پاکستان دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے؛ سابق امریکی وزیر دفاع

پاکستان دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے؛ سابق امریکی وزیر دفاع
پاکستان میں عسکری قیادت کے ساتھ دہائیوں تک معاملات کرنے والے سابق امریکی وزیر دفاع جم میٹس اپنی نئی کتاب ‘Call Sign Chaos: Learning to Lead’ میں لکھتے ہیں کہ پاکستان اپنی جوہری صلاحیتوں، خراب حکومتی کارکردگی اور مسلسل بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی وجہ سے دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے۔

امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد جم میٹس نے افغانستان میں امریکی افواج کی قیادت کی تھی۔ اپنی کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ پاکستانی عوام کو دہرا المیہ درپیش ہے کہ ایک جانب ان کے پاس ایسے رہنما ہی موجود نہیں ہیں جو ملک کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہوں جبکہ دوسری جانب بطور معاشرہ وہ اتنے خود غرض، بد عنوان اور کم تعلیم یافتہ ہیں کہ ان کا کچھ بھلا ہوتا نظر نہیں آتا۔

گزشتہ سال مستعفی ہونے والے 68 سالہ امریکی وزیر دفاع دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کا سیاسی کلچر ملک کو تباہی کی جانب لے جانے والے راستے پر تیزی سے گامزن ہے۔

'پاکستان ایک ایسا ملک تھا جو پہلے دن سے اپنے بارے میں لاپروا تھا۔ اوپر کی جانب بڑھنا اور انفرادی طور پر صرف خود کو فائدہ پہنچانا بڑے عوامل تھے جو شروع سے کارفرما تھے اور ملک کے سیاسی کلچر کا رجحان ایسا تھا جو ملک کے لئے سراسر نقصان دہ تھا۔' ان خیالات کا اظہار انہوں نے اس تناظر میں کیا کہ ملک میں ہر کوئی مجموعی بہتری اور ریاست کے نقصان کی قیمت پر محض اپنے فائدے کے لئے کام کر رہا ہے۔

میں نے جتنے بھی ملکوں کے ساتھ کام کیا ہے ان میں پاکستان سب سے زیادہ خطرناک ہے اور اس خطرے کی بڑی وجوہات میں انتہا پسند سوچ، سماج میں تعلیم اور تنقیدی سوچ کی کمی اور ملک میں نیوکلیائی ہتھیاروں کی موجودگی شامل ہیں۔ اور ان کے ساتھ ساتھ انتہائی تنگ نظر مذہبی رجحان کا عنصر بھی ان وجوہات میں شامل ہے۔

دنیا میں تیزی سے بڑھتے ہوئے نیوکلیئر ہتھیاروں کا کنٹرول ان دہشت گردوں کے ہاتھوں میں نہیں دیا جا سکتا جو پاکستان میں پھل پھول رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے مزید کہا کہ پوری دنیا کے لئے اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔

پاکستانی عوام کا المیہ یہ ہے کہ ان کے پاس ایسے رہنما ہی نہیں ہیں جو ان کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہوں۔ دوطرفہ تعلقات میں اعتماد کی کمی کی ایک مثال ملاحظہ کریں کہ جب ہمیں یقین ہو گیا کہ ہم نے پاکستان کے اندر اس جگہ کی نشاندہی کر لی ہے جہاں اسامہ بن لادن چھپا ہوا تھا تو امریکی صدر باراک اوباما نے پاکستانیوں کو بتائے بغیر اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لئے ایک ٹیم بھیجی، ان (پاکستانیوں) کی ملی بھگت اور ڈبل ڈیلنگ کی وجہ سے'۔ اپنی کتاب میں مسٹر میٹس نے لکھا ہے کہ جب وہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر تھے تو انہوں نے افغانستان میں مواصلات کے نظام میں کن تبدیلیوں کو متعارف کروایا تھا۔

