گلگت بلتستان؛ منفی 18 ڈگری میں خیموں میں پڑے سیلاب متاثرین حکومتی امداد کے منتظر

گلگت بلتستان؛ منفی 18 ڈگری میں خیموں میں پڑے سیلاب متاثرین حکومتی امداد کے منتظر
گلگت بلتستان کے ضلع گنگنچھے کے گاؤں کونیس کے سیلاب متاثرین نے ہمیں بتایا کہ جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد گھروں میں واپس پہنچے ہی تھے کہ اچانک خوفناک آواز سنائی دی۔ لوگ گھروں سے باہر نکلے۔ اسی اثناء میں سیلاب کا پانی گاؤں میں داخل ہوا اور منٹوں میں گھروں اور کھڑی فصلوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ پھلدار اور غیر پھلدار درختوں کو بھی بے رحم سیلابی ریلے نے جڑوں سے اکھاڑ پھینکا اور انہیں بھی اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سیلابی پانی کا منہ موڑنے کی کوشش کی لیکن رائیگاں گئی۔ متاثرین نے مزید بتایا کہ سیلاب آئے چھ ماہ گزر گئے لیکن وہ ابھی بھی شدید سردی میں خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حکومت اور کئی این جی اوز نے امداد کی یقین دہانی کرائی اور جلد بحال کرنے کا وعدہ کیا لیکن ابھی تک وعدہ وفا نہیں ہوا۔

متاثرین کا کہنا تھا کہ ہمارا معاش انہی کھیتوں اور درختوں پر منحصر تھا لیکن اب ہمیں اپنی گزر اوقات کے لئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کونیس گاؤں میں خلاف توقع سیلاب آیا۔ اس سے پہلے اس علاقے میں کبھی سیلاب نہیں آیا تھا۔ سیلاب سے 32 مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے اور 50 سے زائد گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ سیلاب کے بعد ہم خیموں میں رہتے ہیں اور حکومت کی طرف سے تاحال کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ فصلوں اور زمینوں کا ہمیں کوئی بھی معاوضہ نہیں ملا۔ ڈپٹی کمشنر آفس کے عملے نے نقصانات کا تخمینہ تو لگایا ہے لیکن ابھی تک بحالی کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

سیلاب متاثرین نے مزید کہا کہ کھانے پینے کے لئے ایک دفعہ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے راشن ملا، اس کے بعد سے اب تک کہیں سے کچھ نہیں ملا ہے۔ کھانے پینے کے لئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں اور کچھ دکان داروں سے ادھار پر اشیائے خورونوش لیتے ہیں لیکن کب تک لیتے رہیں گے؟ بچوں کی پڑھائی متاثر ہو رہی ہے کیونکہ خیمہ آبادی سے سکول کافی دور ہے، بچوں کو آنے جانے میں پریشانی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عورتوں کو بھی کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ نہ یہاں واش روم کا نظام ہے اور نہ ہی سردی سے بچنے کے ذرائع ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دور دور جا کر لکڑیاں لا کر سردی سے بچنے کے انتظامات کرنے پڑتے ہیں۔ ان کے پاس نہ رضائیاں ہیں اور نہ ہی گرم کپڑے، حکومت نے ہمیں بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر آفس کے مطابق انتظامیہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے کوششوں میں مصروف ہے۔ ڈپٹی کمشنر آفس کے عملے نے نقصانات کا تخمینہ لگا کر حکام بالا کو ارسال کر دیا ہے اور بحالی کا آغاز پہلے ہی ہو چکا ہے۔ متاثرین جو خیموں میں آباد ہیں ان کی امداد جاری ہے۔ کھانے پینے کے لئے این جی اوز کی مدد سے راشن مہیا کرتے ہیں۔ جن کے مکانات تباہ ہوئے ہیں ان کے نقصان کا بھی تخمینہ لگایا ہے۔ مکانوں کی دوبارہ تعمیر میں ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی۔

دوسری جانب ضلع کھرمنگ کے علاقے پاری کے مکین محمد علی نے ہمیں بتایا کہ آدھی رات کا وقت تھا جب خوفناک آوازوں سے علاقہ گونج اٹھا۔ خوف سے لوگ گھروں سے باہر نکل آئے۔ مساجد اور امام بارگاہوں سے اعلانات ہوئے کہ سیلاب کا خدشہ ہے۔ ندی کے قریب آباد لوگ گھروں سے نکل کر محفوظ مقامات کی طرف چلے جائیں۔ اسی دوران خلاف توقع ندی کا بہاؤ بڑھنے لگا۔ پانی کے ساتھ بڑے بڑے پتھر بھی آنے لگے۔ پانی کی سطح مزید بلند ہوئی اور پانی گاؤں کی طرف بڑھنے لگا۔ ندی کے کنارے پر موجود زیر تعمیر مڈل سکول کی عمارت میں بھی سیلاب کا پانی داخل ہوا۔ کھڑی فصلوں اور سیب کے درختوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سیلاب کی شدت اتنی تھی کہ ندی سے دریا میں داخل ہوا اور دریا کے دوسری پار کارگل روڈ کو مکمل طور پر تباہ کیا اور تقریباً 10 منٹ تک دریائے سندھ کے بہاؤ کو روکے رکھا۔

سیلاب سے گھروں کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا، 5 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ سیلاب کا پانی سینکڑوں کنال زرعی زمینوں میں داخل ہو گیا۔ سیب اور خوبانی کے سینکڑوں درختوں کو بہا کر لے گیا۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ اس ندی میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا سیلاب ہے، ہم نے اپنی زندگی میں اس طرح کا سیلاب نہیں دیکھا تھا۔

