ہمارے بچے مساجد سے دور کیوں ہو رہے ہیں؟

ہمارے بچے مساجد سے دور کیوں ہو رہے ہیں؟
اس رمضان کے مہینے میں سوشل میڈیا پر ترکی کی ایک وائرل ویڈیو دیکھی جس میں بچے ایک مسجد میں کھیل رہے ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ رہا۔ اس منظر نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بچے مسجد میں کھیلیں کیونکہ اس سے مسجد کا تشخص خراب ہوتا ہے اور کہیں بھی ایسا پہلے دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا۔ کنفیوژن تھی جو اب بھی قائم ہے کیونکہ مجھے کسی بھی جانب سے تسلی بخش جواب نہیں ملا کہ آیا یہ ٹھیک بات ہے یا غلط۔ کیونکہ بچپن سے ہمیں مسجد میں ڈرایا جاتا تھا کہ یہاں شرارت نہ کریں اور ہر مسجد میں بھی ایک شخص لازمی ایسا ہوتا ہے جس کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ وہاں بچوں کو بات بے بات ٹوکتا ہے، انہیں باتیں کرنے پر سرزنش کرتا ہے کیونکہ بچوں کو مسجد کے تقدس کا پتہ نہیں ہوتا کہ مسجد کی کتنی تقدیس ہے۔

دوسری جانب اگر ہم دیکھیں تو موجودہ دور میں مساجد کی تقدیس کا یہ حال ہے کہ یہاں نام نہاد مولوی صاحبان نے بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات سے اسے پامال کیا ہے اور یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ایسے واقعات سے اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ تو دوسری جانب سیاسی جماعتیں مساجد کی منبر سے دوسری پارٹیوں کے عمائدین کے حوالے سے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو کہ توہین مسجد کے زمرے میں آتا ہے اور اگر ایک اور جانب نظر دوڑائیں تو اس سے شاید ہی کوئی بڑا گناہ ہو کہ ہم نے مساجد کو خون آلود کیا ہے جہاں مساجد کو شہید کر کے وہاں قران مجید کی بھی بے توقیری کی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ہماری مساجد ہی ٹارگٹ رہیں، امام بارگاہیں ٹارگٹ رہیں اور کون سا وہ جمعہ نہیں ہو گا جس میں کسی مسجد کو خون آلود نہ کیا گیا ہو۔

حال ہی میں پشاور پولیس لائنز کی مسجد کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں ہم نے 100 سے زیادہ معصوم نمازیوں کو شہید ہوتے دیکھا۔ ان پر کوئی فتویٰ ہمیں کہیں بھی نہیں ملا۔ ہمیں ایسا شخص نہیں ملا جو چھوٹے بچوں کی طرح انہیں بھی سرزنش کرے۔ چونکہ ہمارے خطے میں جہالت اعلیٰ درجے کی پائی جاتی ہے اس لیے بچے تو دور ہمارے بڑوں کی نظروں سے بھی مسجد کے تقدس کا یہ خوشگوار زاویہ مکمل طور پر اوجھل ہے۔

بات ہو رہی تھی مسجد میں بچوں کے کھیلنے کی تو یہ سب جانتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کو نہ تو عبادت سے غرض ہوتی ہے، نہ تعلیم سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی ہوٹلنگ وغیرہ انہیں اٹریکٹ کرتی ہے۔ انہیں صرف کھیلنے کودنے سے دلچسپی ہوتی ہے جو وہ ہر جگہ بغیر موقع کے غمی یا خوشی دونوں جگہوں پر سرانجام دیتے ہیں۔ گھر میں انہیں جتنا بھی منع کیا جائے، مارا جائے وہ شررات سے باز نہیں آتے۔ اپنے ہاتھ پاؤں تک تُڑوا بیٹھتے ہیں اور مساجد میں جا کر بھی وہ وہی گھر والا ماحول اپناتے ہیں اور کچھ نہ کچھ شرارت کرتے ہی رہتے ہیں۔ ہم بچوں کو بچپن ہی سے مولوی سے ڈراتے ہیں۔ انہیں مسجد میں آنے سے روکتے ہیں کہ وہ مساجد میں نہ آئیں کیونکہ وہاں وہ شرارت کرتے ہیں اور پھر یہ اُن کی عادت بن جاتی ہے اور پھر وہ بڑے ہو کر مساجد سے دور بھاگتے ہیں۔

