جرائم، حادثات کی کوریج جیسے شعبے صحافیوں کی جان خطرے میں ڈالتے ہیں

جرائم، حادثات کی کوریج جیسے شعبے صحافیوں کی جان خطرے میں ڈالتے ہیں
لاہور میں 20 دسمبر2022 کو نیو نیوز کے کرائم شو کی میزبان تہمینہ شیخ کو اپنی ٹیم کے ساتھ ایک سٹنگ آپریشن کے دوران اس ادارے کے لوگوں نے حبس بے جا میں رکھا۔ ان کی گاڑی کے شیشے توڑ دیے گئے اور ان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ تہمینہ ایک خبر کی تفتیش کیلئے اپنی ٹیم کے ساتھ فاروق آباد میں واقعہ ایک عقوبت خانے میں حقائق کو جانچنے کیلئے گئی تھیں۔ دوران تفتیش جب انکشاف ہوا کہ منشیات کے عادی لوگوں کی بحالی کے نام پر بنائے گئے اس ادارے میں کئی لوگ اغوا کر کے لائے گئے۔ کچھ لوگوں کو ان کے اپنے رشتہ داروں نے جبراً اغوا کروا کے رکھا ہوا تھا۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں کسی کو بھی 20 ہزار کے عوض قید میں رکھا جا سکتا تھا۔

جب مکینوں کے حالات و واقعات سننے کے بعد مدد کیلئے پولیس کو فون کالز کی گئیں اور وہ نہ پہنچ پائے تو ادارے کے لوگوں نے تہمینہ کو حبس بے جا میں قید کر لیا اور کئی گھنٹوں تک قید میں رکھا۔ اسی دوران اپنی مدد آپ کے تحت ان کی ٹیم نے انہیں چھڑوایا اور اس کے بعد ادارے کے لوگوں نے ٹیم کی گاڑیوں پر وار کر کے شیشے توڑ دیے۔ صوبائی ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ اور واٹس ایپ میڈیا لیڈنگ لیڈیز گروپ کی سربراہ آمنہ عثمان نے اس واقعہ کی بھرپور مذمت کی۔ صحافی و اینکرپرسن آمنہ عثمان نے حکومت سے رپورٹرز اور اینکرپرسنز کی حفاظت کی استدعا کی۔

ایکسپریس نیوز میڈیا گروپ کے بیورو چیف محمد الیاس کا کہنا ہے کہ سب سے خطرناک بیٹ 'کرائم' کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیجیٹل دور میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سے مسلسل معلومات کی بمباری ہوتی رہتی ہے، ایسے میں اگر کسی بھی بیٹ میں جب ذمہ داری سے رپورٹنگ نہ کی جائے تو وہ رپورٹر کی ساکھ کے ساتھ ساتھ اس کی جان کیلئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ مزید براں ایک رپورٹر جب میدان عمل میں دھماکے، انتشار، جلوس یا سیلاب کو رپورٹ کرنے جاتا ہے تو انہیں کسی قسم کی حفاظتی کٹ فراہم نہیں کی جاتی۔ آج کل کی سیاسی صورت حال کی وجہ سے اگر کوئی رپورٹر کسی رپورٹ کو افشا کرتا یا کوئی انکشاف کرتا ہے اور اگر وہ ان کے لیڈر کے خلاف ہے تو سیاسی پارٹی کے ورکرز اس رپورٹر کی آن لائن ٹرولنگ، ہراسانی، دھمکیاں، گالیاں اور کردار کشی یا ساکھ پر تہمت لگا کر زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ آج کل کے سیاسی پارٹی ورکرز میں سیاسی دانش مندی کا شدید فقدان ہے اور اگر رپورٹر اسی لیڈر کے جلسہ کی خبر رسانی کرنے چلا جائے تو سیاسی ورکر ہی رپورٹر کو مارنا اور زدوکوب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

