جب شعیب اختر اور دانش کنیریا نے 50 منٹ میں انگلینڈ کے 8 آؤٹ کر دیے

یہ 2005 کی پاکستان اور انگلینڈ کی سیریز تھی۔ انگلینڈ 18 برس بعد ایشز جیتا تھا۔ کئی برس کی آسٹریلوی حکمرانی کے بعد بالآخر انگلینڈ کو اینڈریو فلنٹاف، سائمن جونز، میتھیو ہاگرڈ اور سٹیو ہارمیسن کی صورت ایک ایسی باؤلنگ لائن اپ میسر آ گئی تھی جو کسی بھی بیٹنگ لائن کا تیا پانچا کر سکتی تھی۔ اس ایشز میں انگلینڈ کے گیندبازوں نے ریورس سوئنگ کا بھرپور استعمال کیا تھا اور اب برطانوی پنڈت جو کسی زمانے میں اسے بال ٹیمپرنگ کہا کرتے تھے، اب ایک آرٹ ماننے لگے تھے۔ یہ تھے وہ حالات جن میں انگلینڈ کی ٹیم پاکستان پہنچ تھی۔ 2000 میں دونوں ٹیموں کے مابین آخری سیریز کی تلخ یادیں ابھی بھی پاکستان کرکٹ شائقین کے ذہنوں میں تازہ تھیں کہ جب ٹیسٹ میچ کے دوران رات کے اندھیرے میں لائٹس جلا کر میچ جاری رکھا گیا تھا اور انگلینڈ کو ہدف تک پہنچنے کا بھرپور موقع دیا گیا تھا۔
پہلے ٹیسٹ میں پاکستان نے انگلینڈ کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد 22 رنز سے شکست دی۔ اس کے بعد پاکستان کی ٹیم انگلینڈ پر چڑھ گئی۔ دوسرا ٹیسٹ ڈرا ہوا۔ اور انگلینڈ کو سیریز بچانے کے لئے تیسرا ٹیسٹ لازمی جیتنا ہی تھا۔


ٹاس جیت کر انگلینڈ نے پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی شروعات بہترین تھی۔ کپتان مائیکل وان اور مارکس ٹریسکوتھک نے اننگز کا آغاز 101 رنز کی پارٹنرشپ سے کیا جسے بالآخر آل راؤنڈر شعیب ملک نے توڑ ہی ڈالا لیکن تب تک مائیکل وان 91 گیندوں میں 58 رنز کر کے انگلینڈ کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کر چکے تھے۔ لیکن ایئن بیل کو زیادہ دیر پنپنے کا موقع نہیں ملا اور شعیب ملک نے انہیں صرف 4 رنز کے انفرادی سکور پر ایک مرتبہ پھر محمد یوسف کی مدد سے چلتا کیا۔ اور صرف ایک رن بعد ٹریسکوتھک شعیب ملک ہی کی گیند پر وکٹوں کے عقب میں کامران اکمل کو کیچ پکڑا بیٹھے تو 100 رنز بغیر کسی نقصان کے پورے کرنے والی انگلینڈ کی ٹیم 115 پر اپنے 3 کھلاڑی شعیب ملک کے ہاتھوں گنوا چکی تھی۔ لیکن پھر پال کالنگ ووڈ اور کیون پیٹرسن نے اس اننگز کو سنبھالا دیا اور سکور کو ایک اچھی اوسط سے کھیلتے ہوئے 183 رنز تک لے گئے تھے کہ جب رانا نوید الحسن کی گیند پر پیٹرسن کامران اکمل کے ہاتھوں کیچ آوٹ ہو گئے اور ان کے بعد کوئی بھی کھلاڑی کوئی بڑا کارنامہ نہ دکھا سکا۔ فلنٹاف (12)، گیرنٹ جونز (4) شان اڈل (10) رنز بنا کر ایک ایک کر کے آؤٹ ہوتے چلے گئے۔ اڈل آؤٹ ہوئے تو انگلینڈ کا لیکن سکور 249 رنز تک پہنچ چکا تھا کیونکہ ان تینوں نے مل کر بھلے 26 رنز ہی کیے ہوں، دوسرے اینڈ پر کالنگ ووڈ کھڑے مسلسل رنز سمیٹ رہے تھے۔ انہوں نے یہ سلسلہ 280 رنز تک جاری رکھا جب وہ بالآخر شعیب اختر کے ہاتھوں 96 رنز پر سنچری سے صرف 4 رنز کی دوری پر دانش کنیریا کو کیچ پکڑا گئے۔ دانش کنیریا کا یہ میچ میں پہلا کیچ اور شعیب اختر کی پہلی وکٹ تھی۔ اگلی اننگز میں یہی دونوں مل کر سٹیڈیم میں ایک یادگار تماشہ لگانے والے تھے۔ 8 رنز بعد لائم پلنکٹ نے اپنی وکٹ محمد سمیع کو دی اور پھر پہلی ہی گیند پر ہارمیسن بھی وکٹوں کے عقب میں کامران اکمل کے ہاتھوں محمد سمیع کا شکار ہوئے تو انگلینڈ کی پوری ٹیم 288 رنز پر ڈھیر ہو چکی تھی۔ شعیب ملک نے 3، دانش کنیریا، محمد سمیع اور رانا نوید الحسن نے دو، دو جب کہ شعیب اختر نے ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔


پاکستان کی اننگز کا آغاز پریشان کن تھا کیونکہ پہلے ہی اوور کی آخری گیند پر اوپنر شعیب ملک بغیر کوئی رن بنائے پویلین کو لوٹ چکے تھے۔ عاصم کمال جو کہ ویسے تو مڈل آرڈر بیٹسمین تھے، نہ جانے کیوں اوپر بھیجے گئے اور صرف 5 رنز کر کے انہوں نے بھی وکٹوں کے بالکل سامنے میتھیو ہاگرڈ کی گیند اپنے پیڈ پر کھائی تو پاکستان کا مجموعی سکور 12 تھا جب کہ اس کے دو کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ سلمان بٹ اور محمد یوسف کے درمیان لیکن ایک اچھی پارٹنرشپ نے سکور کو 68 رنز تک پہنچا دیا لیکن اسی سکور پر جب 28 رنز کر کے سلمان بٹ آؤٹ ہوئے تو پاکستان ابھی 220 رنز سے پیچھے تھا۔
لیکن یہاں کپتان انضمام الحق کریز پر آ گئے اور یوسف کے ساتھ ان کی ایک یادگار پارٹنرشپ نے میچ کا نقشہ بدلنا شروع کر دیا۔ وکٹ کے دونوں جانب سے ہی چوکوں اور چھکوں کی برسات جاری تھی لیکن اچانک انضمام کی کلائی پر ہارمیسن کی تیزی سے اٹھتی گیند لگی اور وہ ان فٹ ہو کر گراؤنڈ سے باہر چلے گئے۔ ان کی جگہ حسن رضا نے لی لیکن صرف 21 رنز ہی بنا سکے اور دن کے اختتام پر 185 رنز کے مجموعی سکور پر پاکستان 4 وکٹیں کھو چکا تھا اور ابھی انگلینڈ کو 108 رنز کی برتری حاصل تھی۔


اگلے روز صبح نائٹ واچ مین شعیب اختر نے پہلے تو انگلینڈ کو خوب ناکوں چنے چبوائے۔ 38 رنز کر گئے اور دوسری طرف محمد یوسف مسلسل رنز سمیٹتے رہے۔ پھر کامران اکمل آئے اور انہوں نے مار پیٹ شروع کر دی۔ اس روز پاکستان نے صرف شعیب اختر ہی کی وکٹ کھوئی۔ تیسرے دن کے اختتام پر کامران اکمل 115 رنز پر کھیل رہے تھے تو دوسری طرف یوسف 183 پر ناٹ آؤٹ تھے۔
