خیبر پختونخوا میں بیش تر یونیورسٹیاں بغیر وائس چانسلرز کے چل رہی ہیں

خیبر پختونخوا میں بیش تر یونیورسٹیاں بغیر وائس چانسلرز کے چل رہی ہیں
وطن عزیز جہاں دیگر مسائل کا شکار ہے وہاں ایک بڑا مسئلہ یہاں ہائر ایجوکیشن کا ہے جس کے ساتھ روز اول سے ہی ناروا سلوک کیا جا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ یونیورسٹیوں میں سیاسی عمل دخل ہے۔ یہ ایک صوبے کا مسئلہ نہیں، سارے صوبوں کا مسئلہ ہے بلکہ اب تو گلگت بلتستان بھی اس میں شامل ہو گیا ہے۔ جتنی سیاست یونیورسٹیوں میں کی جاتی ہے اور جتنی سیاست کرائی جاتی ہے اس کی مثال شاید ہی دنیا کے کسی کونے میں ملے۔ کیونکہ یہاں مقصد ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ہمسری کرنا نہیں بلکہ اپنے سیاسی ووٹ بنک کو کامیاب کرانا ہے اور جہاں سیاسی بھرتیاں ہوں وہاں پر تعلیم نہیں دی جاتی۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں تو یونیورسٹیوں کا جال ہی اس لئے بنایا گیا کہ یہاں پر اپنے لوگ بھرتی کئے جائیں گے جس کی مثالیں عبدالولی خان یونیورسٹی سمیت دیگر یونیورسٹیوں کی جے آئی ٹی رپورٹس میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں جتنی بھی یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں اُن میں مجھے ایک یونیورسٹی بتا دی جائے جس میں سیاسی بھرتی نہ کی گئی ہو اور جہاں صرف تعلیم وتربیت پر ہی توجہ دی جا رہی ہو یا طلبہ اور طالبات کو نئی دنیا کے ساتھ چلنے کے طریقے بتائے جاتے ہوں۔ وہاں پی ایچ ڈی ڈیز کے بجائے آج بھی شعبہ جات میں جونیئر لوگ براجمان ہیں۔ کیونکہ ان کو کسی نہ کسی کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی اپنی بادشاہت ہوتی ہے۔ وہ تین سال کے لئے خود کو بادشاہ سمجھنے لگتا ہے اور وہ کچھ کرتا ہے جو اس کا دل چاہتا ہے یا اس سے کروایا جاتا ہے، کروانے والے سیاسی عناصر اور بیوروکریسی کے کرتا دھرتا ہوتے ہیں جو ان یونیورسٹیوں کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر رابطے میں ہوتے ہیں اور اُن کے بغیر یونیورسٹیوں کے بھی کام نہیں ہوتے۔ کیونکہ اگر یونیورسٹیاں ان کی بات نہیں مانتیں تو فنڈز میں اور بے جا تنگ کرنے کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔

یونیورسٹیوں میں روزانہ کی بنیاد پر ایچ ای ڈی کی جانب سے نوٹیفکیشن موصول ہوتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں اب وائس چانسلرز کے پاس آسان طریقے آ گئے ہیں۔ وہ آتے ہی اشتہارات دے دیتے ہیں اور اس مد میں پیسے اکٹھے کر لیتے ہیں، مرضی ہوئی تو اپنے من پسند افراد کو بھرتی کر لیتے ہیں ورنہ پوسٹ خالی چھوڑ کر دوبارہ آسامیاں مشتہر کر دیتے ہیں۔ کچھ یونیورسٹیاں تو اس بارے میں مشہور ہیں کہ جب تک ان کا اپنا بندہ ٹیسٹ انٹرویو کوالیفائی نہیں کرتا وہ اشتہارات دیتے رہتے ہیں۔

بصر علی جو کہ ایک سرکاری یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اس نے کئی دن پہلے ایک پوسٹ میں ایک اہم مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ستمبر 2022 میں خیبر پختونخوا کی تمام ایسی یونیورسٹیز کے لئے وائس چانسلرز کی آسامیاں مشتہر کی گئیں جن کے وائس چانسلرز کی مدت مارچ 2023 میں ختم ہونی تھی۔ وائس چانسلرز کی مدت ختم ہوئی، وہ چارج چھوڑ کر چلے گئے لیکن چھ مہینے میں کوئی تعیناتی نا ہو سکی۔ اس کی ایک وجہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی سست روی ہے، دوسری اس وقت کی حکومت اور اب نگران حکومت کی مداخلت اور تیسری وجہ اس ملک کی سوئی ہوئی صحافت ہے۔ خیر! ہمارے ہاں تعلیم اور پھر اعلیٰ تعلیم کبھی بھی کسی کی بھی ترجیح نہیں رہی لیکن تعلیمی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر تعیناتیاں ہمیشہ ہر ایک مقتدر کی اولین ترجیحات میں شامل رہی ہیں۔

