جب خالو خلیل نے بکرا خریدا: 'خالو نے جب تھکانے کے بعد اپنی رینج بتائی تو ہم سٹپٹائے'

جب خالو خلیل نے بکرا خریدا: 'خالو نے جب تھکانے کے بعد اپنی رینج بتائی تو ہم سٹپٹائے'
خالو خلیل ستارہ نواز کا بکرا خریدنے کا تجربہ بھی عجیب و غریب رہا ۔ فرمائش کربیٹھے کہ خود تو بکرا خرید لیا اور وہ بھی اتنا اچھا ، پھر کیوں نہ ہم اپنی خدمات ان کے لیے وقف کرنے کی جستجو نہیں کرتے ، ابتدا میں ہمارا خیال تھا کہ جس آسانی اور سہولت کے ساتھ ہم اپنا بکرا خرید لائے تھے ، عین ممکن ہے کہ خالو خلیل کا بھی بکرا ان کے در پر لے آئیں۔ یہی سوچ کر حامی بھرلی ۔
مویشی منڈی گھر سے خاصی دور تھی مگر خالو خلیل نے پیدل چلنے کے اس قدر فائدے بتائے کہ ہم یہ نہ کہہ سکے کہ کوئی سواری کرلیں۔ رم جھم برسات کا خطرہ تھا ، جبھی خالو نے چھتری ہاتھوں میں تھامی اور خراماں خراماں مویشی منڈی کی طرف بڑھنے لگے ۔ سفر کے دوران وہ اپنی جوانی کے قصے بتا رہے تھے ، جن کو سننے کے بعد ہمیں کبھی لگتا وہ ارتغرل ہیں تو کبھی کمانڈو ، تو کبھی احساس ہوتا کہ کوئی جنگجو اور کبھی شیخ چلی کی یاد آجاتی ، کہنے لگے کہ بکرے پر ہاتھ رکھ کر بتاسکتے ہیں کہ وہ کتنے دانت کا ہے ، دل تو چاہا ہے کہ اپنے او پر بھی ہاتھ رکھ کر اُن سے معلوم کریں کہ ہمارے کتنے دانت ہے ۔
خالو خلیل کے من گھڑت قصوں اور مسلسل پیدل چل کر جہاں ہمارا ذہن تھکا وہیں پیر بھی ، جبھی ہانپتے کانپتے ہوئے سڑک کے ایک کنارے بیٹھ گئے ۔ جبکہ خالو ہمارے سر پر سوار رہے ۔ کہنے لگے ’میاں کیسے نوجوان ہو ، جو ابھی سے ہانپ گئے ، تمہاری عمر میں تو ہم پور ا شہر پیدل گھوم آتے تھے ۔ ‘ ہم نے غضب ناک نگاہوں سے خالو کو دیکھا جو چھتری کھول کر قریبی گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑے تھے ۔ خالو خلیل یقینی طور پر وہ واحد شخص ہوں گے جنہوں نے تہمت میں بھی جیب لگا رکھی تھی ، جس سے انہوں نے میلی سی چھالیہ کی پڑیانکالی اور پھانک بیٹھے ۔ہم نے جان کی امان پا کر لرزتے ہونٹوں سے کہا ’ خالو تھک گئے ہیں، پانی کی بوتل خرید دیں۔‘ بس جی پھر کیا تھا ، منرل کمپینز کی شان میں ایسی گستاخی کی کہ اگر وہ سن لیں تو اپنا کاروبار لپیٹ کر کوئی اور ذریعہ معاش ڈھونڈ لیں۔۔ایسے میں ہم نے کسی دانشور کا قول سنایا کہ جب بھی خریداری کے لیے جاو ¿ ، پیٹ اور جیب کو بھر کر ہی رخ کرو۔‘ جس پر جواب ملا ’ ہاں ناں میں نے خوب اچھا خاصا ناشتہ کیا ہے ۔ تم فکر کیوں کرتے ہو ۔‘ یعنی یہ طے ہوا کہ ہم بھوکے پیاسے ہی منڈی جائیںتو ایسا ہی صحیح ۔