چوتھے روز پہلے یوسف نے اپنی ڈبل سنچری مکمل کی۔ وہ 223 رنز کر کے آؤٹ ہوئے تو پاکستان کو مشکل صورتحال سے کوسوں دور لے جا چکے تھے۔ اور پھر ان کی جگہ انظمام بیٹنگ کرنے واپس آ گئے۔ ریٹائر ہرٹ ہونے سے پہلے بھی وہ 52 گیندوں پر 35 رنز بنا چکے تھے مگر واپس آ کر تو انظمام کچھ زیادہ ہی غصے میں تھے۔ انگلینڈ یوں بھی ان کا پسندیدہ حریف رہا ہے جس کے خلاف انہوں نے اپنے کریئر کے دوران 5 سنچریز سکور کیں۔ اور چھٹی یہاں کرتے کرتے رہ گئے۔ اس اننگز میں انہوں نے محض 101 گیندوں پر 9 چوکوں اور 2 چھکوں کی مدد سے 97 رنز بنا لیے تھے جب وہ رن آؤٹ ہوئے لیکن ان میں سے ایک ایک چوکا اور چھکا ہیروں سے تولنے کے برابر ہے۔ کامران اکمل آؤٹ ہوئے تو کپتان رانا نوید کے ساتھ انگلینڈ کو جڑے رہے لیکن بالآخر 97 رنز پر ایک تیز رن لینے کی کوشش کی اور رانا نوید کے انکار پر رن آؤٹ ہوئے تو پاکستان 636 رنز کر چکا تھا۔ انظمام نے اننگز ڈکلیئر کی اور انگلینڈ کو بیٹنگ کی دعوت دی تو انگلینڈ کے سامنے 348 رنز کی پہاڑ جیسی لیڈ کھڑی تھی جسے عبور کرنا ہی ممکن دکھائی نہیں دیتا تھا، ٹیسٹ کو جیتنے کی طرف جانا تو ناممکن ہی سمجھا جا سکتا تھا۔


انگلینڈ پہلے ہی انڈر پریشر تھا۔ اور پھر اننگز کی محض دوسری گیند پر شعیب اختر کی تیزی سے اندر آتی گیند کو بائیں ہاتھ کے بلے باز ٹریسکوتھک سمجھ نہ سکے اور LBW آؤٹ دے دیے گئے۔ مائیکل وان نے اپنے مخصوص انداز میں کچھ خوبصورت چوکے دکھائے لیکن پھر وہ بھی شعیب اختر کی ایک سلو ڈلیوری کو وقت سے پہلے کھیل گئے۔ گیند ہوا میں اچھلی اور شعیب اختر نے ہی کیچ کر لی۔ 30 رنز پر مہمان ٹیم اپنے دونوں اوپنر کھو چکی تھی اور پاکستانی باؤلرز فتح کو اب قریب سمجھ رہے تھے۔
ایسے میں پال کالنگ ووڈ جو پہلی اننگز میں 96 رنز کر کے نمایاں رہے تھے، ایئن بیل کے ساتھ آ کر وکٹ پر ایسے جمے کہ کسی صورت ہلنے کا نام نہ لیتے تھے۔ چوتھے روز پاکستان نے دوسری وکٹ چائے کے وقفے سے پہلے حاصل کی تھی۔ غالب خیال تھا کہ قسمت نے ساتھ دیا تو آج ہی ورنہ اگلے روز پہلے سیشن میں پاکستان میچ لپیٹ دے گا۔ لیکن بیل اور کالنگ ووڈ کچھ اور پروگرام بنائے بیٹھے تھے۔ دن کے آخری سیشن میں انگلینڈ نے کوئی وکٹ نہ گنوائی۔ بیل 60 رنز پر ناٹ آؤٹ اور کالنگ ووڈ 37 رنز پر ناٹ آؤٹ اس شام ہوٹل واپس گئے۔ انگلینڈ کا مجموعی سکور 121 تھا۔