اور ان باتوں میں بلا کی سچائی ہے کہ تعلیم ہماری ترجیحات میں ہی شامل نہیں رہی تو کیسے اس بارے میں مثبت سوچا جائے۔ اس حوالے سے نجی یونیورسٹیوں میں طلبہ کا رش، نئی سرکاری یونیورسٹیوں پہ طلبہ اور والدین کا عدم اعتماد، تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتیاں، وائس چانسلر، ایچ ای سی چیئرمین کی تعیناتیوں اور جامعات بنانے کے نام پر سیاست چمکانا ہے۔

تعلیم اور صحت کا نام لے کر 10 سال تک حکومت میں رہنے والی پاکستان تحریک انصاف نے جہاں کچھ اچھے کام کیے ہیں، وہیں اعلی تعلیم کے شعبے میں کچھ ایسے قوانین اور پالیسیاں بنا کر چھوڑی ہیں جن کے نقوش مٹ کر بھی نہ مٹ سکیں گے۔ جیسے کہ یونیورسٹی کے لئے وائس چانسلر کے انتخاب کا عمل، وائس چانسلر بننے کیلئے مانگے جانے والے کوائف وغیرہ۔ سرچ کمیٹی کی جانب سے تین ناموں کی سفارش، اور آخری انتخاب میں وزیر اعلیٰ اور گورنر کا عمل دخل، یہ سب چیزیں میرٹ اور اپوائنٹمنٹ کے پروسیجر پہ کئی تنقیدی سوال کھڑے کر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ پرو وائس چانسلر کے نام سے جامعات میں ایک ایسا عہدہ پیدا کر دیا گیا ہے جو صرف انتقام لینے کیلئے ہی استعمال کیا جاتا ہے اور اس عہدے کی وجہ سے جامعات میں گروپ بندیاں، تنازعات اور عدالتی مقدمات ہی فروغ پاتے ہیں۔

جس طرح مضمون کے آغاز میں بتایا گیا کہ وطن عزیز میں ہائر ایجوکیشن ایک بڑا مسئلہ ہے اس میں یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تعیناتی سے زیادہ سنگین مسئلہ شاید ہی کوئی ہو۔ وائس چانسلر چونکہ تین سال کے لئے بادشاہت کے لئے منتخب ہوتا ہے جب اس کے آخری چھ مہینے رہ جاتے ہیں تو وائس چانسلر کے لئے آسامیاں مشتہر کر دی جاتی ہیں مگر ابھی تک کوئی بھی پراسس ان چھ مہینوں میں پورا نہیں ہوا۔ ضرور بہ ضرور پرو وائس چانسلر جو یونیورسٹی کا سینیئر بندہ ہوتا ہے ایکٹ کے مطابق ارٹیکل 12 میں درج ہے وہ نئے وائس چانسلر کے آنے تک یونیورسٹی کی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے۔ یہ بندہ دو سال تک پرو وائس چانسلر منتخب ہوتا ہے جو وائس چانسلر کی غیر موجودگی میں سارے امور سنبھالتا ہے مگر چونکہ کچھ یونیورسٹیوں میں مستقل فیکلٹی نہیں ہے تو بیوروکریٹ پرو وائس چانسلر کی تعیناتی عمل میں نہیں لاتے اور ایکٹنگ چارج کسی نزدیکی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو دے دیتے ہیں۔ یہ وائس چانسلر ایک دوسرے سیارے کا بھی سربراہ بن جاتا ہے اور دونوں جگہوں پر بادشاہت کی جاتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نگران سیٹ اپ جہاں بھی ہو، چاہے حکومت میں ہو یا یونیورسٹی میں یا کسی اور ادارے میں، کامیاب نہیں ہوتا کیونکہ وہاں بادشاہت کچھ عرصہ کے لئے ہوتی ہے اس لئے وہاں فیصلے بھی عجلت میں اور اپنے فائدے کے لئے کئے جاتے ہیں۔

اگر نئے وائس چانسلر کی آمد میں ابھی دیر ہے تو پرو وائس چانسلر یا پڑوسی وی سی کے حوالے کرنے سے اچھا ہے کہ اسی موجودہ وی سی کو چند ہفتے کی توسیع مل جائے کیونکہ وہ پہلے سے ہی سارے معاملات بخوبی جانتا ہے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اس ملک میں توسیع کا حق بھی سب کو حاصل نہیں۔ خیبر پختونخوا کا خاصا رہا ہے کہ جب یونیورسٹیوں کے وی سی مدت ملازمت پوری کر کے واپس جاتے ہیں تو نئے وی سی کے آنے تک اس یونیورسٹی کی تمام تر ذمہ داریاں کسی پڑوس میں واقع یونیورسٹی کے وی سی یا پرو وائس چانسلر کے حوالے کر دی جاتی ہیں اور پرانے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اس حکمت عملی کا کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلتا۔

پڑوسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر اضافی چارج میں ملی یونیورسٹی کے ساتھ اسی خالہ جیسا سلوک کرتا ہے جس کے کے پاس اکثر آس پڑوس کی مائیں کہیں جاتے ہوئے بچے چھوڑ جاتی ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں آج کل خیبر پختونخوا کی کچھ یونیورسٹیاں پرو وائس چانسلرز کے حوالے ہیں اور کچھ میں وائس چانسلرز موجود ہی نہیں ہیں اور وہ اللہ کے سہارے پر چل رہی ہیں جیسے بغیر پائلٹ کے ڈرون جہاز اڑتے ہیں۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