منڈی سے کچھ فاصلے پر رحمت کا فرشتہ ہی کہیں گے کہ ایک خالی سوزوکی والا قریب آکر رکا ،جو ادھیڑ عمر خالو کو دیکھ کر لفٹ کی دعوت دے بیٹھا ۔ ہم تو اچک کر فوراً اس خیال سے بیٹھ گئے کہ کہیں اس پیش کش کو خالو نہ ٹھکرادیں۔ ہمیں بیٹھتے دیکھ کر خالو بھی بادل نخواستہ اس میں سوار ہوگئے ۔مویشی منڈی میں داخل ہوتے ہی ، خالو خلیل نے ہمارے کان میں سرگوشی کی کہ ’ اگر مجھے کوئی بکرا پسند آئے تواس کا اظہار بیوپاری پر مت کرنا ، ورنہ وہ قیمت پر اڑ ا رہے گا ۔ ‘ دوسرا فرمان یہ جاری ہوا کہ ’ اپنی ڈیمانڈ ، بیوپاری کے کان میں کہنا ، ورنہ آس پاس کھڑے دوسرے خریدار زیادہ رقم کی بولی لگا کر ہمارا سودا خراب نہ کردیں۔ ‘
ہم نے کہا ’ خالو وہ تو ٹھیک ہے، آپ کا ماسک کہاں ہے ؟‘ فرمانے لگے کہ کورونا ویکسی نیشن نے ڈوز مکمل کرلی ، اب کوئی ماسک واسک کی ضرورت نہیں۔‘ سر جھکا کر ہم نے اپنا ماسک تو لگا لیا ۔
خالو خلیل کو لینا تو بکرا تھا لیکن موصوف گائے اور اونٹوں کے خیمے میں جا کر بار بار کھڑے ہوجاتے ۔ ہم نے کہا ’ خالو بکرا ڈھونڈیں ، کیوں وقت برباد کررہے ہیں ۔‘ فرمان ہوا کہ ’ گائے ، بیلوں اور اونٹوں کی قیمت سے ہی بکرے کے داموں کا تخمینہ لگا رہا ہوں۔ ‘ سفر کی تھکاوٹ کے بعد ہماری توہمت ہی جواب دے گئی تھی ۔ سچ پوچھیں تو ہم انتہائی بے دلی کے ساتھ خالو کے بکرے کی تلاش کررہے تھے ۔ اب یہ کام خالو خلیل کررہے تھے ، کوئی بیوپاری جب بکرے کی قیمت بتاتا تو پہلا سوال ہوتا ’ جوڑی کے بتا رہے ہو ؟ ‘ جس پر ہماری طرح بیوپاری بھی آگ بگولہ ہو کر کہتا ’ جاو ¿ بابا ۔۔ متھا نہ خراب کرو ۔‘ پھر خالو خلیل کسی ’ سیانے ‘ کی طرح بتائی ہوئی رقم کا نصف بول کر یہ انتظار بھی کرتے کہ بیوپاری کوئی جواب دے گا ۔ جو منہ پھیر کر کھڑا ہوجاتا ۔
پوری مویشی منڈی کی سیر کراتے کراتے جب خالو خلیل بھی تھک گئے تو ہم نے دریافت کیا کہ ’ خالو آپ کی رینج کتنی ہے ؟ ‘ جو انہوں نے جب بتائی تو ہمیں افسوس ہوا کہ کاش ہم یہ سوال گھر سے نکلنے سے پہلے معلوم کرلیتے ۔ خون کے گھونٹ پینے کے بعد ہم نے تھکے ہوئے جواری کی طرح خالو سے التجا کی کہ گلا خشک ہوگیا پانی آپ نے پلایا نہیں کچھ ٹھنڈا مشروب ہی پلا دیں ۔ ‘ جس پر خالو خلیل ستارہ نواز کو حفظان صحت کے سارے اصول یاد آگئے ۔ لیکچر دینا شروع ہوئے تو ہم نے صبر کے گھونٹ پی کر ہی گزار کیا ۔
خالو بھی عجیب تھے ، چھتری کی نوک ، بکرے کی کمر میں گاڑھ کر یہ معلوم کرتے کہ بکرا کتنا صحت مند ہے ۔ ایک ایسی ہی جسارت پر سرپھرے بکرے نے خالو کے ایسی کک ماری کہ وہ رجنی کانت کی طرح چار فٹ دور جاگرے ۔ اس تنبیہ کے باوجود خالو اور ان کی چھتری یہ جائزہ لیتی رہی کہ بکرا کھاتے پیتے گھرانے کا ہے بھی کہ نہیں۔
