• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
پیر, فروری 6, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا

"گھنگھرو کسی کمزوری یا عورت کی نشانی نہیں ہے بلکہ یہ ایک میوزیکل انسٹرومنٹ ہے جو طبلے کی تال کے ساتھ بجتا ہے۔ کتھک ڈانس میں پرفارمر کے جسم کا ایک ایک حصہ ایکسپریشن دے رہا ہوتا ہے تو پھر مردوں کی نظریں پاؤں کے گھنگھروؤں پر کیوں ہوتی ہیں۔ وہ اسے غلامی کی نشانی سمجھتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ گھنگھرو غلامی کی زنجیر نہیں آزادی کی جھنکار ہے"

ظریف رند by ظریف رند
جنوری 6, 2023
in ایڈیٹر کی پسند, میگزین
74 0
0
Ahmad Baloch Kathak dance
87
SHARES
413
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقے ضلع آواران کے گاؤں تیرتِج کے غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ احمد بلوچ جسے ہم احمد ابنِ سکینہ کے نام سے جانتے ہیں، اس کا ایک چرواہے سے معروف کتھک ڈانسر اور آرٹسٹ بننے تک کا سفر بڑا دلچسپ ہے۔

موسیقی سے ان کے دلچسپ سفر کا آغاز ان کے گھر کے ماحول سے شروع ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے گھر میں ریڈیو سننے کا رواج ان کے دادا سے شروع ہوا۔ جس کے بعد ان کے گھر کی خواتین رات کو کپڑے سیتے وقت ریڈیو سنتی تھیں جس میں انڈین موسیقی چلتی تھی۔ گھر والوں کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بچپن میں ہی احمد کے کانوں نے موسیقی سے ناطہ جوڑ لیا تھا اور ان کے جسم کی روم روم میں گھنگھروؤں کی جھنکار نے گھر کر لیا تھا۔

RelatedPosts

مکران میں مذہبی شدت پسندی کو بلوچ نیشنل ازم کے خلاف استعمال کیے جانے کا خطرہ ہے

Load More

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد جو دبئی میں مزدوری کرتے تھے، انہوں نے وہاں سے ایک ریڈیو بھیجا تو اسے وہ لے کر بکریاں چرانے جنگل جاتے تھے، وہاں موسیقی سن کر رقص کیا کرتے تھے۔

احمد کہتا ہے “ریڈیو سنتے وقت میں بکریوں کی آوازوں کو بھی نوٹس کرتا تھا۔ ان کے قدموں کی آوازیں، ان کی چرتے ہوئے آوازیں، پتّوں کا گرنا، تیز ہواؤں کا درختوں کے ساتھ ملاپ اور اس سے تخلیق ہوتی نئی آوازیں، پرندوں کا چہکنا، سورج کا نکلنا اور پھر ڈوب جانا، فطرت کے ان سب کرشمات میں ایک الگ کیفیت محسوس ہوتی تھی۔ اسی سے متاثر ہو کر میں اپنے جسم اور اپنے قدموں پر بھی غور کرتا تھا اور اسے نیچر کے ساتھ رقص کی صورت میں جوڑ لیتا تھا”۔

نیچر کی فضاؤں میں احمد نے اپنا ایک آرٹ فارم رقص کی صورت میں تخلیق کر لیا تھا اور اسے خبر بھی نہ تھی کہ یہ آرٹ فارم دنیا میں کہیں اور بھی پرفارم کیا جاتا ہے۔ یہ انکشاف ان پر تب ہوا جب وہ آواران کالج سے انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد جامعہ بلوچستان کوئٹہ چلے گئے، تو وہاں ساکم سخن گنج نامی ان کے پہلے گُرو نے انہیں بتایا کہ اس ڈانس فارم کو کھتک کہا جاتا ہے۔ انہوں نے احمد کو کچھ ویڈیوز بھی دکھائیں، تب ان کے سیکھنے اور پرفارم کرنے کی چاہت مزید بڑھ گئی۔

آرٹ کے فطری ناطے نے احمد کو بلوچستان میں رہنے نہیں دیا اور وہ مہران یونیورسٹی کے سنٹر آف ایکسیلنس اِن آرٹ اینڈ ڈیزائن میں بی ایس کرنے چلے گئے جہاں انہوں نے آرٹ اینڈ ڈیزائن کی تعلیم حاصل کی اور وہاں بھی کتھک ڈانس جاری رکھا۔ پھر انہوں نے نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کا رُخ کیا جہاں سے انہوں نے ویژول آرٹ میں ایم فِل کی ڈگری حاصل کی۔ احمد نے باقاعدہ کتھک کی ٹریننگ لاہور میں میڈیم زرین پنّا سے حاصل کی اور ناہید صدیقی صاحبہ کی پروڈکشن کے ساتھ بھی انہوں نے دو سال تک ٹریننگ لی ہے۔