اگر رپورٹر دھماکے کی کوریج کرنے جا رہا ہے تو اسے بلٹ پروف جیکٹ دی جانی چاہئیے کیونکہ اسی جگہ دوسرا دھماکہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے ہی اگر سیلاب یا زلزلہ یا آفت زدہ علاقوں میں خبررسانی کیلئے جا رہا/رہی ہے تو اسے حفاظتی کٹ فراہم کی جانی چاہئیے۔ صحافیوں کے لئے سندھ یونین آف جرنلسٹس جیسا حفاظتی میکنزم ہونا چاہئیے۔

شریک بانی اور ایڈیٹر وائس پی کے ڈاٹ نیٹ زری جلیل بھی کرائم بیٹ کر چکی ہیں۔ انہیں کرائم بیٹ کرتے ہوئے ناصرف میدان عمل میں بلکہ رپورٹنگ روم میں بھی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے ساتھی رپورٹرز کا خیال تھا کہ وہ 'غیر حقیقی' یا 'معیوب' کام کر رہی ہیں۔ چونکہ کرائم بیٹ میں مرد رپورٹر پہلے سے ہی کام کر رہے ہوتے تھے تو وہ بیٹ خبر کو خواتین کے ساتھ شیئر نہیں کرنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے وہ میدان عمل اور آفس دونوں جگہوں پر خواتین کیلئے کام کو مزید مشکل اور ناممکن کی حد تک لے جاتے تھے۔ وہ بتاتی ہیں؛ 'لیکن نا میں ڈری اور نا ہی امید چھوڑی، بلکہ اپنی محنت سے ساتھی کرائم رپورٹرز کو منفرد اور مشکل کام کر کے دکھایا کہ ان کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ مگر وہ پھر بھی اپنی سازشوں سے باز نہ آئے اور میری پیٹھ پیچھے چھپ کر وار کرنے لگے۔ میدان عمل میں مرد رپورٹرز پولیس اور سورسز کو گمراہ کرنے لگے اور ان پر دباؤ ڈالتے تھے کہ مس زری کا فون نہ اٹھایا جائے، نا ہی کوئی معلومات شیئر کی جائے وغیرہ۔'

زری نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ خاتون رپورٹر کی کوئی بیٹ فکس نہیں رکھی جاتی۔ خواتین کو میدان عمل یا بیٹس کے علاوہ اپنی صحافتی کمیونٹی میں سب سے زیادہ ہراسانی اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کام کرنے کی جگہ پر ہراسانی، پریس کلب ہراسانی، یہ اپنی جگہ بڑا مسئلہ ہے۔ پھر لیڈی رپورٹر کی اصطلاح پاکستان کے علاوہ باقی دنیا سے ختم ہو چکی ہے کیونکہ رپورٹر یا صحافی صرف صحافی ہوتا ہے۔ 'جب خاتون کی کمیونٹی کے اندر قبولیت ہو گی تبھی کمیونٹی کے باہر قبولیت ملے گی۔ اگر آفس یا انڈسٹری میں ہی آپ کو بطور رپورٹر عزت دی جائے گی تو ہی باہر والے بھی عزت دیں گے۔ آج کے دور میں بھی ہمارے انگریزی اخباروں کے نیوز روم میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو کام ہی مردوں کا ہے تو یہ عورت یہاں کیوں آ گئی ہے؟'

