سکردو کے رہائشی چار سالوں سے صاف پانی کو ترس رہے ہیں

سکردو کے رہائشی چار سالوں سے صاف پانی کو ترس رہے ہیں
سکردو کالج روڈ پہ سڑک بند ہونے کی وجہ سے ٹریفک جام تھا۔ وجہ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ کچھ عورتوں نے سڑک بلاک کی ہوئی تھی۔ موقع پر جا کر دیکھا تو جعفری محلے کی 20 سے 25 عورتیں ہاتھوں میں بالٹیاں اور بوتلیں اٹھائے احتجاج کر رہی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ اور واٹر سپلائی کا محکمے (پی ایچ ای) کے خلاف شدید نعرے بازی ہو رہی تھی۔ جب ان خواتین سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ بعد میں ان میں سے سکینہ نامی ایک عورت اٹھی اور کیمرہ بند رکھنے کی شرط پہ بات کرنے پر آمادہ ہو گئی۔ ہم نے احتجاج کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ محکمہ پی ایچ ای سکردو شہر کو صاف پانی کی ترسیل میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ آئے روز بغیر کسی پیشگی اطلاع کے پانی کی ترسیل بند کر دی جاتی ہے جس سے ہمیں پینے اور دیگر گھریلو استعمال کے لئے پانی میسر نہیں ہوتا۔ اس کے باعث ہمیں دور دراز جا کر پانی بھرنا پڑتا ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور پی ایچ ای والے وعدے تو کرتے ہیں لیکن پانی نہیں دیتے۔ پینے کا صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے بیماریاں بھی جنم لے رہی ہیں۔

صورت حال یہ ہے کہ مذکورہ مسئلہ محض جعفری محلے ہی کو درپیش نہیں بلکہ سکردو شہر کے کئی محلوں میں پانی کی ترسیل نہ ہونے کے برابر ہے۔ ریڈیو پاکستان چوک سے لے کر 411 ایریا تک پانی کی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں۔ ہرگسہ، شق تھنگ، نیورنگاہ، چھونپہ، کھور، مقپون، ژھر، گیول میں لوگ پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ سکردو شہر میں پانی کا یہ مسئلہ پچھلے چار سالوں سے حل طلب ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پانی کی ترسیل بند ہونے کے بعد پانی بھرنے کے لئے دور دراز کے علاقوں میں جانا پڑتا ہے۔ بسا اوقات گاڑی یا موٹر سائیکل سے پانی لے آتے ہیں جس سے گھریلو اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی کچھ علاقوں میں مسلسل پانی کی ترسیل نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اب بورنگ کی طرف جا رہے ہیں۔ لیکن یہ ہر کسی کی دسترس میں نہیں ہے کیونکہ ایک بورنگ پر ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک اخراجات آتے ہیں۔

پانی نہ ملنے کی اصل وجہ کیا ہے؟

اس حوالے سے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ سکردو کا کہنا ہے کہ سکردو میں پانی کی قلت عارضی ہے۔ سکردو کو پانی سپلائی کرنے والے سدپارہ ڈیم میں پانی کی سطح کم ہونے کے باعث شہر کے مختلف علاقوں کو پانی کی ترسیل روکنا پڑتی ہے۔ جونہی سدپارہ ڈیم میں پانی آئے گا، پانی کی ترسیل بھی بہتر ہو جائے گی۔

دراصل برف باری اور بارشیں کم ہونے کی وجہ سے سدپارہ ڈیم میں پانی کی مقدار کم رہ جاتی ہے۔ سکردو میں پانی کی قلت کو کم کرنے کے لئے دنیا کی دوسری بلند ترین سطح مرتفع دیوسائی میں موجود شتونگ نالے کا پانی سدپارہ ڈیم کی طرف لانے کے لئے بھی وفاقی سطح پر منصوبے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

گلگت بلتستان اسمبلی کے سابق سپیکر حاجی فدا محمد ناشاد نے ہمیں بتایا کہ جب تک شتونگ نالے کا رخ سکردو کی طرف نہیں موڑا جاتا، سکردو شہر اور ملحقہ دیہاتوں میں پینے کے پانی اور آبپاشی کی مشکلات حل نہیں ہو سکتی ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے وفاقی سیکرٹری آبی وسائل کو بھی آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چیئرمین واپڈا سے بھی کچھ عرصہ پہلے شتونگ نالہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حکمت عملی مرتب کرنے کا مطالبہ کیا جا چکا ہے۔

