ڈیجیٹل مردم شماری بعض بے ضابطگیوں کے باعث متنازعہ ثابت ہو گی

ڈیجیٹل مردم شماری بعض بے ضابطگیوں کے باعث متنازعہ ثابت ہو گی
ادارہ شماریات کی جانب سے پانچ بار توسیع کے بعد بالآخر مردم شماری کا کام ختم کر دیا گیا ہے۔ ساتویں مردم شماری جسے ڈیجٹیل مردم شماری کا نام بھی دیا گیا ہے، کا آغاز یکم مارچ سے ہوا تھا۔ شیڈول کے مطابق مردم شماری کا عمل ایک ماہ میں مکمل کیا جانا تھا۔ اس میں پہلی بار 10 اپریل، دوسری مرتبہ 15 اپریل، اس کے بعد 20 اپریل جبکہ چوتھی بار 30 اپریل تک توسیع کی گئی تاہم 30 اپریل تک بھی مردم شماری کا عمل مکمل نہ ہونے پر اس میں پانچویں بار 15 مئی تک توسیع کر دی گئی تھی جس کے بعد 16 مئی کو ادارہ شماریات کی جانب سے مردم شماری ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔

جس طرح کراچی میں مردم شماری کے حوالے سے سیاسی جماعتوں خاص طور پر ایم کیو ایم کی جانب سے احتجاج جاری تھا شنید تو یہ تھی کہ 15 مئی کے بعد بھی مردم شماری کے لئے توسیع کی جائے گی تاہم ایسا نہیں کیا گیا اور ادارہ شماریات نے ہمت دکھاتے ہوئے مردم شماری کا عمل ختم کر دیا۔ یہاں پر مردم شماری کا عمل ختم کرنے کے حوالے سے 'ہمت دکھانے' کے الفاظ اس لئے استعمال کئے گئے ہیں کیونکہ پہلے جتنی بار مردم شماری کے لئے تاریخ میں توسیع کی گئی تھا اس کے پیچھے سیاسی جماعتوں خاص طور پر پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کا احتجاج کار فرما رہا ہے کیونکہ مردم شماری کے حوالے سے مقررہ تاریخ ختم ہوتے ہی ان جماعتوں کی جانب سے احتجاج شروع کر دیا گیا تھا اور مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ مردم شماری میں شہریوں کا اندراج درست انداز سے نہیں کیا جا رہا۔

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے تو اس حوالے سے تحفظات دور نہ کئے جانے پر استعفوں تک کی دھمکی دے دی تھی جس کے بعد وزیر اعظم پاکستان کو اپنی حلیف جماعتوں کا اجلاس بلا کر تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروانا پڑی تھی۔ مردم شماری کے دوران درست شمار نہ ہونے کے حوالے سے سب سے زیادہ آواز سندھ سے اٹھائی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی جانب سے بارہا یہ کہا جاتا رہا ہے کہ سندھ خاص کر کراچی میں شہریوں کا درست شمار نہیں کیا جا رہا جس کی وجہ سے کراچی کی آبادی کم ظاہر ہونے کا خدشہ ہے۔ یہی وہ عوامل تھے جن کی وجہ سے ادارہ شماریات کو مردم شماری کے لئے مقررہ تاریخ میں پانچ بار توسیع کرنا پڑی۔

سیاسی جماعتوں کے تحفظات اپنی جگہ مگر حالیہ مردم شماری میں کئی ایسی واضح بے ضابطگیاں دیکھنے کو ملی ہیں جن کو نظر انداز کئے بغیر کسی بھی سیاسی جماعت یا کیمونٹی کے لئے مردم شماری کے نتائج کو کھلے دل سے قبول کرنا ممکن نہ ہوگا۔ ادارہ شماریات کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ یہ مردم شماری کلی طور پر ڈیجیٹل طریقے سے کی جائے گی جس کے لئے شمار کنندگان کو جدید ڈیجیٹل ڈیوائسز (ٹیبلٹ وغیرہ) دی جائیں گے اور شمار کنندگان کو ان ڈیجٹیل ڈیوائسز کے ذریعے اندراج کے حوالے سے ٹریننگ بھی دی جائے گی تاہم مردم شماری کے دوران فیلڈ میں حقائق اس سے برعکس نظر آئے ہیں۔

