• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
منگل, مارچ 21, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

کم سن بچوں کے اغوا کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے

غیر سرکاری تنظیم 'مددگار نیشنل ہیلپ لائن' کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کراچی میں 1271 بچے لاپتہ ہوئے ہیں۔ تنظیم کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس بچوں کی گمشدگی کے واقعات میں 24 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

فیصل رحمان by فیصل رحمان
فروری 8, 2023
in میگزین
8 0
0
کم سن بچوں کے اغوا کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے
45
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

دنیا بھر میں کم سن بچوں کا اغوا ایک سنگین مسئلہ ہے اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے ممالک بھی اس کی زد میں ہیں۔ کراچی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں آج بھی پیدائش کے پہلے دن سے لے کر سات سال کی عمر کو پہنچنے تک کے بچوں کو اغوا کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بچے کراچی کے مختلف علاقوں، ہسپتالوں اور گلی محلوں سے اغوا ہوتے ہیں اور اغوا کاروں کے لیے یہ مقامات انتہائی آسان ذریعہ ہوتے ہیں۔

اغوا ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے اکثریتی کیسز میں بچوں کو بازیاب کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تاہم کچھ کیسز میں اغوا ہو چکے بچے کبھی اپنے والدین سے نہیں مل پاتے۔

RelatedPosts

شیخ رشید کے خلاف کراچی اور حب میں درج مقدمات پر کارروائی سے روک دیا گیا

آصف زرداری پر سنگین الزامات: شیخ رشید کا مزیدجسمانی ریمانڈ مسترد، جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا

Load More

استفسار کرنے پر کراچی پولیس آفس نے ہمیں بتایا کہ ایسے کیسز میں بچے کی بازیابی انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے جبکہ مزید کیسز سے متعلق بات کرنے سے گریز کیا اور بتایا کہ ریکارڈ پر موجود کیسز اس وقت عدالت میں سماعت کے لیے مقرر ہیں اس لیے ان سے متعلق زیادہ بات نہیں کی جا سکتی۔

10 میں سے 4 بچے کیوں نہیں ملتے؟

انسانی سمگلنگ اور اغوا کے شکار ہونے والوں میں ہر 10 بچوں میں سے 4 ایسے ہوتے ہیں جو اپنے والدین کو واپس نہیں ملتے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے راقم نے ‘سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (SPARC)’ کی آسیہ عارف سے بات کی جو گزشتہ دس سالوں سے اس موضوع پر تحقیق کر رہی ہیں اور ایسے متاثرہ بچوں کو اپنے والدین تک پہنچا رہی ہیں۔

آسیہ نے بتایا کہ 7 سال کی عمر تک کے اکثریتی بچوں کو اغوا کرنے کے مقاصد بے شمار ہیں لیکن ان میں سے کچھ بنیادی ہیں۔ جیسا کہ اغوا کار اس عمر کے بچوں کو اغوا کرنے کی کوشش اس لیے کرتے ہیں کیونکہ اس عمر کے بچے اپنی موجودہ شناخت بھولنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتے اور پھر باآسانی ان کو چائلڈ لیبر اور جنسی استحصال کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ جن گروہوں کے پاس یہ بچے ہوتے ہیں بچہ کچھ سال بعد یہی سمجھتا ہے کہ یہی اس کے گھر اور خاندان والے ہیں اور ان کی بات ماننے میں اغوا کار گروہوں کو آسانی ہوتی ہے۔

