صحافیوں اور ادیبوں کو سیاسی جماعتوں کا بھونپو نہیں بننا چاہئیے

صحافیوں اور ادیبوں کو سیاسی جماعتوں کا بھونپو نہیں بننا چاہئیے
کسی بھی ملک میں جمہوریت ہو تو وہاں سیاسی جماعتیں بھی ہوتی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کا اپنا نظریہ ہوتا ہے جس کے باعث اس جماعت میں شمولیت اختیار کرنے والے اپنی جماعت کو پروموٹ کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے اس سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ چونکہ سماج ہر مکتبہ فکر کے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ تمام لوگ سیاسی رائے بھی رکھتے ہیں جن میں ادیب، دانشور اور صحافی بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہر ادیب اور صحافی کی اپنی ایک سیاسی رائے ہوتی ہے مگر کبھی بھی اس کو سیاسی جماعتوں کا بھونپو نہیں بننا چاہئیے۔ اس سے اس کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔ آپ کو جو بھی سیاسی جماعت پسند ہے آپ اس کی تعریف بھی کریں مگر اس پر تنقید بھی کریں۔

انجمن ترقی پسند تحریک برصغیر پاک و ہند کی ایک بہت بڑی ادبی تحریک تھی جس کی تشکیل لندن کے ایک کافی ہاؤس میں سجاد ظہیر اور ان کے ساتھیوں نے کی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ انجمن ترقی پسند مصنفین میں اس وقت کے نامور ادیبوں نے شمولیت اختیار کی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب انجمن ترقی پسند مصنفین برصغیر کے ادبی منظر نامے پر پوری طرح چھا گئی۔ چونکہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھنے والے ادیب بائیں بازو کی سوچ رکھتے تھے، اکثر ادیب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رکن تھے، اس لیے پارٹی پالیسی کو ادیبوں پر بھی لاگو کرنے کی کوشش کی جو میرے مطابق ٹھیک نہیں تھا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ سعادت حسن منٹو، قراۃ العین حیدر جیسے بڑے فکشن لکھنے والے انجمن ترقی پسند مصنفین سے دور ہو گئے۔

تقسیم کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین ریاستی جبر کا شکار ہو گئی اور ادبی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انجمن ترقی پسند مصنفین دوبارہ ابھری۔ لاہور میں حمید اختر، رشید مصباح، ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر عالم خان گوجرانوالہ والے سے محمود اختر قاضی، خالد فتح محمد، کراچی سے ڈاکٹر محمد علی صدیقی، مسلم شمیم، ڈاکٹر جفعر، پشاور سے سلیم راز اور بلوچستان سے ڈاکٹر شاہ محمد مری بھی متحرک ہو گئے۔

چند سال قبل کراچی میں انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کا ایک اجتماع ہوا جہاں راقم نے بطور سیکرٹری جنرل لاہور انجمن ترقی پسند مصنفین شرکت کی تھی۔ وہاں جو ایک بات بہت واضح طور پر دیکھی کہ اندرون سندھ سے جو احباب شریک تھے وہ ادیب کم اور بائیں بازو کی جماعتوں کے نمائندے زیادہ لگ رہے تھے۔ کراچی کے احباب ادیب تھے۔ جیسا کہ سطور بالا میں لکھا ہے کہ بائیں بازو کی جماعتوں کی سیاست نے ماضی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کو بہت نقصان پہنچایا ہے، بد قسمتی سے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

اس وقت لاہور میں انجمن ترقی پسند مصنفین بالکل شخصیت پرستی کے بوجھ تلے دب کر اپنی ساکھ کھو چکی ہے اور دو گروپوں میں تقسیم ہے جہاں بائیں بازو کی جماعتوں کے اثرات ہیں۔ ایک گروپ جس میں میں بھی شامل تھا وہ واضح طور پہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ ہے۔ وہاں کسی دوسری سیاسی جماعت کے حق میں بات کرنے والوں کو غدار سمجھا جاتا ہے۔ یہ رویہ کسی بھی طرح ادیبوں کا نہیں ہوتا۔ ادیب تو راستہ دکھانے والے ہوتے ہیں۔ ادیبوں کو سیاسی جماعتوں کا آلہ کار یا بھونپو نہیں بننا چاہئیے۔ وہ ان کی حمایت بھی کریں اور ان کے ساتھ اختلاف بھی کریں۔ اپنی سوچ الگ اور آزاد رکھیں۔

جب معروف افسانہ نگار انتظار حسین کے انتقال پر راقم نے انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور میں ان کا تعزیتی اجلاس رکھنا چاہا تو کہا گیا کہ انتظار صاحب بائیں بازو کے ادیب نہیں تھے۔ یہ ایک نامناسب بات تھی مگر اس وقت ڈاکٹر سعادت سعید نے میرا ساتھ دیا تھا۔ ادیب تو ادیب ہوتا ہے، وہ بائیں یا دائیں بازو کا نہیں ہوتا۔ جیسے رشید مصباح کی وفات پر حلقہ ارباب ذوق لاہور نے تعزیتی اجلاس رکھا یہی وجہ تھی کہ حلقہ ارباب ذوق لاہور انجمن ترقی پسند مصنفین کی نسبت زیادہ جمہوریت پسند ادبی تنظیم ہے۔ اسی وجہ سے حلقہ ارباب ذوق میں ہر سال ادیبوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اور انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور میں ہر سال ادبیوں کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