نجانے ہماری کون سی نیکی تھی ، جو ایک بیوپار ی ، خالو خلیل کی مطلوبہ رقم پر بکرے نما چیز دینے پر آمادہ ہوگیا ۔یقین جانیں دل چاہ رہا تھا کہ اس بکرے کی بلائیں لیں ، بھنگڑے اور لڈی ڈالیں کیونکہ اس نے بہت بڑی آزمائش سے ہمیں باہر نکالا تھا ۔ خالو خلیل بھی سینہ تان کر ایسے چل رہے تھے ، جیسے ارتغرل کسی محاذ میں سرخرو ہو کر آتا تھا ۔ مویشی منڈی سے باہر نکلنے کے بعد ہم نے اِدھر اُدھر نگاہیں گھما کر کسی کرائے کی سواری کو تلاش کرنا شروع کیا اور ہمارے دل او ر دماغ کے اس خیال کو خالو خلیل نے جیسے پڑھ لیا ۔ گویا ہوئے ’ تم کیا سواری ڈھونڈ رہے ہو ؟ اگر ہاں تو چھوڑو ۔۔ پیدل ہی چلتے ہیں ۔ ‘ ہم نے یہاں تک پیش کش کی کرایہ ہم بھر دیں گے لیکن خالو راضی نہ ہوئے بلکہ یہی کہتے رہے کہ اچھا ہے بکرے کی ’ ٹرائی ‘ ہوجائے گی ۔ چلنے میں انیس بیس دکھائی تو واپس کرنے میں آسانی ہوگی ۔ ‘ اس اعلان کے بعد ہماری امیدوں کا تاج محل پلک جھپکتے میں زمین بوس ہوگیا ۔
اب یہ عالم تھا کہ ہم بکرے کی رسی تھامے آگے تھے اور خالو کی مانیٹرنگ کرتی آنکھیں بکرے پر ۔ جو خالو کی طرح ہم سے کس جنم کا بدلہ لے رہا تھا کہ دو قدم چلنے کے بعداکڑ کر ایسے کھڑا ہوجاتا کہ جیسے کسی زمانے میں انضمام الحق دوسرے رن کی کوشش کو چھوڑ دیتے اور مخالف بلے باز آوازیں ہی دیتا رہ جاتا ۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوتے ۔یقین جانیں جتنا ہمیں منڈی تک رسائی حاصل کرنے میں تھکن ہوئی تھی اُس سے چار گناہ بکرے کو گھر تک لے جانے میں ہوئی ۔
محلے میں انٹری ماری تو ہر کسی نے خالوخلیل سے زیادہ بکرے کا استقبال کیا ، ایسے میں کسی نصیب ِدشمناں نے یہ اڑا دی کہ خالو تو ’ کانا ‘ بکرا لے آئے ، اس کی تو قربانی ہی نہیں ہوگی ۔اس انکشاف پر خالو خلیل ستارہ نواز بکرے کے منہ کے سامنے آکر بار بار کھڑے ہوئے اور اتنی غور سے مشاہدہ کرنے لگے جیسے کوئی راہ گیر ، کسی حسینہ کو دیکھتا ہے تو اس کے دیدے اُس پر سے ہٹتے ہی نہیں۔ یقین دلایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ، لیکن وہ ماننے کو تیار نہ ہوئے ۔ فرمانے لگے ’چلو واپس کرکے آتے ہیں ۔ ‘ اب کی بار تو ہمارا پیمانہ لبریز ہوگیا ، دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا ’ کچھ بھی ہوجائے ، ہم تو کم از کم نہیں جائیں گے ۔ ‘ منہ بنا کر وہ بیٹھ گئے ۔ اب آتے جاتے لوگوں کو یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ’ میاں ایسا بکرا ملا جس کی آنکھیں تک نہیں ملتیں۔