• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
اتوار, اگست 14, 2022
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

کہیں سہیل ایاز آپکے بچے کے کمرے میں تو نہیں؟

سلمان درّانی by سلمان درّانی
نومبر 18, 2019
in تجزیہ, معاشرہ, میگزین
10 0
0
چائلڈ پورنوگرافی: تین ممالک کی مشترکہ کارروائی میں دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک بے نقاب
12
SHARES
57
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

RelatedPosts

بچوں سے زیادتی کرکے لائیو ویڈیو بنانے والا انٹرنیشنل ڈارک ویب کا سرغنہ گرفتار

چائلڈ پروٹیکشن بیورو کا ملازم بچے سے مبینہ زیادتی کی کوشش میں گرفتار

Load More

اگر آپ کا بچہ ہم جنس پرست ہے تو کیا ہوا؟ سُن کر شرم مت کھائیے بلکہ ہوش کے ناخن لیں۔ یہ بات کم از کم کسی حد تک تو قابل قبول ہے،  آپ کے لیے یہ چیز ایک خوشگوار بات ہونی چاہیے بجائے اس کے کہ کل کو آپ ہی کا بچہ آپ سے چھُپ کر کسی سہیل ایاز کے ہاتھوں استعمال ہو رہا ہو اور آپ کو جب اس بات کا علم ہو تو بہت دیر ہوچکی ہو۔ اب آپ پوچھیں گے کہ یہ سہیل  ایاز کس بلا کا نام ہے؟ آپ کا سوال بالکل بجا اور بروقت ہے۔ سہیل ایاز کو فی الحال انسان کے طور پر نفرت کا نشانہ نا بنائیں بلکہ ایک بُرائی کا نام رکھ لیجیے۔  اب آپ کو اپنے گھروں میں، گلی محلوں میں سہیل ایاز جیسی برائی کو ڈھونڈنا آسان ہوجائے گا۔

آپ نے پچھلے دنوں ایک خبر دیکھ رکھی ہو گی کہ بچوں سے زیادتی کی فلمیں ریکارڈ کر کے ڈارک ویب پر بیچنے والا انٹرنیشنل گینگ کا سرغنہ راولپنڈی سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اسی کا نام  سہیل ایاز ہے، تبھی سے میں نے اس جرم کو سہیل ایاز کا نام دیا ہوا ہے۔  مطلب کہ بچوں کے ساتھ سیکس کرنا جُرم ہے یا ان کی ویڈیوز بنا کر بیچنا جُرم ہوا؟ دونوں ہی اپنی نوعیت کے بڑے جُرم ہیں، جس کی سزا ضرور ہونی چاہیے، لیکن مستقل بنیادوں پر اس کا کوئی حل ڈھونڈنا وقت کی اشد ضرورت بن چکی ہے۔

چلیں سب کچھ چھوڑیئے، اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ نے اپنے گھروں میں سہیل ایاز کو کیسے ڈھونڈنا ہے۔ ایک سہیل ایاز میرے گھر میں بھی تھا۔ ” یہ بالکل اس دور کی بات ہے جب میں دس یا بارہ برس کا تھا اور اسلام آباد میں اپنی خالہ کے ہاں مقیم تھا۔ اس عمر میں کچھ بچوں کو خاص طرح کے خیال اور خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ والدین دوسری پریشانیوں میں یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میرے اسکول جانے کا وقت ہوجاتا تھا، تو ایک وقت میں تو مجھے اس بات کی عادت ہوگئی تھی کہ گھڑی پر سوئی ان ہندسوں پر کھڑی ہو گی تو میرے والدین نے اس بات پر لڑنا ہے اور مجھے ڈر کے پلنگ کے نیچے گھس جانا ہے۔ اسی چکر میں نقصان معلوم ہے کیا ہوتا ہے؟ بتاتا ہوں۔