واپڈا کی ویب سائٹ پر موجود مواد کے مطابق شتونگ نالہ منصوبے کے لئے پی سی ٹو، فزیبلٹی کے لئے 276.3 ملین روپے ڈی ڈی ڈبلیو پی 21 مئی 2021 کو ہونے والی میٹینگ میں منظور ہو چکا ہے۔ فزیبلٹی کے مطابق منصوبہ جون 2022 سے شروع ہوا ہے اور دسمبر 2023  تک مکمل ہو جائے گا۔

انتظامیہ کیا کہتی ہے؟

پی ایچ ای کے ایگزیکٹو انجینئر محمد صفدر کے مطابق سکردو شہر میں اس وقت صاف پانی کے لئے 12 فلٹریشن پلانٹ نصب کئے گئے ہیں جن میں تمام فلٹریشن پلانٹس صاف پانی فراہم کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ سکردو کے عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت سکردو میں صاف پانی کے 9 منصوبے تکمیل کے مراحل طے کر رہے ہیں جن پر 27 کروڑ 65 لاکھ روپے لاگت آئے گی۔ ان کے مطابق سکردو کو پانی سپلائی کرنے والی ٹینکیوں کی سال میں 3 سے 4 مرتبہ صفائی ہوتی ہے اور گرمیوں میں یہ صفائی حسب ضرورت ہوتی ہے۔ ٹینکی کو جراثیم سے پاک کرنے کے لئے صفائی کے دوران بلیچنگ پاؤڈر کا استعمال کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ آنے والی اے ڈی پی میں شہریوں کو صاف پانی کے مزید منصوبوں کے لئے سفارشات مرتب کرکے اعلیٰ حکام کو بھجوا دی ہیں۔ امید ہے کہ مزید کئی منصوبے جلد شروع کریں گے۔ ان منصوبوں میں نیورنگاہ، آستانہ کشمورا اور نیانیور ایریا کے لئے پائپ لائن سکیم کے لئے پی ون دیئے گئے ہیں جن پر 5 کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ ساتھ ہی برگے اور حلقہ دو کے دیگر محلہ جات کے لئے پینے کا پانی سکیم کے لئے سفارشات مرتب کی جا چکی ہیں جس پر 3 کروڑ روپے لاگت آئے گی اور سکردو شہر کے لئے 2 کروڑ روپے کے 6 فلٹریشن پلانٹس کی منظوری ملنا باقی ہے۔

صاف پانی کی عدم دستیابی سے بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں

ریجنل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال سکردو میں بطور کنسلٹنٹ ذمہ داریاں سرانجام دینے والے ماہر امراض جگر و معدہ ڈاکٹر اختر حسین کا کہنا ہے کہ سکردو میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہ ملنے کے باعث مختلف بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ گرمی کے موسم میں ان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پانی کی عدم فراہمی کے باعث شہر میں چند بیماریاں عام ہو رہی ہیں جن میں اسہال، آنتوں کا انفیکشن، امیبک پیچش اور بیکلری پیچش نمایاں ہیں۔ بچے ان بیماریوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ حکومتی سطح پر اگر جلد از جلد کوئی حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی تو مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر اختر کا کہنا تھا کہ شہریوں کو چاہئیے کہ گھروں میں پانی ابال کر استعمال کریں۔ پانی والے محکمے کو چاہئیے کہ شہر کے ہر محلے میں فلٹریشن پلانٹ لگایا جائے اور اس کی صفائی ہفتے میں ایک مرتبہ یقینی بنائی جائے۔ ان اقدامات سے شہری ان بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ضلعی انتظامیہ مختلف ذرائع کی مدد سے مہم چلائے کہ گھروں میں پانی ابال کر استعمال کیا جائے تاکہ علاقے میں اس حوالے سے آگاہی پیدا کی جا سکے۔

سرور حسین سکندر کا تعلق سکردو کے علاقے مہدی آباد سے ہے۔ وہ بین الاقوامی تعلقات میں ایم ایس سی کر چکے ہیں اور گزشتہ آٹھ سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ سرور مختلف سماجی مسائل سے متعلق تحقیقاتی رپورٹس تحریر کرتے رہتے ہیں۔