کیا پشتون ایک گمشدہ یہودی قبیلہ ہیں؟

کیا پشتون ایک گمشدہ یہودی قبیلہ ہیں؟
پشتون کون ہیں؟ آخر یہ جری قوم جس نے کوہ ہندوکش اور اس کی وادیوں میں ہزار ہا سال سے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، جس نے ان پہاڑوں کو بڑے بڑے سورماؤں کے لئے ناقابل تسخیر بنا دیا، جسے انگریز نے جنگی نسل قرار دیا، جس کے نغموں میں پہاڑوں کے جھرنوں جیسی مٹھاس ہے، جس کے عزم میں چٹانوں کی سی پختگی نظر آتی ہے اور جس کی سرزمین کو عالمی طاقتوں کا قبرستان کہا جاتا ہے؛ یہ کہاں سے آئی تھی؟ اس کے بڑے کون تھے؟ اس حوالے سے صدیوں سے تاریخ دانوں اور قوموں کی تواریخ پڑھنے والوں میں ایک تجسس رہا ہے۔ پشتونوں کے بارے میں ایک تھیوری یہ پائی جاتی ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے ان قبائل میں سے ہیں جو ہیکل سلیمانیؑ کی تباہی کے بعد واپس نہیں گئے اور انہی علاقوں میں بسیرا کر لیا جہاں وہ غالباً تجارت کی غرض سے آئے تھے۔

نسب نامہ

اسلام سے قبل کے زمانے کے پٹھانوں کا تعلق یہودی انبیاء حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ سے جوڑا جاتا ہے۔ اسی کہانی میں کچھ صدیوں کے بعد بخت النصر کا نام آتا ہے اور یہ روایت سنائی جاتی ہے کہ یہودیوں کے آباء و اجداد کو جب یروشلم سے نکالا گیا تو وہ یہودی جو افغانوں کے آباء و اجداد تھے مشرق ہی میں رہ گئے اور واپس یروشلم نہ لوٹے۔ ان میں سے کچھ گھور کے پہاڑوں کی طرف نکل گئے۔ اس علاقے کو ہم آج کے دور میں ہزارہ جات کہتے ہیں اور باقی عرب میں مکہ کے اڑوس پڑوس میں چلے گئے۔ یہ دونوں کالونیاں بنی اسرائیل یا بنی افغان کے نام سے مشہور ہوئیں۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگرچہ اصطلاح 'افغان' یا ' پٹھان' بغیر کسی تعصب کے بولی جاتی ہے مگر یہ بھی قصہ ہے کہ ان لوگوں کی ایک سینیئر شاخ بھی ہے جسے ساربانریز کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خالص افغان ہیں اور قوم کی دوسری شاخوں کے مقابلے میں یہی اصل النسل بنی اسرائیل ہیں۔

بنی اسرائیل کے 10 گمشدہ قبیلے

افغان تاریخ دان لکھتے ہیں کہ اسرائیل کے پہلے بادشاہ ساؤل کا ایک بیٹا تھا جس کا نام ارمیا یا جرمیا تھا اور اس کا بھی ایک بیٹا تھا جس کا نام افغان تھا حالانکہ عبرانی صحیفوں میں اس بیٹے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ارمیا کی وفات کے بعد ان کے بیٹے افغان کی پرورش حضرت داؤدؑ نے کی اور حضرت سلیمانؑ کے عہد حکومت میں یہ بیٹا فوج کا سپہ سالار بن گیا۔ یہاں سے لے کے بعد میں قید کے زمانے تک چار صدیوں کا فاصلہ ہے۔ چونکہ بخت النصر کا بھی ذکر کیا گیا ہے اس لیے یہی گمان کیا جاتا ہے کہ یہ ذکر دوسری قید کا ہے جو چھٹی صدی قبل مسیح میں ہوئی تھی اور اس میں جوڈا کو یروشلم سے نکالا گیا تھا جبکہ پہلی قید کا زمانہ اس سے ایک سو سال پہلے کا ہے جس میں اسرائیل کو سماریا سے تعلق رکھے والے شالمانیسر نے قید کیا تھا۔ اگر اس کو سچ مان لیا جائے تو پھر یہ دعویٰ غلط ثابت ہو جاتا ہے جس کے مطابق کہا جاتا ہے کہ افغان کے بیٹے بنی اسرائیل کا تعلق گم ہو جانے والے دس قبیلوں سے ہے۔