اسی چکر میں بچے کی نفسیات اس کو بھاگنے کے راستے دکھاتی ہے، اس کو پیار ڈھونڈنے کے نئے نئے راستوں سے متعارف کرواتی ہے۔ وہی پیار کیوں نا اس کو اپنے کزن کی باہوں میں بیٹھ کر ہی مل رہا ہو۔ سہیل ایاز تک پہنچ گئے؟ مزید آگے بڑھیئے، وہی چوبیس پچیس سالا کزن ایک روز اس بچے کا ریپ کرتا ہے اور اس کو منہ بند رکھنے کی تلقین کرتا ہے، اور پھر اسی کو اپنا معمول بنا لیتا ہے.” بطور صحافی میں ناموں اور کرداروں کو مبہم رکھنے پر مجبور ہوں، یہ کہانی مجھے دو سال قبل پتہ چلتی ہے اور بس نقش ہو جاتی ہے۔ وہ بچہ آج زندگی کی پیچیدگیوں سے خود لڑنے کی کوشش میں ہے اور معاشرے کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ ہم جنس پرست ہونا اور ان حالات سے گزرنا اس کی غلطی نا تھی، ہاں مگر سہیل ایاز جیسے کرداروں کا بے نقاب ہونا خوش آئند بات ہے۔ وہ اس روز کے انتظار میں ہے کہ اس کے والدین سمیت ایسے بچوں کے والدین ان بچوں کو خوشی خوشی تسلیم کریں اور ان کی شناخت کو ان کا جرم نا بننے دیں، اس کے لیے والدین کو پہلا قدم لینا ہوگ۔ بچوں کو نہیں، سہیل ایازوں کے ہاتھ باندھنا ہونگے۔

یہی بنیاد زینب بیٹی کے ریپ اور قتل کے کیس میں رکھی جانی چاہیئے تھی مگر افسوس کہ ہمیں معاملے کی بنیاد تک پہنچنے سے زیادہ عمران کو پھانسی دلوانا اہم لگ۔
میری اس میں تب بھی اور اب بھی یہی رائے ہے کہ یہ ایک نفسیاتی مرض ہے جس کے حل تک پہنچنے کی کوششوں پر توجہ مصر ہونی چاہیے۔ میں ریاست امریکہ اور یورپی ریاستوں کی پولیس کے اداروں کو اس سلسلے میں آئیڈیل رکھتا ہوں کہ وہاں پر کیس کی ہینڈلنگ میں صرف پولیس نہیں، بلکہ تمام شراکت دار شامل ہوتے ہیں۔

 پاکستان میں بھی، میری رائے میں، ایسے کیسز کو سائینسی بنیادوں پر زیادہ دیکھنا چاہیے، اسی طرح ہم ایسے جرائم کی جڑ تک پہنچ سکیں گے اور اس طرح کے مجرموں کے مرض تک پہنچ کر، ان کے قید کے دورانیے میں ان کا علاج کر سکیں گے۔ یا یہ نہیں تو بچوں کے لیئے احتیاطی تدابیر اور والدین کے فرائض، معاشرے کو ایسے کیسز کو لے کر ذمہ داریوں کے حوالے سے آگاہی کی مہم تو چلائی ہی جاسکتی ہے۔

جب میں اپنے ملک کی طرف نگاہ کرتا ہوں تو افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا، کیونکہ پچھلے ہی دنوں کی خبر ہے، یا کہیں مذاق ہے کہ پختونخواہ میں بچوں کے ساتھ جنسی ہراسگی اور زیادتی کے کیسز میں بچوں اور بچیوں کی تعداد تقریباً ایک ہی ہے۔

اب اس کے حل کی بات آئی تو بچیوں کے لیے برقع لازم کر کے بات کو دبانے کی کوشش کی گئی، معاملہ دبتا کہاں تھا، سوشل میڈیا نے پختونخواہ حکومت کے اس فیصلے پر خوب دھول اڑائی، کم از کم یہ بات تو طے ہے کہ اب عام فہم بھی سائنسی اور عملی اقدامات کی طرف مائل ہے، عام ذہن سوچتا ہے، اس کو سمجھ آتی ہے کہ اس معاملے کا حل صرف بچیوں کو برقع پہنا دینے میں نہیں ہے بلکہ   سائنسی اور انتظامی بنیادوں پر حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے ٹھوس حل کرنے کی  ضرورت ہے۔  یہ معاملہ بچوں کے ساتھ جنسی ہوس پوری کرنے والوں، جن کو انگریزی میں پیڈوفائل کہتے ہیں سے متعلق ذہنی پیچیدگیوں کو حل کرنے سے متعلق ہے۔ ان کو سزا دے دینے سے معاملہ حل نہیں ہونا، ہونا ہوتا تو زینب بیٹی کے قاقل عمران کو پھانسی ہوچکی، اس سلسلے کو تو رُک جانا چاہیے تھا نا؟ نہیں رکا، تو معاملہ سمجھنے کی کوشش کریں۔