Ahmad Baloch Kathak dance

شعوری عمر کو پہنچنے کے بعد وہ اپنی زندگی کا تجزیہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ”بچپن میں میرا کوئی خاص ایکسپوژر نہیں رہا ہے۔ میں بہت محروم بچہ رہاں ہوں۔ میں نے کبھی اپنے والدین سے کسی بھی چیز کے لئے ضد نہیں کی۔ اب جو مجھے شعور آیا ہے تو میں اپنے بچپن کو دوبارہ جینا چاہتا ہوں، اپنا سپیس دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہوں، جو مجھے بچپن میں نہیں ملا وہ اب میں پانا چاہتا ہوں، اس کے لئے میں اپنا آرٹ فارم استعمال کرتا ہوں۔”

ہمارے معاشرے میں مرد کے ناچنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے جب کہ مرد اگر فراک اور گھنگھرو پہن کر ناچے تو اسے دوسری یا تیسری جنس کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، اس پر احمد کا کہنا ہے کہ “یہ لوگوں کے غلط تصوّرات ہیں، کتھک کے بنیادی پرفارمر مرد ہی رہے ہیں، اس آرٹ فارم میں رادھا کرشنا کی محبت کی داستان بیان کی جاتی ہے، جس میں مرد کرداروں کے ساتھ بچوں اور عورتوں کے ایکسپریشن بھی شامل ہوتے ہیں”۔

گھنگھرو پہننے کے سوال پر وہ وضاحت کرتے ہیں کہ “گھنگھرو کسی کمزوری یا عورت کی نشانی نہیں ہے بلکہ یہ ایک میوزیکل انسٹرومنٹ ہے جو طبلے کی تال کے ساتھ بجتا ہے”۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ “کتھک ڈانس میں پرفارمر کے جسم کا ایک ایک حصہ ایکسپریشن دے رہا ہوتا ہے تو پھر مردوں کی نظریں پاؤں کے گھنگھروؤں پر کیوں ہوتی ہیں۔ وہ اسے غلامی کی نشانی سمجھتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ گھنگھرو غلامی کی زنجیر نہیں آزادی کی جھنکار ہے”۔

معاشرے کے غلط تصورات پر تنقید کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ “کتھک ڈانسر کو دیکھ کر مردوں کی مردانہ نفسیات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور وہ عدم تحفظ کا شکار محسوس کرنے لگتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے لوگوں کو کتھک کی تاریخ پڑھنی چاہیے، اسے اپنانا چاہیے کیونکہ یہ اس خطے کی تاریخ اور ثقافت کا اہم جُزو ہے”۔

کتھک ڈانس کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس میں مسکولانیٹی اور سافٹ لاشے شامل ہیں، جسے مزید اسی گھرانوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جیسا کہ لکھنؤ گھرانہ، بنارس گھرانہ، آگرا گھرانہ اور جے پور گھرانہ، وغیرہ۔ احمد کا کتھک فارم لکھنؤ گھرانہ ہے، جس کے متعلق وہ بتاتے ہیں کہ “اس فارم میں نزاکت اور خوبصورتی بہت ہے اس لئے اسے عورت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے”۔

احمد کی جنسی شناخت پر سوال اٹھانے والوں کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ “مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں، میں آرٹسٹ ہوں اور آرٹ کسی جنس کے تابع نہیں ہوتا۔ مجھے اپنی شناخت کہیں ثابت کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی، لیکن میں چاہتا ہوں کہ لوگ آرٹ کو آرٹ کے ہی طور پر لیں، اسے جنس کے ساتھ نہ جوڑیں۔”

معاشرے کا رویہ احمد کے ساتھ منفی اور مثبت دونوں رہا ہے مگر وہ منفی رویّوں کو درگزر کر کے مثبت پہلوؤں کو ساتھ لے کر آگے بڑھتے ہیں جن سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کے چند یادگار حوصلہ افزا لمحات یاد کرتے ہوئے جذبات میں اشکبار ہوئے، جس سے ان کے آرٹ سے زبردست لگاؤ کا پتا چلتا ہے۔

“میری ابتدا ہی حوصلہ افزائی سے شروع ہوئی ہے۔ جب میں نے پہلی بار پی ٹی وی بولان کی ایک تقریب میں پرفارم کیا تو مجھے تیسری پوزیشن دینے پر ایک خاتون نے باقاعدہ ججز کے ساتھ میرے لئے لڑائی کی کہ میں پہلی پوزیشن کا حقدار ہوں۔ اس دن مجھے احساس ہوا میرے آرٹ کو سپیس حاصل ہو سکتی ہے، اس سے میرا حوصلہ بڑھا”۔

اسی طرح ایک اور اہم واقعے کا ذکر کرتے ہیں کہ “مہران یونیورسٹی میں کلاس ٹیچر نے مجھے پرفارم کرنے کا موقع دیا تو پرفارمنس کے بعد میں نے دیکھا میرے سامنے میری ہم کلاس لڑکیاں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں، تب مجھے بہت حیرت ہوئی کہ میرا آرٹ اتنا مضبوط ہے کہ یہ دوسروں کے جذبات کو چھو سکتا ہے، انہیں میرے محسوسات کے ساتھ جوڑ سکتا ہے اور ایک دوسرے کے احساسات منتقل بھی کر سکتا ہے”۔