اسی طرح گزشتہ سال ہم نے ایک بچے کو بازیاب کروایا جس کا تعلق کراچی سے تھا اور بچہ اغوا کے بعد گزشتہ آٹھ ماہ سے رحیم یار خان میں رکھا گیا تھا۔ آسیہ نے بچے اور خاندان کی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 4 جنوری کو کراچی میں اس بچے کی پیدائش ہوئی اور ٹھیک 18 دن بعد سہ پہر کے 2 بجے بچہ اور اس کی والدہ دونوں سو رہے تھے کہ اس دوران گھر کے مرکزی دروازے سے کچھ لوگ داخل ہوئے اور بچے کو اٹھا کر لے گئے۔ جب بچے کی ماں کی آنکھ کھلی تو بچہ ماں کے سرہانے سے غائب تھا۔ بچے کے گھر والوں نے پولیس سٹیشن میں رپورٹ درج کروائی اور آٹھ ماہ ہم نے پولیس کی مدد سے بچے کی تلاش جاری رکھی۔ 11 ستمبر کو ہمارے رضاکار جو کہ رحیم یار خان میں موجود تھے، انہوں نے ایک خاتون کے پاس وہی بچہ دیکھا جس کی تصویر ہمارے رضاکار کے پاس تھی۔ رضاکار نے ہمیں موقع پر اطلاع دی، اس خاتون کا پیچھا کیا اور اس دوران ہمیں یقین ہوا کہ بچہ وہی ہے جس کو ہم تلاش کر رہے ہیں۔

پولیس کی مدد سے جب بچے کو بازیاب کروایا گیا تو اس خاتون کے ساتھ شامل اغوا کاروں نے بچے کی پیدائش کے سرٹیفکیٹ بھی بنوا لیے تھے جس سے ثابت ہو رہا تھا کہ بچہ اسی خاتون کا ہے تاہم پولیس اور ہماری تجاویز پر عدالت نے بچے کے ڈی این اے ٹیسٹ کی منظوری دی اور بچے کا ڈی این اے اس اغوا کار خاتون سے میچ نہیں ہوا جبکہ اپنے اصل والدین سے بچے کا ڈی این اے میچ کر گیا جس پر عدالت نے بچے کو اپنے اصل والدین کے حوالے کیا اور خاتون اور گروہ کے باقی افراد کو مزید قانونی کارروائی کے لیے پولیس کی تحویل میں دے دیا۔

20 برس پہلے اغوا ہونے والا صائم اب نوجوان ہو چکا ہے

آج سے تقریباً 20 سال پہلے صائم اغوا ہوا۔ صائم کی عمر اس وقت 20 سال سے زائد ہے جبکہ اسے یاد بھی نہیں کہ اسے کب اغوا کیا گیا تھا مگر صائم نے بتایا کہ مجھے جو خاتون اغوا کار گروہوں سے خرید کر لائی تھی ڈھائی سال قبل اس کی موت واقع ہو گئی ہے۔ مرنے سے کچھ دن پہلے اس نے مجھے بتایا تھا کہ میں تمہیں اغوا کاروں سے خرید کر لائی تھی جبکہ اس نے یہ بھی بتایا کہ میں نے تمہارے گھر والوں کو بہت ڈھونڈا مگر نہیں ملے۔ صائم کے مطابق اس نے یہ بھی بتایا کہ میں پولیس کے پاس جا نہیں سکی اور اس ڈر سے تمہیں بتایا بھی نہیں مگر صائم نے بتایا کہ اس طویل عرصے میں مجھے یہی یقین تھا کہ یہی میری اصل والدہ ہے۔

وہ دن میری زندگی کا بہت بھاری دن تھا مگر اب میں یہاں خوش ہوں اور نہ مجھے کوئی دلچسپی ہے کہ میں اپنے اصل گھر والوں کو ڈھونڈوں اور نہ ہی میں اب یہاں سے کہیں اور جانا چاہتا ہوں۔ صائم نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر راقم کو بتایا کہ جہاں تک میری یادداشت میں ہے وہاں تک تو میرے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں ہوا۔ کئی بار مختلف علاقوں میں ہمیں گھروں میں بھیج دیتے تھے اور وہاں میرے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی اور یہ سلسلہ کوئی پانچ سال تک چلتا رہا۔ جب میں 9 سال کا ہوا تو مجھے یاد ہے ان لوگوں نے مجھے اس عورت جو کے میرے لیے ماں سے بڑھ کر تھیں، کے حوالے کیا اور ان سے بھاری رقم بھی لی اور تب سے میں انہی کے ساتھ تھا۔

