جب شہنشاہ غزل کے سر سے شیشہ ٹوٹا

جب شہنشاہ غزل کے سر سے شیشہ ٹوٹا
 

چھنا ک سے شیشہ ٹوٹنے کی آواز آئی تو گلوکار پرویز مہدی یکدم سہم سے گئے۔خوف زدہ نگاہوں سے اپنے مقابل بیٹھے شہنشاہ غزل مہدی حسن کو دیکھا تو اُن کے چہرے پر حیرانی نے ڈیرے جمائے ہوئے تھے۔ دونوں گلوکار لاہور کے خیابان ہوٹل کے ایک کمرے میں ریاض میں مگن تھے۔ دونوں ہی سُر اور تال میں کھوئے ہوئے تھے۔ پکے راگوں پر ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا جارہا تھا۔ پرویز مہدی کو عام طور پر جب بھی فرصت ملتی، وہ پہلی صورت میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر شہنشاہ غزل کے پاس پہنچ جاتے۔ خواہش تو ان کی یہی رہتی کہ اپنا بیشتر وقت مہدی حسن کے ساتھ گزاریں تاکہ فن گلوکاری کی باریکیوں میں اپنے آپ کو اور ماہر کرسکیں۔

ذکر ہورہا ہے 1966کا۔ جب دنیا بھر میں مہدی حسن کی گلوکاری کا ڈنکا بج رہا تھا۔ گیت چاہے کیسا بھی ہو، مہدی حسن کی گلوکاری انہیں اور ممتاز بنائے جارہی تھی۔ غزل گلوکاری میں مہدی حسن بلند مقام حاصل کرچکے تھے۔ بات کی جائے فلمی گانوں کی تو مہدی حسن کی آواز کا جادو تھا ہی کچھ ایسا کہ ان کا گایا ہوا ہر گانا مقبولیت کی آخری سرحدو ں کو پار کرجاتا۔

شہنشاہ غزل کو گلوکاری کی بنیادی تربیت تو گھر سے ہی ملی تھی۔جنہوں نے خود کو غیر معمولی گلوکار بنانے کے لیے کئی نشیب و فراز دیکھے تھے۔ بھلاوہ کیسے بھول سکتے تھے جب 1953میں انہوں نے کراچی کے ریڈیو پاکستان میں اپنا پہلا آڈیشن دیا۔ مہدی حسن نے کلاسک سے آغاز کیا اور پھر گلوکاری کی ساری اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ریڈیو پروڈیوسر ظفر الحسن کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ مہدی حسن کو وہ گلوکاروں کی کس کیٹگری میں منتخب کریں۔ جبھی انہوں نے اپنے سینئر طاہر شاہ صاحب کو بلایا۔ جنہوں نے ایک بار پھر مہدی حسن کی گلوکاری کو سنا۔ انہیں تعجب بھی ہوا کہ اس قدر کم عمری میں مہدی حسن پکے راگوں کے علاوہ غزل، گیت اور ماہیے بھی کمال مہارت سے گنگنا رہے تھے۔ جس کے بعدمہدی حسن کو اے کلاس کی کٹیگری میں رکھا گیا، لیکن اس ساری مشق میں صبح 10بجے سے آئے مہدی حسن کو شام5بجے گھر جانے کی اجازت ملی، کیونکہ اس عرصے میں ان کا طویل آڈیشن جو ہورہا تھا۔

کمرے میں چند لمحوں کی خاموشی طاری ہوگئی۔ چند لمحوں پہلے کی بات ہے کہ جب پرویز مہدی سے کوئی سُر نہیں لگ رہا تھا۔ جبھی شہنشاہ غزل مہدی حسن خود وہ سُر لگا کر ان کو ریاض کرارہے تھے اور یہ کوشش پچھلے کئی منٹوں سے جاری تھی، اس ریاض میں ایک وقت وہ بھی آیا جب دونوں سُر پر جا کر کھڑے ہوئے، مہدی حسن نے ایسا سُر ملایا کہ اچانک ہی انہوں نے چھناک کی یہ آواز سنی تھی۔ایسی آواز جیسے کوئی شیشہ ٹوٹ گیا ہو، دونوں نے نگاہیں اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا تو کوئی دس بارہ فٹ کے فاصلے پر میز پر ٹوٹا ہوا گلاس پایا۔جس کے بچے کچے حصے سے پانی قالین پر بہہ رہا تھا۔ دونوں کو حیرت ہوئی، دراصل شہنشاہ غزل کے سُر ایسے جا ملے کہ گلاس ہی ٹوٹ کر بکھر گیا۔ پرویز مہدی نے حیرانی سے شہنشاہ غزل سے دریافت کیا کہ خاں صاحب آخر یہ کیا ماجرہ ہے، تب مہدی حسن نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ دراصل یہ سُر کی طاقت ہے کہ ان کے ارتعاش سے گلاس ٹوٹ گیا۔ پرویز مہدی نے تو فرط جذبات میں مہدی حسن کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ شہنشاہ غزل مہدی حسن کا ماننا تھا کہ فریکوئنسی میں چھپے راز سے واقفیت حاصل کرلی جائے تو بڑے سے بڑے قلعے کو اڑایا جاسکتا ہے۔ سُر میں اتنی طاقت ہے کہ اُن کا موثر استعمال کرکے دھماکہ تک کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ پانی میں آگ بھی لگائی جاسکتی ہے۔ غالباً اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’شعلہ سا لپک جائے آواز تو دیکھو۔‘