کیلاش کا مذہبی تہوار 'چیلم جوش' رنگارنگ تقریبات کے بعد اختتام پذیر

کیلاش کا مذہبی تہوار 'چیلم جوش' رنگارنگ تقریبات کے بعد اختتام پذیر
کیلاش قبیلے کا سالانہ مذہبی تہوار ' چیلم جوش' اختتام پذیر ہو گیا۔ رنگا رنگ تقریبات کو دیکھنے کے لئے کثیر تعداد میں ملکی اور غیر ملکی افراد وادی کیلاش آئے تھے۔

کیلاش قبیلے کا سالانہ مذہبی تہوار ' چیلم جوش' جسے مقامی زبان میں ' جوشی' بھی کہا جاتا ہے، تمام تر رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ وادی بمبوریت میں اختتام پذیر ہو گیا تاہم یہ تہوار کیلاش کی وادی بریر میں جاری ہے۔ موسم بہار کے اس تہوار میں کیلاشی مرد ڈھولک بجاتے ہیں جبکہ کیلاش کی خواتین گول دائرے میں کندھے سے کندھا ملا کر مذہبی گیت گاتے ہوئے رقص کرتی ہیں۔ کیلاش قبیلے کے مذہبی رہنما جو قاضی کہلاتے ہیں، اس محفل کے درمیان میں کھڑے ہو کر دعائیں پڑھتے ہیں اور مذہبی گیت گاتے ہیں جبکہ ان کے اہل و عیال ان کی ٹوپی کو سو، 5 سو اور ہزار روپے کے نوٹوں سے سجاتے ہیں۔ یہ مذہبی رہنماؤں کیلئے عزت اور اکرام کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔



دوپہر تک کیلاشی خواتین اور بچے محتلف دیہات سے گیت گاتے ہوئے اور ڈھولک کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے ٹولیوں کی شکل میں چرسو یعنی رقص گاہ میں جمع ہو جاتے ہیں۔ دوپہر کے بعد کیلاش کے لوگ ہاتھوں میں اخروٹ کی ٹہنی اور پتے پکڑ کر ان کو لہرا لہرا کر مرکزی رقص گاہ کی طرف دھیرے دھیرے گامزن ہوتے ہیں۔ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو اس جلوس میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ کیلاش کے لوگ جب چرسو پہنچ جاتے ہیں تو وہاں خوب جی بھر کر رقص کرتے ہیں۔

عصر کے بعد کیلاش کے مذہبی رہنما یعنی قاضی حضرات برکت کے لئے گندم کی فصل پر دودھ چھڑکاتے ہیں جبکہ مرد حضرات چرسو سے دور جا کر اپنے ہاتھوں میں اخروٹ کی ٹہنی، پتے یا پھول پکڑ کو اپنی زبان میں اونچی آواز میں دعا پڑھتے یا مذہبی گیت گاتے ہوئے آہستہ آہستہ رقص گاہ کی طرف آتے ہیں۔ اس دوران ان کے سامنے کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے فرد کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ چرسو میں خواتین بھی ہاتھوں میں ٹہنیاں اور پتے پکڑ کر انہیں لہرا لہرا کر گیت گاتی ہیں اور مردوں کا انتظار کرتی ہیں۔ جب مرد حضرات اپنے قاضیوں کی قیادت میں رقص گاہ یعنی چرسو پہنچ جاتے ہیں تو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پتے اور ٹہنیاں ان خواتین پر نچھاور کرتے ہوئے سب گلے ملتے ہیں اور اکٹھے رقص پیش کرتے ہیں۔



اس تہوار کو دیکھنے کیلئے کثیر تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح آئے ہوئے تھے۔ تاہم راستوں کی خرابی اور سیاحوں کیلئے بیٹھنے کی جگہ اور دیگر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان سیاحوں کو بعض مشکلات کا بھی سامنا بھی کرنا پڑا۔

چترال ٹریول بیورو کی دعوت پر فن لینڈ سے درجن بھر سیاح پہلی بار وادی کیلاش آئے تھے۔ ان سیاحوں سے جب اس تہوار سے متعلق اظہار خیال کرنے کو کہا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جو سرکاری اور غیر سرکاری ادارے سیاحت کو ترقی دینے کیلئے کام کرتے ہیں ان کو چاہئیے کہ سیاحت پہ مزید توجہ دیں اور اسے فروغ دینے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائیں تا کہ سیاحوں کو آنے جانے میں مشکلات کا بھی سامنا نہ ہو اور یہاں زیادہ سے زیادہ سیاح آنے سے اس علاقے کے لوگوں کی معاشی زندگی میں بھی بہتری آئے۔

چترال ٹریول بیورو مسؤل مستحکم، احیائی اور تبدیلی پذیر ٹوور ازم کے فروغ کے لئے وژن کو پیش کرنے پر مصروف ہے، خاص طور پر فطرت پر مبنی ٹوور ازم کے حوالے سے۔ کیلاش ویلی میں ہمارے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے ٹریول بیورو کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر سید حریر شاہ نے مقامات، آپریشنز اور واقعات کی تفصیل بتائی۔ انہوں نے انتظامیہ کی جانب سے مقامی عوام کی شمولیت سے متعلق اہم کردار پر زور دیا تا کہ ٹوور ازم کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے اور اس کے فوائد کو بڑھایا جا سکے۔

بعض سیاحوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ چترال میں محتلف تہوار، میلے یا ٹورنامنٹ منعقد کرنے کے نام پر قومی خزانے سے جو خطیر رقم حاصل کی جاتی ہے اسے اگر افسرشاہی کو وی آئی پی پروٹوکول دینے یا چند افسران اور ان کے اہلخانہ کو خوش کرنے کی بجائے سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور مزید انتظامات بہتر کرنے پر خرچ کیا جائے تو اس سے فائدہ ہو سکتا ہے۔ اس سے اگر ایک طرف سیاحوں کو آنے جانے میں مشکلات کا سامنا نہیں ہو گا تو دوسری طرف سیاحت کو ترقی دینے سے یہ علاقہ بھی ترقی کرسکے گا اور یہاں سے غربت کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