• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
اتوار, مارچ 26, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

این آر او : بے نظیر بھٹو قوم کی مُجرم یا مُحسن؟

امام بخش by امام بخش
جولائی 4, 2019
in تجزیہ, سیاست, میگزین
5 0
0
این آر او : بے نظیر بھٹو قوم کی مُجرم یا مُحسن؟
30
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

تحریر:( امام بخش) حصہ (1) وطنِ عزیز میں میڈیا پر فقط مقتدرہ قوتوں کے بیانیئے کا پرچار ہوتا ہے اور وہی مقبول عام بھی ہوتا ہے۔ آئینِ پاکستان کو ردی کے کاغذ سے زیادہ کبھی اہمیت نہ دینے والی یہ مقتدرہ قوتیں جھوٹے حقائق اور جھوٹی تاریخ عوام کو رٹواتی رہتی ہیں۔ یہی قوتیں ہی فیصلہ کرتی ہیں کہ حقائق کے برعکس قوم کے سامنے کس کو ہیرو بنا کر پیش کرنا ہے اور کس کو ولن۔ پاکستان کے بننے کے بعد سے آج تک جھوٹی کہانیوں کے ذریعے عوام کی ذہن سازی کا یہ طریقہ واردات انتہائی کامیابی سے چل رہا ہے۔ قومی مفاہمتی آرڈیننس یا این آر او (National Reconciliation Ordinance) کے بارے میں بھی مقتدرہ قوتوں نے اپنا پسندیدہ بیانیہ اپنی سیاسی اور میڈیائی کٹھ پُتلیوں کو پوری طرح ازبر کروا رکھا ہے، جس کا وہ بات بات پر بھرپور پرچار کر کے عوام کو گمراہ کرتی ہیں۔

این آر او ایک صدارتی آرڈیننس تھا، جِسے ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے 5 اکتوبر 2007ء کو جاری کیا۔ اس صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پرویز مشرف نے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے ان تمام مقدمات کو ختم کرنے کا اعلان کیا جو یکم جنوری 1986ء سے لے کر 12 اکتوبر 1999ء کے درمیان سیاسی بنیادوں پر درج کیے گئے تھے۔ سات دفعات پر مشتمل این آر او آرڈیننس کا مقصد قومی مفاہمت کا فروغ، سیاسی انتقام کی روایت کا خاتمہ اور انتخابی عمل کو شفاف بنانا تھا۔

RelatedPosts

کیا پاکستان میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل رہ سکتی ہے؟

‘عمران خان نے فوجداری مقدمات سے بچانے کے لئے جنرل باجوہ پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا’

Load More

این آر او آرڈیننس جاری ہونے کے دو سال بعد (پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران) جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور شریفین کا گٹھ جوڑ عروج پر تھا تو آصف علی زرداری کو دیوار سے لگانے کے لیے 16 دسمبر 2009ء کو سپریم کورٹ نے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا، جس کے بعد این آر او کے تحت تمام کالعدم مقدمات دوبارہ کھلنے کے ساتھ آصف علی زرداری کے خلاف سیاسی انتقام کے طور پر بنائے گئے تمام مقدمات بھی بحال ہو گئے۔ ڈبل پی سی او زدہ افتخار چوہدری کو اپنی طبع آزمائی کے پیش نظر آصف علی زرداری کے خلاف سب سے اہم مقدمات یعنی سوئس کیسز کو مصالحے دار بنانے کے زیادہ مواقع نظر آئے، اِسی لیے انھوں نے اِسے سب سے اہم آئیٹمز سمجھ کر این آر او کی پٹاری سے نکالا اور شعبدہ بازی شروع کر دی۔ احتساب عدالت کی لِیلا دھاری کے افتخار چوہدری نے سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں پورے تین سال تک کھڑکی توڑ شو جاری رکھا اور یہ عدالتی کمرہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف ایک کامیاب پروپیگنڈہ سیل کا منظر پیش کرتا رہا۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف تعفن زدہ عدالتی ڈائیلاگز کو چسکے لے لے کر ہر شام ٹی وی سکرینوں پر دہرایا گیا، اخبارات میں چیختی چنگھاڑتی شہ سرخیوں سے صفحات کالے کیے گئے اور اخبارات میں پورے پورے صفحات کے اشتہارات چھاپے گئے۔ قوم  نے سوئس کیسز نامی ناٹک کو پورے اُنیس سال تک جھیلا۔

وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی عدالتِ عظمٰی کے حکم پر جب آئین کے آرٹیکل 248 کے مطابق سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے تیار تھے مگر عدالت اِس آرٹیکل کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کے مطابق خط لکھوانا چاہتی تھی۔ گیلانی کی طرف سے اِس غیر آئینی اقدام سے انکار پر سپریم کورٹ نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں جاری کیے گئے توہین عدالت کے آرڈیننس 2003ء کے سیکشن پانچ کے تحت جرم کا مرتکب قرار دے کر غیر آئینی طور پر منتخب وزیرِ اعظم کو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا۔ ایک ڈکٹیٹر کو تین سال کے لیے آئینِ پاکستان سے کھلا کھلواڑ کرنے کی اجازت دینے والے ججوں نے قومی اسمبلی میں منتخب وزیرِ اعظم کے حق میں قرارداد اور اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کو بھی درخور اعتنا نہ سمجھا۔ مگر بعد ازاں وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف سے عدالت نے سوئس حکام کو اُسی متن کے ساتھ خط لکھوایا، جس کے لیے یوسف رضا گیلانی پہلے ہی رضامند تھے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر حکومتِ پاکستان کی طرف سے سوئس حکام کو بھجوائے گئے خط کا کورا جواب آیا اور سوئس حکام نے آصف علی زرداری کے خلاف کاروائی کرنے سے صاف انکار کر دیا۔

یاد رہے کہ شریفوں نے پاکستانی ججوں کے ساتھ ملی بھگت (یہ بات سپریم کورٹ میں ثابت ہو چکی ہے) کی طرز پر سوئس حکام سے بھی ملی بھگت کرنے کی بھرپور کوششیں کیں مگر سوئس انویسٹیگیٹنگ جج ڈینیل ڈیواؤ نے ابتدائی انکوائری میں بوگس ثبوت دیکھ کر مقدمات چلانا تو دور کی بات، فائل تک کرنے سے انکار کر دیا۔

مزید برآں، شریف حکومت کے سوئس وکیل جیکؤس پاتھن، جنیوا کے اٹارنی جنرل (پراسیکیوٹر جنرل) ڈینیل زیپیلی، جنیوا کے دوسرے اٹارنی جنرل فرانکوئس راجر مچلی کا ایس جی ایس اینڈ کوٹیکنا کمپنیز سے متعلقہ مقدمات (سوئس کیسز) کے بارے میں کھلے مواقف دے چکے تھے کہ پیش کردہ ثبوتوں کی بنا پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف کاروائی نہیں ہو سکتی۔ اِن حقائق کے باوجود عدالتِ عظمٰی پاکستان پیپلز پارٹی کے وزراء اعظم کو صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف سوئٹرز لینڈ میں ایس جی ایس اینڈ کوٹیکنا کمپنیز سے متعلقہ اُن بند کیسز (سوئس کیسز) کو کھلوانے کے لیے خط لکھوانے پر بضد تھی، جو سِرے سے موجود ہی نہیں تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ سوئٹرز لینڈ میں اِن کیسز کی فقط انکوائری ہوئی، جس کی کوئی عدالتی اہمیت نہیں تھی اور شواہد نہ ہونے پر سوئٹزر لینڈ میں یہ مقدمات فائل ہی نہیں ہو سکے تھے۔ مزید برآں، یہ بوگس کیسز پاکستانی احتساب عدالت میں بھی خارج ہو چکے تھے۔

