'اگر شہید ہو جاتا تو بہتر تھا کیونکہ بچوں کو تو کچھ مل جاتا'

'اگر شہید ہو جاتا تو بہتر تھا کیونکہ بچوں کو تو کچھ مل جاتا'
"جب بے خبری میں کوئی تیز بات کرتا ہے، چیختا چلاتا ہے یا کوئی پٹاخہ سا پھٹتا تو میں فوراً چونک جاتا ہوں اور مجھ پر وحشت اور خوف طاری ہو جاتا ہے۔ میری یہ کیفیت کئی سالوں سے ہے، میں نے سمجھا کہ شاید کچھ سالوں کے بعد یہ کیفیت ختم ہو جائے گی لیکن اب تو لگتا ہے یہ حالت ساری زندگی میرے ساتھ ہی رہے گی۔

جب دھماکہ ہوا تو میں قریباً زمین سے سات آٹھ فٹ اوپر کی طرف اچھل گیا اور پھر زور سے زمین پر گر پڑا۔ مجھے کچھ وقت کے لئے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے جسم کا کوئی بھی حصہ سالم حالت میں نہیں بچا ہے۔ اس وقت سب سے پہلے مجھے اپنے بچے یاد آئے اور ذہن میں طرح طرح کے سوالات گھومنے لگے کہ اگر میں نہیں رہا تو میرے بچے کیا کریں گے، ان کا کیا بنےگا۔ لیکن پھر میں نے خود کو تھوڑی سی تسلی دی اور اپنے آپ سے گویا ہوا کہ نہیں ابھی تو میرے بچے جوان ہو گئے ہیں، مجھے زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں، اگر میں شہید ہو بھی گیا تو وہ میرے بغیر زندگی گزار سکتے ہیں۔ دھماکے کےساتھ گرد و غبار اٹھنے کی وجہ سے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا، ڈی ایس پی صاحب نے مجھے آواز دی۔ میں اتنا تو ہوش میں تھا، اس کی آواز میں سن رہا تھا، لیکن اندھیرے کی وجہ سے وہ مجھے نظر آ رہے تھے۔ اس دن ہمیں افسران کی طرف سے کہا گیا تھا کہ تھانے کے اندر اور باہر ہر آنے جانے والے پر کڑی نظر رکھی جائے لیکن یہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس روز دہشت گردوں کی طرف سے تھانے پر حملے کا خطرہ تھا۔ اس ضمن میں ہمیں لاعلم رکھا گیا تھا۔"

یہ الفاظ پشاور کے سی آئی اے تھانے کے خصوصی تفتیشی مرکز (ایس آئی یو) کے ہیڈ کانسٹیبل سید علی شاہ کے ہیں جو ان دنوں مرکز میں گارڈز کمانڈر کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

سید علی شاہ
سید علی شاہ


43 سالہ سید علی شاہ کا تعلق ضلع شانگلہ کے علاقے کروڑہ سے ہے لیکن وہ گذشتہ کئی سالوں سے اہل خانہ سمیت پشاور میں مقیم ہیں۔ وہ محکمہ پولیس میں بحیثیت رنگروٹ بھرتی ہوئے اور آج کل ہیڈ کانسٹیبل کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

سید علی شاہ کے مطابق یہ اکتوبر 2009 کی بات ہے جب پشاور شہر میں ہر طرف ایک جنگ کی کیفیت تھی اور روزانہ پولیس، سکیورٹی اہلکاروں اور عام شہری دھماکوں اور خودکش حملوں میں نشانہ بنائے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس دن ایس آئی یو مرکز پر چھ گارڈز فرائض انجام دے رہے تھے، دو تھانے کے گیٹ کے ساتھ کھڑے تھے، ایک میرے ساتھ اور دیگر محافظ چھت پر ڈیوٹی دے رہے تھے۔ ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ اس دوران اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا۔

دھماکہ اتنا شدید تھا کہ کئی گھنٹوں تک تو میرے کانوں میں شوں شوں اور گونج کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔

انہوں نے کہا کہ گیٹ پر ڈیوٹی دینے والےمحافظ کے جسم کے حصے دھماکے کے ساتھ ہی قریباً سو فٹ تک دور گرے تھے اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا تھا جب کہ میرے ساتھ فرائص سرانجام دینے والے اہلکار بھی مارے گئے تھے، ان کی لاش بھی آگ لگنے کی وجہ سے بری طرح جھلس گئی تھی۔

یہ ایک کار خودکش حملہ تھا اور جونہی حملہ آوار نے گاڑی تھانے کے سامنے روکی تو اس کے چند سیکنڈوں میں دھماکہ ہوا جس میں حملہ آور خود بھی مارا گیا تھا۔

سی آئی اے خصوصی تفتیشی مرکز پشاور شہر کے گنجان آباد علاقے باڑہ گیٹ میں پشاور صدر اور کینٹ کے قریب واقع ہے۔

سی آئی اے مرکز پر ہونے والے خودکش حملے میں مجموعی طورپر تین اہلکاروں سمیت کم سے کم 15 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ مرنے والوں میں بارہ عام شہری بھی شامل تھے۔