اگلی صبح خلافِ توقع پاکستان کے باؤلرز ان دونوں کے سامنے ایک بار پھر بالکل بے بس نظر آئے۔ کالنگ ووڈ بھی اپنی نصف سنچری تک پہنچ گئے جب کہ بیل نے دوسرے اینڈ سے رنز سمیٹنا جاری رکھا۔ تاہم، دونوں کھلاڑی بہت احتیاط سے کھیل رہے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ پورا دن نکالنے کے لئے ان دونوں کو لمبے عرصے تک بیٹنگ کرنا ہوگی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لنچ تک پاکستان ایک بھی مزید وکٹ حاصل نہ کر سکا اور اب نظر آنے لگا کہ شاید انگلینڈ یہ ٹیسٹ ڈرا کرنے میں کامیاب ہو ہی جائے گا۔ اگر ایک سیشن مزید وکٹیں نہ گرتیں تو آخری سیشن میں پاکستانی باؤلر بھی دل چھوڑ دیتے۔
لیکن لنچ کے بعد کرکٹ کے شائقین کو ایسے یادگار 50 منٹ دیکھنے کو ملے جو آج بھی ذہن سے محو نہیں ہوتے۔ انگلینڈ اس وقت 205 رنز کر چکا تھا اور کالنگ ووڈ 80 جب کہ بیل 88 رنز پر ایسے کھیل رہے تھے جیسے کبھی آؤٹ نہیں ہوں گے۔ لیکن پاکستانی باؤلرز ایسے جادو نہ تاریخ میں پہلی بار دکھانے والے تھے اور نہ آخری بار۔ دانش کنیریا کی ایک تیز تر گیند کالنگ ووڈ کے بیٹ کا باہری کنارہ لے کر سلپ میں کھڑے حسن رضا کے ہاتھوں میں گری تو پاکستانی کھلاڑیوں نے بالآخر سکھ کا سانس لیا۔ کپتان انظمام نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ اب جارحانہ فیلڈ کھڑی کر کے انگلینڈ پر دباؤ بڑھانا ہے۔ اس حکمتِ عملی کا فائدہ ہوا اور اگلے ہی اوور میں کنیریا کی ایک اچانک اوپر اٹھتی گیند کو پیٹرسن ٹھیک طرح سے نہ کھیل پائے اور انہوں نے بھی سلپ میں کھڑے حسن رضا کو کیچ دیا تو اس بار کنیریا کا جشن پہلے سے زیادہ پرجوش تھا۔ پیٹرسن ایشز کے ہیرو تھے اور پھر اتنی جلد دوسری وکٹ گرنے کا مطلب تھا کہ اپنا ٹائم آ گیا ہے۔


اگلی گیند فلنٹاف کی پہلی گیند تھی اور کنیریا کی گوگلی ان کے پلے ہی نہیں پڑی۔ بال ٹانگ اور بیٹ کے بیچ میں سے گزرتی ہوئی وکٹوں میں گھسی تو کنیریا کی تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ وہ بھاگتے ہوئے لڑھک کر گرے اور زمین پر لوٹ پوٹ خوشی سے نہال ہو گئے۔ 212 پر 5 وکٹیں گر چکی تھیں۔ ایشز کا ایک اور لیجنڈ پویلین بغیر کوئی رنز کیے پہلی گیند پر لوٹ چکا تھا۔ کپتان نے فتح سونگھ لی تھی۔ دوسرے اینڈ سے شعیب اختر انگلینڈ پر ٹوٹ پڑنے کو بے تاب تھے۔ اگلے اوور کی پہلی گیند ایک شعیب اختر کا ٹریڈمارک سلو یارکر تھا۔ بیل کئی گھنٹوں سے ان گیندوں کا سامنا کر رہے تھے لیکن اب شاید ان کی ہمت بھی ٹوٹ چکی تھی۔ وہ اس گیند کو اپنے پیروں سے باہر نہ رکھ پائے۔ امپائر روڈی کرزن نے انگلی اٹھائی تو 205 پر 2 وکٹ سے 212 پر 6 کا مجموعی سکور انگلینڈ کا منہ چڑا رہا تھا۔ چند رنز نو بال، لیگ بائی کے چوکے اور باہری کناروں کو چھوتی گیندوں کے باؤنڈری پار کرنے سے بنے لیکن پھر گیرنٹ جونز کو امپائر نے غلط آؤٹ دے دیا۔ گیند تیزی سے اندر ضرور آئی تھی لیکن پیڈ پر لگنے سے پہلے ان کے بیٹ سے ٹکرائی تھی۔ مگر جب برا وقت چل رہا ہو تو کوئی چیز ساتھ نہیں دیتی۔ اس وقت ستارہ شعیب اختر کا عروج پر تھا، اور انگلینڈ کے گردش میں تھے۔ تماشائی خوشی سے باولے ہوئے جاتے تھے۔
دانش کنیریا کے اگلے اوور میں کوئی رن نہ بن سکا۔ شعیب اختر اپنے اینڈ سے واپس آئے تو پلنکٹ کو ایک بار پھر اس قابلِ رحم انداز میں مارا کہ ان کی شکل دیکھ کر پاکستانی شائقین کو بھی ترس آ جاتا ہے۔ دنیا کا تیز ترین باؤلر کوئی 100 میٹر سے ایکسپریس ٹرین کی رفتار سے دوڑ کر گیند کرے اور پھر وہ گیند اتنی سست رفتار ہو کہ کسی صورت بیٹسمین تک پہنچ ہی نہ پائے تو اب بتائیے غریب ٹیل اینڈر کیا کرے؟ پلنکٹ نے وکٹوں کے بالکل سامنے گیند پیڈ پر کھائی اور پویلین کی راہ لی تو انگلینڈ 227 رنز پر آٹھویں وکٹ کھو چکا تھا اور اب بس ضابطے کی کارروائی ہی باقی تھی۔ شان اڈل نے کچھ جرات دکھائی اور سکور کو 248 تک لے گئے۔ لیکن پھر بس ان کی بھی بس ہو گئی۔ محمد سمیع کی باہر کی گیند سے چھیڑ خانی کرتے ہوئے انہوں نے سلپ میں کھڑے سلمان بٹ کو کیچ پکڑا دیا۔ اور اگلی گیند پر دانش کنیریا نے ایک اور گوگلی کی۔ اس بار تو فلنٹاف جیسا کوئی مایہ ناز بیٹسمین نہیں، دسویں نمبر کا میتھیو ہاگرڈ ان کا سامنا کر رہا تھا۔ جو یقیناً سامنا نہ کر پایا اور یوں انگلینڈ 43 رنز پر میچ کے آخری دن کے دوسرے سیشن میں پہلے 50 منٹ میں اپنی 8 وکٹیں کھو کر سیریز 2-صفر سے ہار بیٹھا۔ یوسف کو 223 رنز کی شاندار اننگز کے لئے مین آف دی میچ اور انظمام الحق تین ٹیسٹ میچز میں 2 سنچریز اور 3 نصف سنچریوں سے سجے 431 رنز کے ساتھ مین آف دی سیریز قرار پائے جس میں فیصل آباد میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریاں بھی شامل تھیں۔ گو یہ میچ ڈرا ہو گیا تھا۔ شعیب اختر اور دانش کنیریا کے اس یادگار سپیل نے انگلینڈ سے 2000 کی سیریز کے دوران کراچی ٹیسٹ میں ہوئی سبکی کا بدلہ بھی اتار دیا۔