ڈپٹی کمشنر کھرمنگ محمد جعفر نے ہمیں بتایا کہ اس سال بہت سارے ایسے ندی نالوں میں بھی سیلاب آیا جہاں پہلے کبھی سیلاب آیا ہی نہیں تھا۔ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلگت بلتستان کے بلندوبالا علاقوں میں موجود گلیشیئرز کے پگھلاؤ کا عمل تیز ہوا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے گلیشیئر کے اندر چھوٹی چھوٹی جھیلیں بن جاتی ہیں اور بعدازاں یہ جھیلیں ٹوٹنے سے سیلابی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ خلاف توقع سیلاب آنے سے کھرمنگ کے صرف تین گاؤں میں مجوعی طور پر کل 451 گھرانے متاثر ہوئے۔ 126 کنال رقبے پر زیر کاشت اور کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔ ساتھ ہی 715 پھلدار اور 1031 غیر پھلدار درخت مکمل طور پر ختم ہو گئے۔ پاری میں 2 آر سی سی پل منہدم ہوئے اور 2 فٹ بریج بھی تباہ ہوا۔ پاری میموش اور طولتی کا واٹر چینل بھی تباہ ہوا تھا۔ سیلاب نے مین کارگل روڈ کو بھی متاثر کیا۔ سرحدی گاؤں میموش، کسورو اور گومہ پاری کے لنک روڈ بھی متاثر ہوئے جبکہ سیلاب کی وجہ سے بجلی کے کھمبے بھی بہہ گئے جس سے برقی نظام بھی درہم برہم ہوا تھا۔

گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں کئی مقامات پر سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ جولائی اور اگست میں آنے والے سیلاب نے وہاں بھی معمولات زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ غذر میں ضلعی انتظامیہ کے اعدادوشمار کے مطابق شیر قلعہ میں سیلاب کی زد میں آ کر 7 افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ 28 مکانات بھی تباہ ہوئے۔ ببر گاؤں میں 26 اگست کو سیلاب کا پانی داخل ہوا جس سے 32 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے جبکہ 30 مکانات کو جزوی نقصان پہنچا۔ ببر گاؤں میں سیلاب سے 10 افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ 3 افراد زخمی ہو گئے تھے۔ اشکومن اور امت میں سیلاب نے 60 مکانوں کو کلی نقصان پہنچایا۔ درمندھر گاؤں اور ڈاہیمال گوپس میں 20 مکانات تباہ ہو گئے جبکہ یاسین تحصیل میں سیلاب سے 40 مکان متاثر ہوئے۔

غذر کے سیلاب متاثرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی طرف سے خیموں کے علاوہ کوئی مدد نہیں ملی اور چھ سات ماہ گزرنے کے بعد بھی بحالی کا کام شروع نہیں ہوا جس سے ہم اس شدید سردی میں بھی خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وزیر اعظم نے دورہ کر کے اعلانات کئے اور ہمیں کافی اچھا لگا تھا لیکن پانچ ماہ گزر گئے ان کے اعلانات کے ایک فیصد حصے پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔

وزیر اعظم پاکستان کی سپیشل سیکرٹری سارہ سعید کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے 2 ستمبر کو ضلع غذر گلگت بلتستان کے سیلاب سے متاثرہ گاؤں ببر کا دورہ کیا اور متاثرین سے مسائل دریافت کیے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لئے 3 ارب روپے کی بحالی گرانٹ کا اعلان کیا۔ سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں میں فی کس 10 لاکھ روپے اضافی معاوضے کا اعلان کیا۔ وزیر اعظم نے سیلاب سے متاثرہ ببر گاؤں کے لئے 100 ملین کی گرانٹ کا بھی اعلان کیا۔ ببر گاؤں میں 5 کلومیٹر سڑک کی تعمیر کا بھی وعدہ کیا۔ وزیر اعظم نے خصوصی طور پر معذور لڑکی کے لئے 5 ملین کی گرانٹ کا اعلان کیا جس نے اپنے 6 بہن بھائیوں اور اپنی ماں اور دادی کو کھو دیا تھا۔

دوسری جانب غذر سے تعلق رکھنے والے صحافی یعقوب طائی نے ہمیں بتایا کہ وزیر اعظم کے اعلانات محض ہوائی نکلے۔ ابھی تک ان کے اعلانات میں سے ایک پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ پانچ ماہ گزر گئے لیکن ابھی تک ان کے نقصانات کے معاوضے نہیں ملے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ غذر کے سیلاب متاثرین کو بھی بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے ہلاکتوں میں فی کس دس لاکھ روپے کا اعلان ہوا لیکن ابھی تک کسی ایک کو بھی یہ امداد نہیں ملی ہے۔ لوگ آج بھی امداد کے منتظر ہیں۔ شدید سردی میں بھی خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں لیکن نہ ہی صوبائی حکومت ان کی بحالی کے لئے سنجیدہ دکھائی رہے رہی ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت۔ متاثرین کی بحالی کے لئے کسی کو تو آگے آنا ہو گا۔ وزیر اعلیٰ نے بھی جلد بحالی کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ بھی پورا نہیں ہوا۔ وفاق اور صوبے میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کی جنگ کا خمیازہ گلگت بلتستان کے عوام خاص طور پر سیلاب سے متاثر ہونے والے عام لوگوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

سرور حسین سکندر کا تعلق سکردو کے علاقے مہدی آباد سے ہے۔ وہ بین الاقوامی تعلقات میں ایم ایس سی کر چکے ہیں اور گزشتہ آٹھ سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ سرور مختلف سماجی مسائل سے متعلق تحقیقاتی رپورٹس تحریر کرتے رہتے ہیں۔