دس قبیلوں کے نظریے کی حمایت میں بہت سے لوگ کھڑے ہیں۔ وارن ہیسٹنگز کے زمانے میں اوریئنٹل سٹڈیز کے بانی سر ولیم جونز اس نظریے کی حمایت میں کہتے ہیں کہ افغانوں کا تعلق بنی اسرائیل کے گم ہو جانے والے 10 قبیلوں سے ہے جن کا ذکر نبی اسدراسؒ نے بھی کیا ہے کہ وہ قید سے بھاگ نکلے تھے اور انہوں نے ارسراتھ کے ملک میں پناہ لے لی تھی۔ اس ملک کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ موجودہ ہزارہ جات سے مشابہت رکھتا ہے۔

ایلفنسٹون بھی اس امکان کو یکسر مسترد نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل کے 12 میں سے 10 قبیلے قید کے بعد مشرق ہی میں رہ گئے اور واپس نہ لوٹے اور یہ امکان کہ افغان انہی کی اولاد ہیں تو یہ امکان دونوں باتوں کی وضاحت آسانی سے کرتا ہے؛ بنی اسرائیل کے قبیلوں کی گمشدگی اور افغان قوم کی ابتدا۔ مکہ کی طرف جانے والے یہودیوں کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ نبی پاکﷺ کے زمانے میں مکہ میں متعدد یہودی آباد تھے اور یہی اس امکان کو درست ثابت کرتا ہے۔ یہاں سے ان کی تقسیم سے ان کا نام خیبر پڑ گیا اور اگرچہ خیبر اب کسی پختون قبیلے کا نام نہیں ہے مگر اب بھی افغانستان میں ایک صوبے کا نام ہے۔

تہذیب بابل کے دوران قید کے زمانے سے لے کر آخری نبیﷺ کے دور تک بارہ سو سال کا عرصہ بنتا ہے۔ اس پورے عرصے میں ہمیں کوئی ذکر نہیں ملتا سوائے اس بات کے کہ گھور کے آس پاس کے علاقوں میں جن میں بعد میں کابل، قندھار اور غزنی کو بھی شامل کر لیا گیا، بنی اسرائیل کی آمد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور ان لوگوں نے مقامی طور پر آباد کافروں کے خلاف جنگ کی اور بیش تر مقامی لوگوں کو قتل کیا۔ ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے اس پہاڑی علاقے میں اپنی سلطنت قائم کی اور یہ سلطنت غزنی کے محمود یعنی سلطان محمود غزنوی کے زمانے تک قائم رہی۔ غزنی کا زمانہ نبی پاکﷺ کے زمانے سے چار سو سال بعد آتا ہے۔ محمود غزنوی کے زمانے میں ان لوگوں کے اسلام قبول کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

نبی پاکﷺ کے ساتھی حضرت خالد بن ولیدؓ کے بارے میں بھی پختون تاریخ ساز دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا تعلق بھی مکہ کے قریب رہنے والے ان لوگوں سے تھا جو افغانوں کی اولاد میں سے تھے۔ نبی پاکﷺ کی زندگی میں ہی حضرت خالد بن ولیدؓ نے گھور کے لوگوں کو خط لکھ کر اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اس خط کے جواب میں گھور کے علاقے سے ایک قافلہ قیس کی سربراہی میں نبی پاکﷺ سے ملاقات کے لیے مدینہ روانہ ہوا۔ قیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ساؤل کی اولاد میں سے تھا۔ افغان تاریخ میں درج ہے کہ:

'نبی پاکﷺ نے فرمایا کہ قیس ایک یہودی یا عبرانی نام ہے اور انہوں نے قیس کو عبدالرشید کا نام دیا۔ نبی پاکﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ چونکہ ان کی نسبت ملک تالوت سے بھی ہے، اس لیے انہیں ملک پکارنا بھی مناسب ہوگا۔ نبی پاکﷺ نے قیس کو لکڑی کے اس مضبوط عرشے سے بھی تشبیہ دی جس پر جہاز کی تعمیر کی جاتی ہے اور جسے سمندری لوگ پٹھان کہتے ہیں۔ یوں نبی پاکﷺ نے عبدالرشید کو پٹھان کا لقب بھی دے دیا'۔

