سونا اگلتے کھیت کھلیانوں والے دیس کے باسی روٹی کو ترس رہے ہیں

سونا اگلتے کھیت کھلیانوں والے دیس کے باسی روٹی کو ترس رہے ہیں
پوری دنیا آج climate crisis کے مدعے پر متفق ہے۔ مستقبل قریب میں 'کاربن ٹیکس' لگنے کی بھی شُنید ہے۔ یعنی ایک ملک اگر کوئی پروڈکٹ بنائے گا تو اس کی پیداوار کے دوران فضا میں بکھرنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ٹیکس بھی اس پروڈکٹ پر لگایا جائے گا۔ آج وطنِ عزیز ہر دو صورتوں میں صفر پر دکھائی دے رہا ہے یعنی پیداوار اور carbon emission دونوں میں۔

نئی اور جدید دنیا میں سائنسی اور سماجی طور پر نئی اصطلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ نئے لفظ گھڑ نے کا کام ملک میں درجن بھر کے قریب بنائے گئے 'زبان و ادب' کے خدمت گار اداروں کا کام تھا جو ابھی تک ناکام دکھائی دیے ہیں، گویا ایک صفر کا اور اضافہ کر لیجیے۔ البتہ ان اداروں کے عہدے داران بھاری تنخواہ ہر ماہ وصولتے ہیں۔ لہٰذا جس طرح اردو باقی زبانوں سے تقریباً من و عن لفظ مستعار لیتی ہے، ہم نے بھی اس لکھت کے واسطے انگریزی زبان کا در کھٹکھٹایا ہے۔

پنجاب کو دنیا بھر میں فوڈ باسکٹ یا 'اناج کی ٹوکری' مانا جاتا رہا ہے۔ روایتی انداز کی کھیتی باڑی جو کسی زمانے میں نوع انسانی کی سب سے بڑی ترقی تھی، کے ذریعے پانچ دریاؤں کی یہ دھرتی صدیوں سے اپنے وسنیکوں کا پیٹ پال رہی ہے اور ماضی قریب تک بھی احسن طریقے سے یہ کام ہوتا رہا ہے۔

گورے کے دور کو ریلوے نظام اور نہری نظام کے لیے خوب یاد کیا اور سراہا جاتا ہے جبکہ یہ دونوں نظام گورے کے ظلم کے نظام کا حصہ تھے۔ برصغیر کے طول و عرض سے بندرگاہوں کو جاتی ریل کی پٹڑیاں اور وہ نہری نظام کہ جس میں بارش کے پانی یا ہنگامی صورت کے لیے مناسب منصوبہ بندی کا نہ ہونا شامل ہے۔ آج کی جدید دنیا کے علوم یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جب جب انسانوں نے دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کو روکنے یا موڑنے کی کوشش کی تب تب انہوں نے نقصان ہی اٹھایا۔ آج امریکہ اور چین کے بڑے بڑے ڈیم جہاں ترقی کی راہ ہموار کر گئے، وہیں خطرے کی گھنٹی بھی ثابت ہو رہے ہیں۔

ایک ٹوکری کہ جس کو درمیان سے چیر دیا جائے تو جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہی اس ' فوڈ باسکٹ' کے حوالے سے برآمد ہوئے۔ 'تہذیب یافتہ' برطانوی جب پنجاب کو دو ٹکڑوں میں بانٹ گئے تو یہ بھول گئے کہ دریا، ہوا اور روشنی بانٹے نہیں جا سکتے۔ لیکن لالچی انسانوں نے اس کا بھی 'حل' ڈھونڈ نکالا۔

سندھ طاس معاہدہ وہ تھا کہ جو ایک جمہوری ملک کی جانب سے ایک آمر نے کیا اور آج 'بُڈھا راوی' تک مر چکا ہے۔ لاہور جسے ایتھنز اور قاہرہ جیسے شہروں کے مقابل رکھا جاتا ہے اس کا اپنا دریا اب محض ایک بہتے ہوئے گٹر کے سوا کچھ نہیں رہ گیا۔ پانی کی قلت ہوئی تو زرعی ملک کی زراعت میں کمی اور صوبوں کی آپسی کھینچا تانی میں اضافہ ہوا۔

چین، جسے ہم پاکستانی واقعی اپنا دوست مان بیٹھے ہیں، نے ایک ارب سے زیادہ لوگوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کا انتظام ہمارے بعد آزادی حاصل کر کے پورا کیا۔ ہماری زراعت جدید خطوط پر استوار نہ ہو سکی۔ بیلوں کی جوڑی کو ٹائروں کی جوڑی سے بدل دیا گیا اور بس۔ ملک میں اس وقت دو ' محکمہ زراعت' ہیں اور دونوں ہی اپنا اپنا کام درست انداز میں نہیں کر رہے۔ فی ایکڑ پیداوار میں ہم دنیا سے اتنے ہی پیچھے ہیں کہ جتنے سائنس، تعلیم اور اقتصادیات کے شعبوں میں۔

لیکن ہر دفعہ سائنس انسان کے حق میں نہیں ہوتی یا یوں کہیے کہ اس کا درست استعمال ہم نہیں کر پاتے۔ ساری دنیا ایٹمی بجلی گھروں سے توانائی کی ضروریات پوری کر رہی ہے اور ہم دو ہمسایہ ملک ایک دوسرے کو ایٹم بم دکھا کے ڈراتے ہیں۔ گویا دو انسان ایک ہی ڈال پر بیٹھے ہوں اور ایک دوسرے کو اس بات کی دھمکی دیں کہ اگر میں نے ڈال کاٹ دی تو تم گر جاؤ گے۔