بیٹ بذات خود خطرناک نہیں ہوتی۔ بعض جگہ بطور خاتون یا صحافی آپ کو محتاط رہنا ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی سڑک پر انٹرویو لے رہے ہو تو مسئلہ ہو سکتا ہے۔ شہری مجمع تھوڑا محفوظ ہوتا ہے لیکن اگر کسی پسماندہ یا دیہاتی علاقے میں جا رہے ہیں جہاں تحفظ نہیں ہے تو کوئی ساتھی یا کیمرہ عملہ یا ٹیم ساتھ نہیں تو شہر کی نسبت ایسی جگہ پر کوئی بھی صحافی خطرے کا شکار ہو سکتا ہے۔ گو کہ بڑے شہروں میں بھی ایسے علاقے ہیں جو ہراسانی کے لحاظ سے حساس ہو سکتے ہیں کیونکہ جیسے ہی کوئی مائیک لے کر کھڑا ہوتا ہے تو ایک دم لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات چاروں اطراف سے بدتمیز یا شرپسند لوگ خاتون کو دیکھ کر ہاتھ لگانے، زدوکوب کرنے یا گھورنے جیسی حرکات کر سکتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بدتمیزی جان بوجھ کر عورت یا صحافی کو غیر محفوظ محسوس کرانے کیلئے کی جاتی ہے تاکہ وہ متعلقہ موضوع پر بات نہ کر سکے اور معلومات عوام تک نہ پہنچا سکے۔ 'ذاتی طور پر میں جنس کی بنیاد پر کوئی فرق نہیں سمجھتی لیکن دہشت گردی کی بیٹ میں متنازعہ علاقے میں خواتین مردوں کی نسبت دوگنا خطرے کا سامنا کرتی ہیں مثلاً فاٹا جیسے علاقوں میں جہاں عورتیں پہلے ہی گھروں سے باہر نظر نہیں آتیں تو ایسے علاقوں میں خطرہ ہو سکتا ہے۔'

کرائم بیٹ کے علاوہ ایک عید کیلئے مقامی چینل لاہور رنگ کی رپورٹر مائرہ ہاشمی کی مجمعے میں کھڑے نوجوان کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو بہت زیادہ وائرل ہوئی جس کے حوالے سے انہوں نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ عید کے موقع پر نوجوان گھر سے باہر فیملی کے ساتھ آئی ہوئی لڑکیوں کو تنگ کرنے آتے ہیں اور اس مجمعے میں بھی وہ ایسی ہی حرکات کر رہے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے ہجوم میں کھڑے بدتمیز کو تھپڑ جڑ دیا۔ اکثر خواتین رپورٹرز کو اکیلے یا فوٹوگرافر یا کیمرہ پرسن کے ساتھ دیکھ کر بے آرام کرانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے شرپسند لوگوں کو لگتا ہے کہ تنگ ہونے والے کو ہجوم کی وجہ سے اندازہ نہیں ہوگا کہ یہ حرکت کس کی ہے۔ 'میں نے ایسے بدتمیز لوگوں کو سبق سکھانے کیلئے اس کو تھپڑ رسید کیا تھا کہ لڑکیوں کو بھی اسی آزادی سے دنیا دیکھنے دیں جیسے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔'

کرائم بیٹ کرنے والی جیو نیوز کی رپورٹر دعا مرزا کئی پلیٹ فارمز پر اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے بارے میں آگاہ کر چکی ہیں۔ ایک بار انہوں نے نئے سال کی آمد کی پارٹی میں کچھ لوگوں کے غلط کاموں اور قانونی حدود کی تجاوز کو ریکارڈ کر لیا تو انہیں اس فون ریکارڈنگ کی وجہ سے ہراساں کیا گیا۔ ان کی وجہ سے ان کی فیملی کو بھی کوفت اٹھانا پڑی لیکن پولیس کے آنے پر معاملہ سلجھا لیا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ کرائم بیٹ کرنے کی وجہ سے کئی بار کئی مشکلات کا سامنا بہادری سے کر چکی ہیں۔ اکثر جلسوں میں خبر رسانی کے دوران بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ ایسا ہی واقعہ 25 مئی 2022 کو دعا کے ساتھ بھی ہوا جب انہوں نے لاہور سے لانگ مارچ کیلئے جانے والے تحریک انصاف کے ایک سیاسی رہنما زبیر نیازی کا انٹرویو کیا۔ اس وقت پولیس زبیر نیازی کو گرفتار کر کے لے جا رہی تھی۔ اسی دوران سیاسی ورکرز نے وہاں ہلہ بول دیا لیکن دعا ذاتی حفاظتی تربیت کی وجہ سے خود کو ہجوم سے بچانے میں کامیاب ہو گئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشرے میں بڑھتی عدم برداشت اور دیگر مسائل کی وجہ سے آج کل ہر بیٹ ہی مشکل ہو چکی ہے۔ 'لیکن کرائم بیٹ زیادہ خطرناک ہے مگر یہ آپ کو سکھاتی بھی بہت ہے۔'