قیس کے واقعے میں کوئی سچائی نہیں

گیارھویں صدی عیسوی کے مؤرخ البیرونی اور درباری العتبی جیسے قابل اعتبار مسلمان تاریخ نویسوں کے مطابق قیس کے واقعے میں سچائی نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ محمود غزنوی کے زمانے میں لکھ رہے تھے اور قیس کا زمانہ اس سے چار سو سال پہلے کا ہے اور چار سو سال گزرنے کے باوجود کابل کا صوبہ مسلمان صوبہ نہیں بنا تھا۔ کابل کا صوبہ محمود غزنوی کے زمانے میں مسلمان صوبہ بنا تھا۔ ہندوستان کے علاقے جے پال کی ہندو شاہی سلطنت کابل تک پھیلی تھی اور محمود غزنوی کو کوہ سلیمان کی پہاڑیوں میں رہنے والے کافر افغانوں کے خلاف لڑائی کرنا پڑی تھی۔ 1192 عیسوی میں مسلمان حملہ آوروں اور شمالی بھارت کی ہندو بادشاہت کے خلاف لڑی جانے والی جنگ جس میں معزالزین محمد غوری نے پرتھوی راج کو شکست دی تھی اس جنگ میں ہندو بادشاہ کی فوج میں افغان گھڑسوار بھی شامل تھے۔ اس جنگ میں دونوں طرف سے افغان لڑے تھے۔ لہٰذا اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ بارہویں صدی عیسوی کے آخر تک بھی تمام افغانیوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا حالانکہ اوپر بیان کی گئی کہانیوں میں یہ دعویٰ ملتا ہے کہ حضرت خالد بن ولیدؓ کے عہد میں افغانوں کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا تھا۔

شمال مغربی سرحدی صوبہ یعنی آج کا خیبر پختونخوا، اس کے آخری انگریز گورنر اولف کیرو نے اس خطے میں کئی سال گزارے اور ان کی کتاب ‘ The Pathansپشتون قوم سے متعلق ایک مستند کتاب تصور کی جاتی ہے۔ یہ کتاب 1957 میں چھپی۔ کتاب کے مصنف اولف کیرو کے مطابق سید عبدالجبار بہت پڑھے لکھے اور نیک آدمی ہیں جو پٹھانوں کی تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ پختون یا پٹھان نسلیں آریائی نہیں بلکہ سامی ہیں۔ وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ پشتو زبان فارسی سے قریب ہے اور اگرچہ اس میں عربی کے ڈھیروں الفاظ شامل ہیں جس طرح انگریزی میں لاطینی زبان کے الفاظ شامل ہیں مگر بنیادی طور پر پشتو ایک آریائی زبان ہے۔ ان کی یہ بات بجا ہے کہ زبان کی مدد سے ہم نسلی آغاز کا پتہ نہیں چلا سکتے۔ ہوا یہ ہوگا کہ جب سامی لوگ افغان علاقوں میں داخل ہوئے تو انہوں نے یہاں پہلے سے بولی جانے والی ایرانی زبان اپنا لی۔ بس اتنی سی بات ہے۔

Bellew ایک بالکل مختلف بات کرتے ہیں۔ ساربنار کے دو بیٹوں کے ناموں پر راجپوت ناموں کا اثر نظر آتا ہے۔ ان کے مطابق ساربنار کے دو بیٹوں کے نام شرف الدین اور خیر الدین ہیں جنہیں افغان شرکبون اور خرشبون کہتے ہیں۔ یہ نام راجپوت ناموں سورجن اور کرشن سے نکلے ہیں۔ اس کے علاوہ ساربانر بھی راجپوت نام سوریابان سے نکلا ہے۔ اگر اس نظریے کو مان لیا جائے تو پشتونوں کے تمام روایتی نسب ناموں پر سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔ اب حقیقت کیا ہے یہ تو خدا ہی جانتا ہے۔




سطور بالا میں صوبہ خیبر پختونخوا کے آخری انگریز گورنر اولف کیرو کی کتاب ' The Pathans' کے پہلے حصے کے باب اول میں سے بعض حصوں کا اردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