ہانگ کانگ کے ایک آن لائن اخبار ایشیا ٹائمز کے پاکستان میں بیورو چیف سلیم شہزاد کو 29 مئی 2011 میں اسلام آباد سے نا معلوم افراد نے اغواء کیا اور دو روز بعد ان کی لاش پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین میں ایک نہر سے ملی تھی۔ شہزاد ایک ٹیلی وژن پروگرام میں شرکت کے لیے گھر سے نکلے مگر راستے میں لاپتہ ہوگئے۔ ان کی تشدد زدہ لاش دو روز بعد ملی تھی۔
یہ بات اہم ہے کہ سلیم شہزاد پاکستان میں دہشتگردی کے موضوعات کو کور کرنے والے باخبر صحافی مانے جاتے تھےانکے طالبان قیادت اور ملکی سلامتی کے اداروں میں اچھے روابط تھے جس کی بنیاد انہیں خبر کے حصول میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔
انہوں نے متعدد بار اسامہ بن لادن کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کی خبر دی اور کہا کہ امریکن ایجنسیز اسامہ بن لادن کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں، بعدازں ایبٹ آباد آپریشن ہو گیا۔ اس وقت پتہ چلا کہ اسامہ 2006 سے ایبٹ آباد میں مقیم تھے جبکہ سلیم شہزاد اسامہ بن لادن کی نقل و حرکت کے بارے میں 2006 میں بھی رپورٹ کر چکے تھے، غالب امکان یہی ہے کہ انہیں اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی کا علم تھا۔
لشکر طیبہ کے رہنماء الیاس کشمیری کی موت کی افواہوں پر سلیم شہزاد نے انکا انٹرویو کیا، اور بتایا کہ طالبان نے الیاس کشمیری کو اہم تنظیمی ذمہ داری سونپ رکھی ہے اور الیاس کشمیری وزیرستان میں موجود ہے۔
27 مئی کو انھوں نے یہ خبر شائع کی تھی کہ پاکستان بحریہ کے کراچی کے مہران بیس پر القاعدہ کے شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا اور اس کی فوری وجہ القاعدہ اور بحریہ کے کچھ افراد کے آپس میں روابط تھے جبکہ شدت پسند اپنے کچھ ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے، اس کے علاوہ شدت پسندوں کے پاس سے مہران بیس کے اندر کے نقشے بھی برآمد ہوئے جو کسی اندر کے آدمی نے ہی فراہم کیے تھے۔
سلیم شہزاد کی یہ سٹوری ستائیس مئی کو پبلش ہوئی جبکہ اس کے دوسرے حصے نے ایک ہفتے بعد شائع ہونا تھا تاہم انہیں اس سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان کے قتل کا الزام ملکی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر لگایا گیا تاہم ادارے کی جانب سے اس کی سختی سے تردید کی گئی۔
اس سے قبل سلیم شہزاد کو آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز بلایا گیا تھا۔ اس طلبی کے بعد سلیم شہزاد نے ہیومن رائٹس واچ کو اس بابت لکھا اور بتایا کہ کس طرح انہیں دھمکایا گیا ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ کس بابت انہیں رپورٹ نہیں کرنی۔ اس خط میں سلیم شہزاد نے لکھا کہ ان کی زندگی کو ملک کے خفیہ ادارے سے خطرہ ہے۔
اپنی گم شدگی سے صرف نو ماہ قبل سلیم شہزاد نے امریکی صحافی ڈیکسٹر فِلکِنز کو لکھا، ’’دیکھو میری زندگی خطرے میں ہے۔ مجھے اب فوراﹰ پاکستان چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘
پاکستان حالیہ برسوں میں صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ملک کے طور پر ابھرا ہے اور شاید اس سال بھی اپنی یہ پوزیشن برقرار رہے، ملک کے مختلف حصوں میں شدت پسندی اور شورش میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ قاتل نامعلوم ہی رہتے ہیں جیسا کہ سلیم شہزاد کے کیس میں بھی ہوا، ایسے میں سلیم شہزاد سمیت پرتشدد واقعات میں مارے جانے والے صحافیوں کے ورثاء کو کب انصاف ملے گا، ملے گا بھی یا نہیں، پاکستانی صحافت، منتخب حکومت اور آزاد عدلیہ کے لیے یہ آج بھی بہت اہم سوال ہے؟ جس سے جتنا صرف نظر کیا جائے گا اتنا ہی یہ سوال بار بار گھوم کر سامنے آتا رہے گا۔