'میں پریشان تھا کہ نیٹو کی 70 فیصد سے زیادہ اشیا کی ترسیل کا انحصار ایک ایسے راستے پر تھا جو پیسوں کے بھوکے اور غیر مستحکم پاکستان میں سے گزرتا تھا۔ میں نے نقشے پر ایک نظر ڈالی اور فیصلہ کیا کہ ہمیں بساط پر چند فوری تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔'

مسٹر میٹس لکھتے ہیں کہ ستمبر 2011 میں ڈیو پیٹریاس کی جگہ افغانستان میں نیٹو کمانڈر کے عہدے پر فائز ہونے والے جنرل جان ایلن نے پاکستانی فوج کو وارننگ دی۔

'انہوں نے بتایا کہ انہیں معلوم ہوا تھا کہ 'دہشت گرد' حقانی نیٹ ورک جو پاکستان میں چھپا ہوا ہے، ایک بڑے ٹرک بم کی تیاری کر رہا ہے۔ پاکستانی آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ وہ اس ضمن میں کارروائی کریں گے مگر انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔'

وہ لکھتے ہیں؛ 'دو دن بعد وہ بم کابل کے قریب ایک امریکی اڈے پر پھٹا جس میں 5 افغانی شہری ہلاک ہوگئے جبکہ 77 امریکی فوجی زخمی ہوئے۔ اس واقعے کے کچھ ہی روز بعد 'دہشت گرد' حقانی نیٹ ورک نے کابل میں ہمارے سفارت خانے پر حملہ کر دیا۔'

اسی دوران واشنگٹن میں ہونے والی ایک سفارتی تقریب میں مسٹر میٹس امریکہ میں اس وقت کے پاکستانی سفیر حسین حقانی پر چڑھ دوڑے اور انہیں کھلے ننگے الفاظ میں کھری کھری سنا دیں۔

'پاکستان آرمی ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر اسی شہر میں ہے جہاں دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر قائم ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ آپ دہشت گردوں کے ساتھ نہیں ہیں اور اب انہوں نے سرحد کے پار پاکستان سے منظم کارروائی میں ہمارے سفارت خانے پر حملہ کر دیا ہے۔ آپ ایسے لوگوں کی حمایت کر رہے ہیں جو ایک دن آپ کو بھی مار ڈالیں گے۔'

پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کے ساتھ معاملہ کرنے کے اپنے تلخ تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے مسٹر میٹس نے لکھا کہ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے عسکری تعلقات صرف لین دین پر مبنی ہو سکتے ہیں جن میں مرکزی حیثیت موجودہ مخصوص مسئلے کو حاصل ہو اور دونوں فریقوں کی جانب سے اس پیشکش پر مبنی ہوں کہ وہ ایک دوسرے کی کیا مدد کر سکتے ہیں۔

'کچھ لو کچھ دو۔ پاکستان انتخاب کر سکتا تھا کہ وہ ہمارا دشمن نہ بنے لیکن اس نے امریکہ یا نیٹو کا قابل بھروسہ دوست یا اتحادی نہ بننے کا انتخاب کیا۔' اور اس کی وجہ ان کے گمراہ نظریات، غلطیوں سے بھرپور اور شدت پسندی پر مبنی نظریہ حیات ہے۔

'نتیجے کے طور پر ہمارے مشترکہ مفاد میں یہی تھا کہ ہم تعاون کی معمولی توقعات کے ساتھ پاکستان کے ساتھ محتاط اور سوچے سمجھے تعلقات استوار کریں، چھوٹی چھوٹی قسطوں میں ادائیگی کریں اور بدلے میں ان سے وہ کرواتے جائیں جو ہم کروانا چاہتے ہیں۔ ہم پاکستان کے ساتھ اپنے مسائل حل کر سکتے تھے لیکن انہیں حل کرنے کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں تھیں؛ ہمارے بیچ تقسیم بہت گہری تھی، اختلافات بہت زیادہ اور اعتماد نہایت کم تھا۔ اور آج بھی ہمارے پاکستان کے ساتھ تعلقات اسی جگہ کھڑے ہیں۔'