میں نے صرف خیبر پختونخواہ کا ذکر کیا، غلط ہے. میرے ایک ساتھی نے چار برس پہلے ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا "ریپ گڑھ” یہ دراصل مظفر گڑھ کے علاقے میں بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کے حوالے سے کہانیوں پر مشتمل تھا۔ یہ بات آج بھی ہر زبان پر ہے کہ وہاں سے تعلق رکھنے والا ہر دوسرا یا تیسرا بچہ اس گندے عمل سے گزر چکا ہے۔ اب تو اس بات کو اتنا نارمل سمجھا جانے لگا ہے کہ وہاں کے لوگوں سے آپ چائے کی میز پر بیٹھ کر ہی کئی کہانیاں نکلوا سکتے ہیں۔ سو یہ معاملات کسی ایک علاقے کے لوگوں کے ساتھ نہیں بلکہ کہیں بھی ہوسکتے ہیں مگر بات صرف فوکس کی ہے۔ یا پھر اس کو اس طرح سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ کچھ تو ایک عرصے سے ہورہا ہے، آہستہ آہستہ منظر عام پر آرہا ہے اور ایکسپوژ ہورہا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔

یہ بات صرف پاکستان سے متعلق جُڑی برائیوں تک محدود نہیں ہے۔ پیڈوفائل ایک ایسی سوچ بنتی جا رہی ہے جس کو ہم جنس پرستی کے درخت تلے لانے اور نیچرل ہونے تک کو قبولیت دینے کی عالمی کوششیں بھی قابل ذکر ہیں. پاکستان میں بھی ایسے بہت سے اذہان اس مقصد کے لیئے کام کر رہے ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اس عمل کو ہم ایک نارمل عمل سمجھیں اور سوال نا اٹھائیں. مطلب یہ کہ یہ عمل عین انسانی حقوق کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔  معذرت کے ساتھ، ایسی بیمار سوچوں کو پاکستان تو کیا کہیں بھی قبولیت نہیں ملنی چاہیے، چاہے وہ خود کو انسانی حقوق کا کتنا ہی بڑا علمبردار کیوں نا گردانیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی، اس کی ویڈیوز بنانا، یا کسی اور طرح سے ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم رکھنے کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر ان کو ہراساں کرنا، ان کو ڈرانا یا دھمکانا، پاکستان میں قانوناً جُرم ہے جس میں ایف آئی اے جیسے ادارے آپ کی مدد کرسکتے ہیں.

کچھ معاملات پر قوانین کی پیچیدگیاں ضرور آتی ہیں، کیسز کو سمجھتے ہوئے قوانین ویسے کارآمد ثابت نہیں بھی ہوتے، اس کے لیئے ہمارے ہاں بہت سی این جی اوز کام کرتی ہیں جن میں ڈیجٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سفارشات اور قوانین میں ترامیم کے لیئے مثبت کام قابل ذکر ہے. میرے خیال میں ،والدین، اور معاشرے کے عام اذہان، جذباتی نا ہوا کریں، ایسے معاملات کو صحیح طور ڈیل کرنے کی طرف اپنی سوچ اور ارد گرد کے لوگوں کو آگاہی دے کر اپنا فرض ادا کریں. اور اس بات کو کبھی نا بھولیے گا، آپ کے گھر میں ایک عدد سہیل ایاز ضرور ہو گا، اپنے بچے کو ہر طرح سے قبول کریں اور ایسے کرداروں سے بچا کر رکھیں۔

اسی موضوع سے متعلق ایک خاتون نے کچھ ہی عرصہ پہلے ہم سب ویب سائٹ پر کالم لکھا تھا۔ شاید ان کی اپنی کہانی تھی یا کہ کسی اور کی، مگر کہانی یہ تھی کہ ایک خاتون جو اپنےسسرال میں اپنے بچوں کو دوسرے بڑے لڑکوں سے بچانے کی کوشش کرتی ہے تو سسرال والے اس کے خلاف ہوجاتے ہیں اور الٹا اسی عورت پر الزام لگا دیئے جاتے ہیں۔ یہاں ان خاتون نے بہت ہی سنجیدہ مسئلے پر آواز بلند کی تھی اور وہ یہ تھی کہ اس بات کو تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا؟ تسلیم نا کریں تو معاملہ زینب قتل جیسے کیسز تک پہنچتا ہے، اور یہ ہماری معاشرتی بے حسی ہے کہ ہم اس کو پھر بھی قبول نہیں کرتے کہ ایسے کردار آپ اور میں یا ہم میں سے ہی ہیں جو بعد میں سہیل ایاز بھی بن سکتے ہیں . پہلا قدم قبول کرنا ہی ہے، پھر آئیں گے کہ اس کا حل بھی خود ہی کرنا ہے.

