گرد گردانتی تھی۔ ان کے شاگرد تحریک طالبان پاکستان کی صورت میں پاکستان کو افغانستان بنانے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ قریب 90 فیصد تو ہم افغانستان بن ہی چکے ہیں۔ 10 فیصد کام باقی ہے۔ وہ بھی انشاء اللہ اسی برس پورا ہو جائے گا۔ پھر دیجئے گا 2024 میں ایک نئی مبارک باد امارت اسلامی پاکستان کو۔

جو کام کرنے کا ہے وہ کوئی نہیں کرتا۔ وہ یہ کہ افسوس اے گزرے ہوئے سال تو بھی خون خرابے سے محفوظ نہیں تھا۔ اس بنیاد پر اب میسج یہ ہونا چاہئیے؛

Happy New Terror Year
Happy New Poverty Year
Happy New Injustice Year

کوئی جائے ہیڈ کانسٹیبل عدیل حسین کے گھر۔ عدیل جو پچھلے ہفتے شہید ہوا اسلام آباد میں۔ ایک فدائی کو روک کر کتنی جانیں بچائیں اس عظیم انسان نے۔ کیا کوئی آنے والا لمحہ، دن، ماہ و سال عدیل کے گھر والوں کے لئے ہیپی ہو سکتا ہے؟ کروڑ روپے دے کر ریاست یہ سمجھتی ہے کہ بہت بڑا احسان کیا عدیل کے خاندان پر۔ احسان تو اس نے کیا ساری انسانیت پر۔ ہر لمحے ماتم کرنا چاہئیے ایسا معاشرہ بن چکا ہے یہ۔ اب کوئی خوشی نہیں آئے گی یہاں۔ یقین مانیے جو حالات ہیں اس میں یہ امر یقینی ہے کہ موجودہ سال گزرے ہوئے برس سے کہیں زیادہ بربادی لے کر آئے گا۔ اپنے ساتھ بہت کچھ بہا لے جائے گا۔ ملک کے کونے کونے میں خون ہی خون ہو گا۔ جن لوگوں کو آج تین وقت کا کھانا نصیب ہے وہ دو وقت پر آ جائیں گے۔ دو وقت والے ایک وقت پر اور ایک وقت والے فاقوں پر۔ جن کے تن پر آج چیتھڑے ہیں وہ کل تن ڈھانپنے کے قابل نہ رہیں گے۔ لیکن حکمران عیش کرتے رہیں گے۔ ان کی دولت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ قانون ان کے گھر کی لونڈی بنا رہے گا۔

اس بار ہیپی نیو ایئر کے پیغامات مت بھیجیں۔ یہ میسج بھیجیں کہ شکر ہے اے خون آشام گزشتہ سال تُو ختم ہوا۔ ہماری جان چھوڑی تُو نے۔ جو کہیں سے بھی ہیپی نہ تھا۔ ہم نے تجھے خواہ مخواہ ہیپی سمجھا۔ اور اے نئے سال تُو کہیں پرانے والے کی طرح نہ بن جانا!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