کٹی ہوئی ٹوکری کا دوسرا حصہ یا مشرقی پنجاب اس کی مثال ہے۔ 'سبز انقلاب' کے جھنڈے تلے بھارتی پنجاب کی زمینوں سے اناج یوں کشید کیا گیا گویا کسی کم عمر دلہن کے بطن سے یکے بعد دیگرے بچوں کی پیدائش ہو تو وہ وقت سے پہلے بوڑھی ہو جائے۔ یہی حال اس زمین کا ہوا۔ کھادوں اور کیڑے مار زہر کا بے جا استعمال اس دھرتی کو واقعی زہریلا کر گیا ہے۔ امرتا پریتم کی یہ سطریں آج کے مشرقی پنجاب پر صادق آتی ہیں؛

کسے نے پنجاں پانیاں وِچ دِتّا زہر رلا

تے اونھاں پانیاں دھرت نوں دِتّا پانی لا

اس زرخیز زمین دے لُوں لُوں پھُٹیا زہر

گِٹھ گِٹھ چڑھیاں لالیاں پُھٹ پُھٹ چڑھیا قہر

اب زیر زمین پانی کی مقدار کسی صحرا جیسی ہوتی جا رہی ہے اور بھارتی کسانوں کے لیے خودکُشی ہی آخری حل بچا ہے۔

اب ایسے میں کیا کیا جائے؟ پاکستان کی 22 سے 24 کروڑ آبادی کے لیے خوراک کیسے اگائی جائے؟ آج sustainable growth کی بات ہو رہی ہے۔ دنیا کے تجربات سے سیکھا جائے اور بہتر منصوبہ بندی کی جائے۔ پاک افغان بارڈر پر 'خیر سگالی' کے ٹرکوں کو روکا جائے۔ کرپشن اور رشوت کے ذریعے گندم کو ملک سے باہر سمگل کرنے والوں کو کڑی سزا دی جائے۔

پنجابی/بکرمی کیلنڈر یا نیا سال چیت یا چیتر کے مہینے سے شروع ہوتا ہے اور اسی مناسبت سے 'پنجابی کلچر ڈے' پہلی چیتر اور عیسوی کیلنڈر کے مطابق 14 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ چیت بہار کی آمد کا پتہ دیتا ہے جبکہ اس برس یہ بہار کے بجائے 'خزاں' بن کر آیا ہے۔ مارچ کے مہینے میں گندم کی ہری بالیاں نظر آتی ہیں اور وہ مئی جون کی تیز دھوپ کے انتظار میں ہوتی ہیں کہ کب سورج آگ برسائے اور کب وہ اس کی بھٹی میں کُندن ہو کے سونا بن جائیں مگر اس برس بہار میں ژالہ باری نے ان کم سن بالیوں کا قتلِ عام کر دیا۔ مکئی کے پودے تباہ ہوئے، ہر طرف پانی ہی پانی اور کسانوں کی بے بس دُہائی۔ ٹیلی ویژن پر اسے 'خوش گوار موسم' بتایا جا رہا ہے۔ ایک زرعی ملک میں ایسی صحافت پر سوائے افسوس کے کچھ نہیں ہو سکتا۔ media ethics and Sensitization جیسی اصطلاحات غالباً کہیں سلیبس میں تو پڑھائی گئی ہوں لیکن ملکی میڈیا میں نظر نہیں آتیں۔

سیاست کا دنگل اس قدر طویل ہو گیا ہے کہ اربابِ اختیار بھول گئے ہیں کہ پاکستانی بھوکے ہیں۔ 'مُفت آٹے' کی قطاروں میں دم توڑتے بزرگ مرد و خواتین اس بات کی گواہی ہیں کہ مستقبل اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ فلور مِلز مالکان بار بار تحریری طور پر ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز کو مطلع کر رہے ہیں کہ بھیجی گئی گندم میں مکئی کے دانے وافر مقدار میں نکل رہے ہیں اور گندم میں نمی کے سبب اس کا معیار انسانی استعمال کے لیے اچھا نہیں۔

 





فوڈ باسکٹ کے لئے کبھی روس تو کبھی دیگر ممالک سے گندم منگوائی جا رہی ہے۔ تمام آنکھیں اس وقت سیاسی شعبدہ بازوں کے کرتب دیکھ رہی ہیں۔ اگر فی الفور اقدامات نہ کیے گئے اور کسانوں کو ریلیف نہ دیا گیا تو یہ سال بھوک کا سال بن سکتا ہے۔

فوڈ باسکٹ کے رہنے والے آج بھوک سے بِلک رہے ہیں۔ میڈیا پر اس حوالے سے کم ہی پروگرام دیکھنے کو ملتے ہیں۔ 'خوراک کی ٹوکری' میں رہنے والے اگر اپنی زبان اور ثقافت سے جُڑے رہتے تو یقینی طور پر وہ یہ شعر ضرور پڑھتے کہ جو بابا فرید سے منسوب ہے اور اس کا اطلاق اپنی زندگیوں پر بھی کرتے۔

پنج رُکن اسلام دے، چھیواں فریدا ٹُک

جے نا لبھیا چھیواں، پنجے جاندے مُک