Tags: ziadtبچوں سے زیادتی کے کیسز
Previous Post

جی کا جانا ٹہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا

Next Post

کوک سٹوڈیو میں علی سیٹھی کی کاوش پر سوشل میڈیا صارفین کا ملا جلا ردِ عمل

سلمان درّانی

سلمان درّانی

سلمان درانی لاہور میں مقیم صحافی ہیں۔ بیشتر قومی اخبارات، اور آن لائن آؤٹ لیٹس پر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل @durraniviews ہے۔

Related Posts

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

by عمر اظہر بھٹی
اگست 13, 2022
0

ساری بات پیسے، طاقت اور اپنے مفاد کی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور اے آر وائے کی حالیہ محبت کی داستان کے...

قوم کو بے وقوف بنانے کیلئے بیرونی سازش کا چورن اور غلامی سے آزادی کے نعرے

قوم کو بے وقوف بنانے کیلئے بیرونی سازش کا چورن اور غلامی سے آزادی کے نعرے

by ذیشان ملک
اگست 13, 2022
0

مسلم لیگ ن نے 2013 میں ان گنت مشکلات، بحرانوں اور مسائل میں گھرے وطن عزیز کی کمان سنبھالی تو یہ کوئی...

Load More
Next Post
کوک سٹوڈیو میں علی سیٹھی کی کاوش پر سوشل میڈیا صارفین کا ملا جلا ردِ عمل

کوک سٹوڈیو میں علی سیٹھی کی کاوش پر سوشل میڈیا صارفین کا ملا جلا ردِ عمل

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

by عمر اظہر بھٹی
اگست 13, 2022
0

...

"آپ آزاد ہیں”، نوجوان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کو واپس لیں

"آپ آزاد ہیں”، نوجوان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کو واپس لیں

by عرفان رضا
اگست 13, 2022
0

...

سوات پر عسکریت پسندوں کے سائے: کیا جنت نظیر وادی سوات ایک بار پھر کشیدگی کی جانب گامزن ہے؟

سوات پر عسکریت پسندوں کے سائے: کیا جنت نظیر وادی سوات ایک بار پھر کشیدگی کی جانب گامزن ہے؟

by عبداللہ مومند
اگست 13, 2022
0

...

Salman Iqbal

وہ 5 کیسز جن میں ARY کو برطانیہ میں پراپیگنڈا اور ہتک عزت کا مجرم ٹھہرایا گیا

by نیا دور
اگست 10, 2022
0

...

Asad Durrani

شہباز شریف کا ہاتھ عوام کی نبض پر نہیں تھا

by لیفٹینٹ جنرل (ر) اسد درانی
اگست 6, 2022
0

...

میگزین

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

by عبداللہ مومند
اگست 8, 2022
0

...

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

by حسن نقوی
اگست 8, 2022
0

...

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

by بشیر ریاض
جولائی 11, 2022
0

...

Abdul Sattar Tari

عبدالستار تاری – جس کے پائے کا طبلہ نواز آج دنیا میں موجود نہیں

by محمد شہزاد
جولائی 7, 2022
1

...

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,740
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

Naya Daur Urdu

27 minutes ago

Naya Daur Urdu
'Neutrals' have had enough. They have given up their neutrality. Not to fix Imran but to save their institution. Shahbaz Gill is the first episode. Now let's see how 'un-neutral' they will become and how many of Imran Khan's aides will stick with him to the end, writes Saleem Safi. ... See MoreSee Less

Video

View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

Naya Daur Urdu

58 minutes ago

Naya Daur Urdu
شہباز گل کا بیپر کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ البتہ 15 منٹ کا بیپر ایک نیا ریکارڈ ہے جس میں نہ تو شہباز گل کو روکا گیا، نہ ہی انہیں کسی قسم کی مداخلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اے آر وائے نے ان کی لغو باتوں کو روکنے کے لئے تاخیری میکنزم کا بھی استعمال نہیں کیا۔ اگر ہم نومبر 2021 کے بعد سے اے آر وائے کی ٹرانسمیشن دیکھیں تو یہ واضح ہے کہ اس نے اپنا اثر و رسوخ اداروں پر دباؤ ڈالنے کے لئے استعمال کیا۔ ... See MoreSee Less

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

urdu.nayadaur.tv

ساری بات پیسے، طاقت اور اپنے مفاد کی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور اے آر وائے کی حالیہ محبت کی داستان کے پیچھے نہ ...
View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In