اس کے برعکس اگر ہم دیکھیں تو ہم ملک کے بڑے بڑے ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں بچوں کے لیے پلے ایریا بنا رہے ہیں۔ سکولوں میں تو چھوٹے بچوں کو تعلیم ہی پلے ایریاز میں دی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ انگریزوں سے مستعار لیا گیا ہے کیونکہ وہ 'سمارٹ اور ذہین' لوگ ہیں۔ انہوں نے اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے بھرپور ذہانت کا استعمال کیا ہے۔ یہ بچوں کی نفسیات کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ سکول والے جانتے ہیں کہ بچوں کو پلے ایریاز دکھا کر، انہیں وہاں ایکٹیوٹی مہیا کرکے، وہ بچوں کو کامیابی سے انگیج کرسکتے ہیں۔ بچہ انگیج ہو گیا تو ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی چل نکلے گا۔

یہاں پر بڑے بڑے برانڈز کی مثال لے لیں۔ وہاں آپ کو پلے ایریاز لازمی ملیں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ بچے اپنے والدین سمیت یہاں کھیلنے کودنے آئیں گے تو چند ہزار کا بل ضرور بنا کر جائیں گے۔ بچوں کے پلے ایریاز بنا کر یہ سارے سکولز، مالز، ریسٹورنٹس، بچپن سے ہی انہیں اپنا 'عادی' بنا لیتے ہیں۔ یہ کاروبار کے حوالے سے ایک انتہائی سمارٹ اور دور رس سوچ ہے جس کا انہیں زبردست فائدہ بھی ملتا ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اس سٹریٹیجک سوچ سے ہماری مسجدیں بالکل عاری ہیں۔

خلیجی ممالک میں مساجد میں بچوں کے کھیل کود پر کوئی پابندی نہیں۔ وہاں ہم سے زیادہ لوگ مساجد میں نمازیں پڑھتے ہیں کیونکہ انہیں دھماکوں کا ڈر نہیں ہوتا۔ وہاں بچوں کو مساجد میں روکا ٹوکا نہیں جاتا۔ انہیں زیادتی کا نشانہ نہیں بنایا جاتا کیونکہ وہاں یہ سوچ ہی نہیں ہے۔ اس لئے اُن کی مساجد میں نمازیوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جبکہ ہمارے ہاں لوگ مسجدوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں کی مسجدیں بچوں کے لیے کسی قسم کی کوئی کشش نہیں رکھتیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک عام بچہ شروع سے ہی مسجد کے حوالے سے بیزاری پال لیتا ہے۔ وہاں کا ماحول اسے کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ وہ وہاں سے جلد سے جلد نکل جانا چاہتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بچے کا باپ اسے زبردستی پکڑ کے بٹھا رہا ہے مگر وہاں کوئی نہ کوئی اسے ذہنی اذیت کا شکار کر رہا ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مسلمان، خاص کر پاکستانی مسلمان اپنے دماغ کی بتیوں کو روشن کریں۔ بچوں کی نفسیات کو سمجھیں کیونکہ ہم پہلے اپنے بچوں کو مسجدوں سے بیزار کرتے ہیں۔ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر ایک کونے میں بٹھاتے ہیں۔ جب وہ بچہ نفسیاتی طور پر مسجد سے متنفر ہو جاتا ہے تو بعد میں نمازیوں کی کم تعداد پر افسوس کرتے ہیں۔ یہ احمقانہ رویہ ہے۔ خلیجی ممالک کی طرح ہمیں مساجد کو سکول کی طرز پر لانا ہوگا۔ یہاں مساجد کے ساتھ پلے ایریاز کیوں نہیں بنائے جا سکتے کہ بچہ بچپن سے ہی مسجد کے ساتھ ایک دلی کنکشن ڈویلپ کر لے۔ بڑا ہو کر وہ مسجد کے تقدس کو خود بخود سمجھ جائے گا۔ جیسے ہی وہ شعور کی دنیا میں قدم رکھے گا، جیسے ہی اسے شعور آئے گا، وہی کنکشن اسے عبادت اور دین کی طرف خود بخود راغب کر دے گا۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