ایسا ہی ایک اور واقعہ جس کا تذکرہ بھی اہم ہے، جب انہوں نے تربت کے ایک کالج میں پرفارم کیا تو سات، آٹھ سال کے ایک بچے نے آ کر ان کا ہاتھ چھوم لیا۔ اس پر احمد کہتے ہیں کہ “میرا آرٹ فارم بہت طاقتور ہے، یہ سات سال کے بچے سے لے کر نوجوانوں اور بزرگوں تک کے جذبات کو چھو سکتا ہے، میرے رقص کی بدولت لوگ اپنے اصل جذبات و احساسات سے ملاقات کر سکتے ہیں۔”

احمد کتھک کے علاوہ خود کو کہیں اور فِٹ نہیں پاتے۔ ان کے مطابق انہوں نے سکولوں میں پڑھانےکی کوشش کی ہے مگر وہ کہیں ایڈجسٹ نہیں ہو پائے۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ کتھک کو مزید پھیلائیں مگر انہیں اس سلسلے میں کوئی مدد حاصل نہیں ہے۔

ان سے کتھک سیکھنے کے لئے مختلف جگہوں سے لوگ رابطہ بھی کرتے ہیں جن میں طلبہ سمیت گھریلو خواتین بھی شامل ہیں، مگر کسی ادارے کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ باقاعدہ کلاسز کا آغاز نہیں کر پا رہے۔

حکومت کی جانب سے تعاون کے سوال پر ان کا کہنا ہے کہ “سرکار کے لئے تو ہم سوتیلے بچّے ہیں، ہمیں کوئی نہیں اپناتا، ان کی جانب سے مجھے آج تک کوئی موقع یا پذیرائی نہیں ملی، جتنی سپیس ملی وہ ملک کے ترقی پسند حلقوں کی مرہونِ منّت ہے”۔

احمد نے اپنی والدہ کی محبت اور احسانات کے پیش نظر ان کے نام سکینہ کو اپنے نام کے ساتھ جوڑ لیا ہے۔ وہ کتھک ڈانسر کے علاوہ بہت خوبصورت پینٹر بھی ہیں۔ پینٹنگز بنا کر ان کی نمائش سے جو کمائی انہیں ملتی ہے اس سے وہ اپنا گھر چلاتے ہیں۔ مگر وہ بحیثیت کتھک ڈانسر زیادہ شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ انہیں کتھک کے انتخاب پر ناز ہے، جب کہ مزید سیکھنے اور آگے بڑھنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔

“مجھے بالکل بھی افسوس نہیں ہے کہ مجھے کتھک کی جگہ کسی اور شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے تھا، کتھک تو میری جان ہے، اس سے میں اپنے جذبات کو اظہار دے پاتا ہوں اور دوسروں کے جذبات کو بھی اجاگر کرنے میں مددگار ہو سکتا ہوں، ہاں البتہ اس بات کا ملال ہے کہ بیلارینا کی کلاسز یہاں کیوں نہیں ہوتیں، میری خواہش ہے کہ میں بیلے بھی سیکھوں اور پرفارم کروں”۔

Tags: Balouchistaninspirationkathak artsocial taboos
Previous Post

گوادر میں آئین، قانون اور جمہوریت کے جواب میں ریاستی تشدد

Next Post

‘معاشی مشکلات کے باوجود پنجاب حکومت جہاز اور مہنگی گاڑیاں درآمد کر رہی ہے’

ظریف رند

ظریف رند

Related Posts

کشمیر کی آزادی پاکستان کی سیاسی اور معاشی طاقت سے ممکن ہے

کشمیر کی آزادی پاکستان کی سیاسی اور معاشی طاقت سے ممکن ہے

by احتشام اعجاز بھلی
فروری 5, 2023
0

ہر سال کی طرح اس سال بھی پانچ فروری پاکستان میں کشمیر ڈے کے نام سے منصوب ہے۔ اس دن سرکاری تعطیل...

5 فروری کو دو منٹ کی خاموشی سے کشمیر آزاد نہیں ہو گا

5 فروری کو دو منٹ کی خاموشی سے کشمیر آزاد نہیں ہو گا

by زینب نثار
فروری 5, 2023
0

کوئی آواز اب اٹھائے کہ کشمیر جل رہا ہے کوئی انصاف اب دلائے کہ کشمیر جل رہا ہے وہ کشمیر جو کبھی...

Load More
Next Post
‘معاشی مشکلات کے باوجود پنجاب حکومت جہاز اور مہنگی گاڑیاں درآمد کر رہی ہے’

'معاشی مشکلات کے باوجود پنجاب حکومت جہاز اور مہنگی گاڑیاں درآمد کر رہی ہے'

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

by عاصم علی
فروری 2, 2023
1

...

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

by عاصم علی
فروری 3, 2023
0

...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 30, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In