صائم نے افسردہ ہو کر بتایا کہ میرے جیسے بچوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا؟ میں نے بہت کچھ دیکھا ہے۔ اپنی اس 20 سالہ زندگی کا ایک چھوٹا سا واقعہ آپ کو سنایا مگر میرے ساتھ ہوا اس سے بھی زیادہ ہے مگر میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔

غیر سرکاری تنظیموں کے اعداد و شمار

کراچی میں بچوں کے حقوق اور لاپتہ ہونے کے حوالے سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ‘مددگار نیشنل ہیلپ لائن’ نے گزشتہ برس کے 7 ماہ کے دوران پیش آنے والے ایسے واقعات کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ تنظیم کے مطابق گزشتہ برس شہر میں 1271 بچے لاپتہ ہو چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس بچوں کی گمشدگی کے واقعات میں 24 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

تنظیم کے سربراہ اور بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم ضیاء اعوان نے بتایا کہ ‘بچوں کے اغوا، انسانی سمگلنگ اور جبری مزدوری جیسے مسائل پاکستان میں بہت زیادہ ہیں۔ یہ بہت ہی سنگین صورت حال ہے۔ 1254 بچے ہماری ہیلپ لائن پر رپورٹ ہوئے ہیں۔ مختلف قسم کے مافیا ہیں جہاں بچے جاتے ہیں۔ مگر ان بچوں کا پتا کرنے اور ان کو تلاش کرنے کا ایسا کوئی نظام یہاں موجود نہیں ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اٹھارھویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان چیزوں کو دیکھیں مگر اب تک ایسا کوئی نظام نہیں بنایا جا سکا’۔

مددگار نیشنل ہیلپ لائن کی تازہ رپورٹ کے مطابق سال 2022 کے ماہ جنوری میں 173 بچے، مارچ میں 203 اور ماہ جون میں 217 بچوں کی گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 52 بچے پیدائش کے چند گھنٹوں بعد اغوا ہوئے۔ اس غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ بچوں کی گمشدگی کے واقعات کا معاملہ کراچی میں کوئی نیا نہیں۔ یہ واقعات صرف صوبہ سندھ تک محدود نہیں بلکہ پورے پاکستان میں بچوں کی گمشدگی کے واقعات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

کراچی میں گمشدہ بچوں کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی ایک اور غیر سرکاری تنظیم ‘روشنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن’ کے مطابق جنوری 2017 سے لے کر رواں سال ستمبر تک ان کی ہیلپ لائن کو 200 بچوں کی گمشدگی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن میں سے 177 بچے بازیاب ہو گئے ہیں جبکہ 23 بچے ابھی تک لاپتہ ہیں جن کی بازیابی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست زیر سماعت ہے۔

تنظیم کے صدر محمد علی کا کہنا ہے کہ پولیس لاپتہ بچوں کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتی ہے۔ اس ملک میں اگر بچوں کا جنسی و جسمانی استحصال روکنا ہے، ان کی اسمگلنگ کی روک تھام کرنی ہے تو بچوں کی گمشدگی کا سدباب ہونا چاہئیے اور اس کی فوری طور پر تفتیش ہونی چاہئیے۔

واضح رہے کہ روشنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں بھی بچوں کی گمشدگی پر ایک آئینی درخواست زیر سماعت ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ صرف رواں سال 30 لاپتہ بچوں کی لاشیں مل چکی ہیں۔

روشنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ کراچی کے کم آمدنی والے علاقوں سے لاپتہ ہونے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لانڈھی اور کورنگی زیادہ ہائی الرٹ علاقے ہیں۔