آصف علی زرداری کی عہدہ صدارت سے سبکدوشی کے بعد عدالت کی بار بار کی ہدایات کے باوجود استغاثہ عدالت میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکا۔ اس طرح 24 نومبر 2015ء کو عدالت نے آصف علی زرداری کو سوئس کیسز میں باعزت بری کر دیا۔ بعد ازاں، این آر او کی کالعدمی سے بحال ہونے والے تمام کے تمام مقدمات سے آصف علی زرداری عدالتوں میں باعزت بری ہو گئے۔ یہاں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آصف علی زرداری یا پاکستان پیپلز پارٹی کے کسی عہدیدار نے این آر او سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے یہ اچھا ہوا کہ این آر او کی کالعدمی سے بحال ہونے والے تمام جعلی مقدمات عدالتوں میں بھی جھوٹے ثابت ہوئے (واضح رہے کہ اِن جعلی مقدمات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ آصف علی زرداری نامزد ملزم تھے)۔

اب ہم ذرا ماضی میں جھانکتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو این آر او لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

آئین شکن جنرل پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو وہ بار بار کہتے تھے کہ “پاکستانی سیاست سے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ یہ دونوں شخصیات اور ان کے حواری اب پاکستانی سیاست میں کبھی واپس نہیں آئیں گے”۔

وطنِ عزیز کی سیاسی جماعتوں کی اکثریت ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی کاسہ لیس بن چکی تھی، جنھوں نے ایل ایف او کے تحت یا سترہویں ترمیم کے ذریعے آئین شکن کو تحفظ دینے سے پہلے مشرف کے ساتھ ڈیل کر لی تھی۔ پی سی زدہ ججوں سے تھوک کے حساب سے بھری عدالتِ عظمٰی پہلے ہی آئین شکن جنرل مشرف کے فوجی اقتدار کو نظریہ ضرورت کی بنیاد پر جائز قرار دے چکی تھی۔ اس کے بعد عدالتِ عظٰمی نے بخوشی وردی پہنے جنرل مشرف کو بن مانگے تین سال شراکت بلا غیرے پاکستان پر حکمرانی کرنے کے ساتھ ساتھ آئینِ کو کہیں سے بھی تبدیل کرنے کی اجازت فرما چکی تھی۔ بعد ازاں، ڈکٹیٹر وردی کے اوپر شیروانی پہن کر صدر بھی بن گئے۔ اپریل 2005ء میں سپریم کورٹ نے اُن تمام آئینی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا، جن میں پرویز مشرف کے دو عہدے (صدر اور چیف آف آرمی سٹاف) رکھنے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے حکم صادر فرمایا کہ “با وردی صدر ٹھیک ہے”۔

اقتدار چھن جانے کے بعد خاندانِ شریفاں نے جیل میں ایک سال کا عرصہ نالوں، فریادوں، مِنتوں اور ترلوں میں بڑی مشکل سے کاٹا۔ جیسے ہی ان کے معاملات ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ طے پائے، تو یہ پُورا خاندان عوام اور جیلوں میں بند مسلم لیگی لیڈروں تک کو بتائے بغیر رات کے اندھیرے میں انھیں تنہا چھوڑ کر رفو چکر ہو کر سعودی عرب میں سرور پیلس میں سَرُور لینے جا پہنچا۔ یاد رہے کہ یہ خاندان اپنا پُرتعیش سامان، پسندیدہ باورچی اور مالیشئے ساتھ لے جانا نہیں بُھولا تھا۔

ڈکٹیٹر ضیاءالحق کے “حرم” میں ناز و نعم سے پرورش پانے والے شریف برادران، اپنے پورے خاندان سمیت ایک دوسرے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ کیے گئے خفیہ معاہدوں کی دستخط شدہ دستاویزات منظر عام پر آنے سے پہلے کامل سات سال (2000ء سے لے کر 2007ء تک) قوم کے سامنے پورے اعتماد سے بار بار جھوٹ بولتے رہے کہ انھوں نے کوئی ڈیل نہیں کی اور نہ ہی کسی معاہدے پر دستخط۔ لیکن پاکستانی قوم 22 اگست 2007ء کو اُس وقت سکتے میں آ گئی، جب پرویز مشرف حکومت کی طرف سے اُس معاہدے کی مصدقہ نقول سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئیں، جس پر میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے بیس دیگر افراد نے دسمبر 2000ء کو جیل سے جان چھڑانے اور پاکستان چھوڑنے کے وقت دستخط فرمائے تھے۔