اکثر شمار کنندگان کی طرف سے یہ شکایات سننے کو ملی ہیں کہ ڈیجیٹل ڈیوائسز اور سافٹ ویئر کے استعمال کے حوالے سے انہیں مکمل ٹریننگ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے انہیں سسٹم تک رسائی اور اندراج کے حوالے سے مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ دوسری جانب خود کار سسٹم کے تحت اندراج کے حوالے سے جو طریقہ کار متعارف کروایا گیا تھا اس کے حوالے سے بھی شہریوں کو مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ اس سسٹم کے تحت معلومات کے اندراج کے لئے ون ٹائم پاس ورڈ (او ٹی پی) کے حصول کے لئے شہریوں کی شکایات موجود ہیں۔

دوسری جانب اندراج کے بعد جو یونیک ٹوکن نمبر (یو ٹی این) فراہم کیا جاتا رہا ہے بعض شمار کندگان کی جانب سے اس کی تصدیق کی معذرت کرتے ہوئے دوبارہ سے ازخود اندراج کرنے کی شکایات بھی ملی ہیں۔ راقم نے ازخود بھی اس کا تجربہ کیا ہے۔ خود کار طریقہ سے اندراج کے بعد میں نے جب شمار کنندہ کو یونیک ٹوکن نمبر دیا تو اس نے یہ کہہ کر دوبارہ سے اندراج کروانے کے لئے کہا تھا کہ سسٹم یو ٹی این نمبر کے ذریعے درج معلومات کی تصدیق نہیں کر پا رہا۔ اس لئے آپ کو دوبارہ سے معلومات درج کروانا ہوں گی۔ ایسا صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہوا اور بھی بہت سے شہریوں کا یہی کہنا ہے کہ یو ٹی این نمبر ہونے کے باوجود شمارکندگان نے ان کی معلومات کا اندراج دوبارہ سے ازخود کیا ہے۔

یہ تو وہ بے ضابطگیاں ہیں جن کے حوالے سے شکایات موجود ہیں مگر ادارہ شماریات کی جانب سے اس حوالے سے کسی قسم کی وضاحت نہیں کی گئی۔ تاہم اس مردم شماری کے دوران ایک بے ضابطگی ایسی بھی دیکھنے کو ملی ہے جس کے حوالے سے ادارہ شماریات کو باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرنا پڑا تھا۔ اس بے ضابطگی کی میں نے 15 مارچ کو شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں نشاندہی کی تھی۔ میں نے اس مضمون میں بتایا تھا کہ شمارکندگان کی جانب سے ایک فارم تقسیم کیا جا رہا ہے جس کے ذریعے وہ شہریوں کو معلومات فراہم کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ اس پر ادارہ شماریات کی جانب سے 19مارچ کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ ڈیجٹیل ڈیوائس کے علاوہ فارم یا کسی بھی اور طریقے سے معلومات کی فراہمی غیر قانونی ہے۔ اس لئے شہری فارم کے ذریعے کسی قسم کی معلومات فراہم نہ کریں۔ اس کے باوجود بھی فارم کے ذریعے معلومات کے حصول کی شکایات موصول ہوتی رہی ہیں۔

اس کی وجہ شاید وہ پریکٹس ہے جو شمار کندگان ماضی میں مردم شماری کے لئے کرتے رہے ہیں یا پھر وہ آسانی ہے جس کے لئے وہ فارم کے ذریعے معلومات حاصل کرتے رہے ہیں تاکہ کسی ایک دفتر یا جگہ پر بیٹھ کر ڈیجیٹل ڈیوائسز کے ذریعے معلومات کا اندراج کر سکیں۔ ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل طریقے سے اندراج کے لئے شمار کندگان کو سوا لاکھ ٹیبلٹس فراہم کئے گئے ہیں مگر اس کے باوجود فارم کے ذریعے شہریوں سے معلومات کا حصول لمحہ فکریہ ہے!

مردم شماری کی تاریخ میں بار بار توسیع، شمار کنندگان کے لئے معلومات کے اندراج اور سسٹم تک رسائی میں مشکلات، شہریوں کو ون ٹائم پاس ورڈ کے حصول میں دشواری کا سامنا، یونیک ٹوکن نمبر کی سسٹم سے شناخت نہ ہونا اور شمار کنندگان کی جانب سے فارم کے ذریعے معلومات کا اندراج؛ یہ وہ واضح بے ضابطگیاں ہیں جو اس مردم شماری کے دوران نظر آئی ہیں۔ ادارہ شماریات کی جانب سے اگر ان عوامل کی تحقیقات نہیں کی جاتیں تو پھر شاید اس مردم شماری کے نتائج کو کھلے دل سے قبول کرنا آسان نہ ہو گا۔

سمیر اجمل کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور وہ صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