سید علی شاہ
سید علی شاہ


سی آئی اے تفتیشی مرکز میں عام طورپر دہشت گردی میں ملوث ملزمان کو لایا جاتا تھا جہاں ان سے تفتیش ہوتی تھی۔ جس وقت مرکز پر حملہ ہوا اس وقت وہاں تین درجن کے قریب ملزمان زیر تفتیش تھے۔

سید علی شاہ کے مطابق 'دھماکہ منگل باغ گروپ کی طرف سے کیا گیا اور مرکز کو نشانہ بنانے کا مقصد یہ تھا کہ وہاں قید سے اپنے ساتھیوں کو چھڑایا جا سکے لیکن اس وہ کامیاب نہیں رہے۔'

پولیس اہلکار نے مزید بتایا کہ 'جس وقت مجھے اسپتال لے جایا جا رہا تھا اس وقت میرے ہوش و حواس تو بحال تھے لیکن مجھے یقین نہیں تھا کہ میں بچ جاؤں گا کیونکہ میں زخموں سے چور چور تھا، میرا دایاں ہاتھ شدید زخموں کی وجہ سے لٹک رہا تھا جب کہ ٹانگیں بھی بری طرح ریزہ ریزہ ہو گئی تھیں جن سے تیزی سے خون بہہ رہا تھا۔'

'میں ایک ماہ، تین دن تک اسپتال میں زیر علاج رہا۔ تاہم، اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد جب گھر واپس آیا تو میری ٹانگوں کے زخم مندمل نہیں ہو رہے تھے جس سے زخم مزید خراب ہو گئے، آخر کار مجھے دوبارہ ICRC اسپتال میں داخل کر دیا گیا جہاں سینیئر ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ چونکہ ان کی ٹانگیں شدید زخموں کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہو چکی ہیں لہٰذا دونوں ٹانگوں کو کاٹنا پڑے گا کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں مرض مزید شدید اور نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ پھر میری دونوں ٹانگوں کو کاٹ دیا گیا اور اس طرح میں مزید چار ماہ تک اسپتال میں داخل رہا۔'

معذور ہونے کے بعد سید علی شاہ نے اب مصنوعی ٹانگیں لگا لی ہیں جن سے نہ صرف اب وہ چل پھر سکتے ہیں بلکہ ہلکا کام بھی کر سکتے ہیں۔ وہ انہی مصنوعی ٹانگوں کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے قریبی مسجد جاتے ہیں جب کہ ضرورت کے وقت موٹر سائیکل بھی چلا سکتے ہیں۔

'میرے علاج پر اچھی خاصی رقم خرچ ہوئی، چونکہ میں برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا دوستوں سے قرضہ لینا پڑا، تاہم محکمہ پولیس کی طرف سے مجھے پانچ لاکھ روپے دیے گئے لیکن حکومت کی طرف سے آج تک کوئی امداد نہیں کی گئی ہے۔ میرا اپنا گھر نہیں ہے۔ قربانی اتنی دی ہے کہ شہید کے درجے سے کم نہیں کیونکہ دونوں ٹانگیں کٹ گئیں، معذور ہوا، میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس سے شہید ہو جاتا تو بہتر تھا کیونکہ بچوں کو تو کچھ مل جاتا۔'

سید علی شاہ کے بقول "جب پولیس شہدا کا دن منایا جاتا ہے تو شہدا کے ورثا اور غازیوں کو پولیس تقریبات میں ضرور بلایا جاتا ہے۔ ہماری قربانیوں کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کیش رقم بھی ملتی ہے۔ میں اپنے محکمے سے مطمئن ہوں لیکن حکومت نے کبھی نہیں پوچھا۔ میرے پانچ بیٹے ہیں جن میں چار بے روزگار ہیں۔ اگر ان میں ایک، دو کو نوکریاں مل جاتیں تو میرے کچھ مسائل تو کم ہو جاتے۔'

سید علی شاہ معذور ہونے کے بعد سے ڈیوٹی پر نہیں جا رہے لیکن ان کی نوکری بدستور برقرار ہے اور انہیں ہر ماہ باقاعدگی سے تنخواہ اور دیگر مراعات مل رہی ہیں۔

خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس اہلکاروں کی قربانیاں اس صوبے کی تاریخ کا ایک سنہرا باب سمجھاتا ہے۔

محکمہ پولیس کی طرف سے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ بیس سالوں کے دوران 1500 سے زائد پولیس اہلکار دہشت گردی اور شدت پسندی کے واقعات میں شہید ہو چکے ہیں۔ شاید خیبر پختونخوا پولیس کی تاریخ میں سب سے مشکل اور کڑا وقت اس وقت دیکھنے میں آیا جب ان کے کئی سینیئر اور ہائی رینکنگ افسران یکے بعد دیگرے خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا نشانہ بنے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سال 2009 سب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوا جب اس سال کے دوران پختونخوا پولیس کے کئی افسران سمیت 209 اہلکار دہشت گردی کے واقعات میں لقمہ اجل بنے۔ یہ ایک ایسا سال تھا جب جنگ زدہ ممالک افغانستان اور عراق کے مقابلے میں پاکستان میں دھماکوں کی تعداد زیادہ تھی۔