دی نیوز آن سنڈے کی سابق رپورٹر عمائمہ احمد کہتی ہیں کہ وہ جنگ کی بیٹ کرنا چاہتی تھی لیکن ان کے ادارے نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی۔ لیکن اجازت نہ دینے کی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ زیادہ تر ہمارے ہاں خواتین پر سافٹ بیٹس کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ کرائم، جنگی یا متنازعہ علاقوں کی خبر رسانی میں بین الاقوامی میڈیا میں خواتین کو بھی مواقع دیے جاتے ہیں لیکن یہاں حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ایسے علاقوں یا بیٹس میں مرد صحافی بھی اتنے ہی کمزور یا آسان ہدف ہوتے ہیں جتنی خاتون ہو سکتی ہے۔

پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے نائب صدر عامر سہیل کے مطابق کرائم اور عسکری بیٹس مشکل اور خطرناک ترین ہیں۔ ان کے علاوہ ہر میدان عمل میں مہارت، سیکھ، معلومات کے ساتھ جدید صلاحیت کی تعمیر لازم و ملزوم ہوتی ہے۔ اگر ان میں کمی ہو گی تو وہ اس انسان کیلئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ یونینز اور کلبز کے علاوہ اداروں کو بھی رپورٹرز کی انتشار والے علاقوں، جنگی زون اور حساس موضوعات پر تربیتی ورکشاپس کے ذریعے تکنیکی صلاحیتوں کو بڑھانے میں مدد کرنی چاہئیے۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے)  نے 9 دسمبر 2022 کو انسانی حقوق کے عالمی دن سے قبل صحافیوں کی سلامتی کے حالات پر تازہ ترین اعدادوشمار جاری کیے جن میں بتایا گیا کہ گزشتہ برس یعنی 2021 میں 47 کے مقابلے میں 2022 میں ڈیوٹی کے دوران صحافیوں اور میڈیا کے عملے کی 68 ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں۔ حادثات اور بیماری سے منسلک 11 اموات بھی ہوئیں جن میں وہ تین صحافی اور میڈیا کارکن بھی شامل ہیں جو قطر میں ورلڈ کپ 2022 کی رپورٹنگ کے دوران انتقال کر گئے۔ 16 ایشین میں 5 پاکستانی صحافی شامل ہیں؛ حسنین شاہ سینیئر کرائم رپورٹر، ضیاء الرحمان فاروقی نمائندہ 7 نیوز، افتخار احمد رپورٹر روزنامہ ایکسپریس، محمد یونس جرنلسٹ ایکسپریس، صدف نعیم (خاتون) صحافی چینل 5۔ (اس فہرست میں ارشد شریف کا نام شامل نہیں تھا حالانکہ وہ 24 اکتوبر 2022 کو کینیا میں قتل کئے گئے تھے)۔

اس سے قبل 2020 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان صحافیوں کیلئے اپنے پیشے پر عمل کرنے کیلئے پانچواں خطرناک ملک تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سال 1990 سے 2020 تک ملک میں 138 صحافی ڈیوٹی کے دوران ہلاک ہوئے۔

ربیعہ ارشد گزشتہ 11 سالوں سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ وہ صحافت کی تدریس سے بھی منسلک رہی ہیں اور پچھلے ایک سال سے ڈاکیومنٹری اور ویڈیو میکنگ کی تربیت بھی دیتی ہیں۔