سرور پیلس میں گذری اس وی وی آئی پی جلاوطنی کے دوران خاندانِ شریفاں پاکستان سے آنے والی ٹیلیفون کالز کی گھنٹی پر بھی تھرتھرا جاتا تھا۔ حالت یہ تھی کہ قربانیاں دینے والے مسلم لیگی لیڈروں تک کے فون نہیں سُنے جاتے تھے۔

شریف فیملی کا سعودی عرب میں بھی سٹیل ملز لگا کر نوٹ کمانے کا سفر البتہ جاری تھا، وہاں سرُور پیلس میں بیٹھ کر لطیفے سننے اور اپنے پسندیدہ کھابے کھانے اور کھلانے میں وقت خُوب مزے میں گزر رہا تھا۔ البتہ پیچھے نُون لیگ کے متوالے ذلیل و خوار ہو کر مُنہ چھپاتے پھر رہے تھے۔

بعد ازاں، جدّہ سے لندن میں جانے سے شریف فیملی کی عیش پرستی کے لوازمات مزید بڑھ گئے۔

عمران احمد خان نیازی نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی دل و جان سے کمپیئن چلائی تھی۔ 2002ء کے عام انتخابات سے قبل ڈکٹیٹر سے دھاندلی کے ذریعے سِیٹیں لے کر سلیکٹڈ وزیرِ اعظم بننے کے لیے خُوب منتیں ترلے کیے (اگر کوئی اس بات سے انکاری ہے تو وہ پرویز مشرف کے اِس بارے مؤقف کی ضرور جانکاری لے، جو اس بات کا بار باز ذکر کرتے ہیں اور عمران خان آج تک اِس کی تردید نہیں کر سکے)۔ عمران خان سے جب بھی پرویز مشرف کی آئین شکنیوں کے خلاف کاروائی کا پوچھا گیا تو اُن کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ”پرویز مشرف کو آئین توڑنے کی سزا میرا مسئلہ نہیں ہے”۔ مزید برآں، عمران خان نے کبھی آئین سے سنگین غداری کرنے والوں کے خلاف زبان کھولنے کی جسارت نہیں کی بلکہ اُن کی تعریف اِس والہانہ اور عقیدت مندانہ انداز میں کرتے ہیں کہ جیسے کوئی عہدِ وفا یا رسمِ محبت نبھا رہے ہوں۔

(جاری ہے)

Tags: این آر اواین آر او ۔ بے نظیر بھٹو قوم کی مُجرم یا مُحسن؟بینظیر بھٹو اور این آر اوسوئس کیسز
Previous Post

پاکستان میں صحافت زبوں حالی کی شکار

Next Post

پانچ جولائی، حالات نہیں بدلے

امام بخش

امام بخش

Related Posts

پی ٹی آئی والوں کو تشدد اور ناانصافی تبھی نظر آتی ہے جب ان کے اپنے ساتھ ہو

پی ٹی آئی والوں کو تشدد اور ناانصافی تبھی نظر آتی ہے جب ان کے اپنے ساتھ ہو

by ایمان زینب مزاری
مارچ 25, 2023
0

یہ اُس کے لیے بھی جواب ہے جو ہر پارٹی سے ہو کر پی ٹی آئی میں شامل ہوا اور آج شاہ...

احساس کا جذبہ ختم ہو جائے تو انسان زندہ لاش بن کے رہ جاتا ہے

احساس کا جذبہ ختم ہو جائے تو انسان زندہ لاش بن کے رہ جاتا ہے

by اے وسیم خٹک
مارچ 25, 2023
0

نجانے کبھی کبھار مجھے کیوں یہ لگتا ہے کہ ہم مر گئے ہیں اور یہ جو اس جہاں میں ہماری شبیہ لے...

Load More
Next Post
پانچ جولائی، حالات نہیں بدلے

پانچ جولائی، حالات نہیں بدلے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
1

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In