تنظیم کے صدر محمد علی کا کہنا ہے کہ اگر نومولود بچے سے لے کر چار سال کا بچہ گمشدہ ہے تو وہ گروپ انہیں اٹھانے میں ملوث ہو رہے ہیں جو بچوں سے گداگری کراتے ہیں یا پھر بے اولاد جوڑوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ اگر 5 سے 10 سال کی عمر کا بچہ لاپتہ ہے تو اس کو گداگری میں ملوث گروپ لے جا سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے خاندانی مسائل ہوں یعنی والدین میں سے کوئی ایک سوتیلا ہو یا والدین میں علیحدگی ہو رہی ہو۔ بچے اس وجہ سے بھی غائب ہو جاتے ہیں جو بعد میں مل بھی جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ لاپتہ کی تشریح سیدھی سی ہے یعنی جو بھی 18 سال سے کم عمر ہے وہ بچہ ہے اور ان میں سے جو بھی گھنٹوں، دنوں یا مہینوں سے اپنے والدین سے رابطے میں نہیں، وہ لاپتہ ہے۔ اب اس کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے وہ کسی ندی نالے میں گر سکتا ہے، اس کو کوئی ورغلا کر لے جا سکتا ہے، بھکاری مافیا اغوا کر سکتا ہے، جنسی زیادتی کی نیت سے لے جایا جا سکتا ہے، تاوان کے لیے اغوا ہو سکتا ہے اور اس کی سمگلنگ کی جا سکتی ہے۔

حکومت سندھ کا مؤقف

سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے چیئرپرسن محمد ساجد جوکھیو نے ہمیں بتایا کہ غیر سرکاری تنظیموں کے اعدادوشمار کسی حد تک درست ہیں۔ صوبہ سندھ کے پاس کمزور تحقیقاتی ٹیم اور جدید آلات کا نہ ہونا ہے۔ ہم نے گزشتہ برس وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بتایا تھا کہ صوبے میں کمسن بچوں کے اغوا کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے جس پر صوبائی حکومت نے اس کے لیے اقدامات کیے جو یقیناً ناکافی تھے۔ تاہم پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت کارروائی کی وجہ سے کسی حد تک واقعات کنٹرول ہوئے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ساجد جوکھیو نے بتایا کہ ہمارے پاس باقاعدہ اس کے لیے منسٹری موجود ہے چونکہ قوانین پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے اور کم وسائل کے باعث وہ اپنی ذمے داری ٹھیک سے پوری نہیں کر پاتے۔ کمسن بچوں کے اغوا کے حوالے سے موجود قوانین پر سختی سے عمل درآمد کے ذریعے سے ہی ہم اس پر قابو پا سکتے ہیں۔

Tags: beggingChild kidnappingKarachiMisplaced childrensexual assault
Previous Post

ترکیہ اور شام میں تباہ کن زلزلے، ہلاکتوں کی تعداد 11 ہزار سے تجاوز کر گئی

Next Post

حمزہ شہباز اور مریم نواز PMLN کی ڈریم ٹیم، مزمل سہروردی

فیصل رحمان

فیصل رحمان

فیصل رحمان کراچی میں مقیم ہیں اور فری لانس جرنلسٹ ہیں۔ انہوں نے فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ابلاغیات عامہ کی تعلیم حاصل کی ہے اور 2013 سے شہری حقوق، انسانی حقوق اور کلائمیٹ چینج سے متعلق مختلف موضوعات پر قلم کشائی کر رہے ہیں۔

Related Posts

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں بھی کتابیں چھپ رہی ہیں اور پڑھی جا رہی ہیں

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں بھی کتابیں چھپ رہی ہیں اور پڑھی جا رہی ہیں

by نعمان خان مروت
مارچ 18, 2023
0

بہت سے مضامین ایسے ہیں کہ جن پر ہمیں کسی نہ کسی حد تک مطالعہ کرنا چاہئیے۔ گو کہ آج کل سوشل...

غربت کے خاتمے کے لئے موجودہ حکومت نے ‘غریب مکاؤ مہم’ شروع کر رکھی ہے

غربت کے خاتمے کے لئے موجودہ حکومت نے ‘غریب مکاؤ مہم’ شروع کر رکھی ہے

by احتشام اعجاز بھلی
مارچ 14, 2023
0

کچھ روز قبل میں ایک دوست کے سامنے پاکستان کے معاشی بحران اور سر پر ممکنہ دیوالیہ پن کی لٹکتی تلوار کے...

Load More
Next Post
حمزہ شہباز اور مریم نواز PMLN کی ڈریم ٹیم، مزمل سہروردی

حمزہ شہباز اور مریم نواز PMLN کی ڈریم ٹیم، مزمل سہروردی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 20, 2023
0

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
0

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
0

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In