غربت کے خاتمے کے لئے موجودہ حکومت نے 'غریب مکاؤ مہم' شروع کر رکھی ہے

غربت کے خاتمے کے لئے موجودہ حکومت نے 'غریب مکاؤ مہم' شروع کر رکھی ہے
کچھ روز قبل میں ایک دوست کے سامنے پاکستان کے معاشی بحران اور سر پر ممکنہ دیوالیہ پن کی لٹکتی تلوار کے بارے میں اپنے دل کا غبار نکال رہا تھا کہ اس دوست کے جواب نے مجھے خاموش ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ فکر نہ کرو پاکستان کو جو کرپٹ افراد دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں چاہے وہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس ملک کو ختم کبھی نہیں ہونے دیں گے، بس اسی طرح مختلف حیلوں سے غریب عوام کے نام پر اور ان پر بوجھ ڈال کر بین الاقوامی اداروں سے امداد لے کر تجوریاں بھرتے رہیں گے۔ یہ بات وہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان ہے تو وہ ہیں اور پاکستان کی وجہ سے ہی وہ حرام اکٹھا کر رہے ہیں۔

عمران خان کے دور میں بھی کوئی دودھ کی نہریں تو نہیں بہہ رہی تھیں مگر معیشت کا اتنا برا حال نہیں تھا جتنا کہ اب ہو چکا ہے۔ ویسے تو جو بھی جمہوری حکمران آیا ہے اس کا دور پہلے تمام ادوار سے برا رہا ہے اور وہ پچھلوں کو کوس کر مہنگائی میں اضافہ کر کے چلا گیا مگر موجودہ تجرباتی حکومت نے تو اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ پاکستان کے خزانے میں کمی بتائی جا رہی ہے جو کہ ہمیشہ سے ہی سنتے آ رہے ہیں۔ اس وجہ سے ہمیشہ کی طرح سعودی عرب اور چین کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد حکومت کا سارا دارومدار اب آئی ایم ایف پر ہے۔ ایک مرتبہ پھر حکومت نے لندن جا کر بیٹھے ہوئے اسحق ڈار کو میاں نواز شریف کے کہنے پر وزارت خزانہ کی کنجی سونپ دی ہے اور ڈار صاحب نے آتے ہی ڈالر کو ذخیرہ کرنے والے افراد کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس کے علاوہ مریم نواز صاحبہ نے بھی کچھ ایسا ہی کہا کہ اب ڈالر پر قابو پانے والا شخص آ رہا ہے مگر موجودہ حالات سب کے سامنے ہیں۔

اگرچہ ڈار صاحب نے اپنی پچھلی وزارت خزانہ میں بھی عوامی بھلائی کے لیے کوئی قابل ذکر کارنامے سرانجام نہیں دیے تھے مگر اب تو وہ خود بوکھلائے ہوئے لگ رہے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا ہے کہ ڈالر کی اڑان پر قابو پانے کے دعوؤں کے باوجود وہ ان کے آنے کے بعد فوری طور پر قابو آنے کے بجائے چھلانگ لگا کر پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا ہے۔

موجودہ کھچڑی حکومت کے غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے بیرونی ممالک کے سرمایہ دار پاکستان میں سرمایہ لگانے سے ہچکچا رہے ہیں۔ ملک میں موجود نوجوانوں بشمول پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت معاشی حالات سے تنگ آ کر ملک سے ہجرت کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے قرضہ نما امداد ملنے کی کئی ایک شرائط میں سے بنیادی یہ ہے کہ مختلف اشیا پر ٹیکس لگا کر یا ٹیکس بڑھا کر روپیہ اکٹھا کیا جائے۔ اس طرح ملک کی معاشی صورت حال بھی مستحکم ہو گی اور آئی ایم ایف کا قرضہ بھی واپس کرنے کے آثار پیدا ہو جائیں گے۔

حکومت اور کچھ کرے نہ کرے مگر اس شرط پر ایمانداری سے عمل کر کے ان تمام اشیا کی قیمتیں بڑھا دی ہیں جس سے براہ راست مڈل کلاس یا غریب طبقہ متاثر ہوتا ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ شاید حکومت اس پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ امیر اور طاقتور کو نہ چھیڑو اور غریب پر اتنا بوجھ ڈالو کہ وہ ختم ہی ہو جائے چنانچہ نہ غریب رہے گا اور نہ ہی غربت۔

ایک حقیقت پر مبنی تصویری خاکہ نظر سے گزرا، جس میں آئی ایم ایف کا نمائندہ سر پکڑ کر بیٹھا ہوا ہے کیونکہ اس نے پاکستان میں کسی تگڑی آسامی کے ہاں ایک رات کی قوالی میں لاکھوں روپیہ اڑتا دیکھا جبکہ دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو غربت سے تنگ آ کر مانگنے پر یا خودسوزی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ غرض غریب اور مجبور طبقہ صرف اللہ کے آسرے پر زندہ ہے ورنہ حکومت نے انہیں ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور چاروناچار مہنگائی کا بوجھ انہیں برداشت کرنا ہی پڑے گا۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