گذشتہ بارہ سالوں کے دوران خیبر پختونخوا کے جن سینیئر پولیس افسران نے فرائض کے دوران جان کے نذرانے پیش کیے ان میں دو ایڈیشنل انسپیکٹر جنرلز، دو ڈپٹی انسپیکٹر جنرلز، چھ سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پیز)، ایک ایس ایس پی اور سترہ قائم مقام ایس پیز یا ڈی ایس پیز شامل ہیں۔ اس جنگ میں نچلی سطح کے افسران اور اہلکاروں کی شہادتیں لاتعداد بتائی جاتی ہیں۔ اس فہرست میں  32 انسپکٹرز یا قائم مقام ڈی ایس پیز، 125 سب انسپکٹرز، 85 اے ایس آئیز، 152 ہیڈ کانسٹیبلز اور ایک ہزار سے زیادہ سپاہی یا کانسٹیبل شامل ہیں۔



پولیس افسران کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تین مواقع پر ایسا دیکھنے میں آیا جب فرنٹ لائن پر لڑنے والے اہلکاروں نے فرض کی بجا آواری کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے خودکش حملہ آواروں سے بغل گیر ہو کر اپنی جان قربان کی لیکن حملہ آور کو ہدف تک پہنچنے سے روکے رکھا۔

پشاور پولیس کے بم ڈسپوزل یونٹ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے محدود وسائل کے باوجود بھی قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اس یونٹ کے کئی افسران اور جوانوں نے جدید آلات کے فقدان کے باوجود کبھی فرائض سے کوتاہی نہیں برتی بلکہ بہادری کے ساتھ لڑتے رہے۔

انسپیکٹر حکم خان کا شمار بم ڈسپوزل یونٹ کے بانی اہلکاروں میں ہوتا ہے۔ اس دلیر افسر نے متعدد مواقع پر بم حفاظتی سوٹ پہنے بغیر سینکڑوں بم اور دھماکہ خیز مواد ناکارہ بنائے۔ جس دن وہ شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ اس روز بھی وہ بم سوٹ پہنے بغیر دھماکہ خیز مواد بنانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اپنی جان گنوا بیٹھے۔

حکم خان کا تعلق پشاور شہر کے نواحی علاقے شریکیرہ، متنی سے تھا۔ انہوں نے اس وقت محکمہ پولیس میں نوکری اختیار کی جب افغانستان میں روس کے خلاف 'جہاد' جاری تھا اور پشاور میں بم دھماکوں کے واقعات ایک معمول بن چکے تھے۔

حکم خان کے صاحبزادے اکرم خان بھی محکمہ پولیس میں اے ایس آئی کے عہدے پر فائض ہیں۔ وہ بم ڈسپوزل یونٹ میں اپنے والد کے ماتحت کئی سال کام کر چکے ہیں۔

اکرم خان ولد حکم خان
اکرم خان ولد حکم خان


انہوں نے کہا کہ یہ سمتبر 2012  کی بات ہے۔ صبح کا وقت تھا کہ ان کے والد کی کال آئی اور انہوں نے کہا کہ فلاں گاڑی والے کو کچھ سامان دیا ہے، وہ ان سے لے لو کیونکہ وہ کسی دوسری طرف جا رہے ہیں۔

اکرم خان کے مطابق 'میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں، جمعہ کا دن ہے۔ کیا وہ گھر نہیں آ رہے؟ تو انہوں نے کہا کہ فرنٹیر روڈ پر کسی نے IED دھماکہ خیز مواد نصب کیا ہوا ہے، وہ ڈیفیوز کر کے واپس آتا ہوں۔ میں نے انہیں کہا کہ کسی شاگرد کو کیوں نہیں بھیجتے؟ انہوں نے کہا کہ بس ایک گھنٹے میں آتا ہوں اور پھر کچھ ہی گھنٹوں کے بعد ان کی لاش گھر آئی۔'

اکرم خان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ بم یونٹ میں ڈیوٹی دے چکے تھے۔ ان کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ جب بھی کہیں دھماکہ خیز بم نصب ہوتا تھا تو سب سے پہلے وہ خود اکیلے جایا کرتے تھے، بم کا جائزہ لینے کے بعد پھر وہ دوسرے ٹیم ممبرز کو بلاتے۔ اس دن بھی وہ اکیلے ہی پریشر ککر میں نصب مواد ناکارہ بنا رہے تھے۔ ایک بم ناکارہ بنا چکے تھے۔ دوسرا ڈیفیوز کر رہے تھے کہ اس دوران دھماکہ ہوا جس میں وہ شہید ہوئے۔

حکم خان
حکم خان


انہوں نے کہا کہ جس زمانے میں ان کے والد نے بم ڈسپوزل یونٹ میں شمولیت اختیار کی اس وقت یہاں پشاور میں کوئی بم حفاظتی سوٹ یا دیگر آلات وغیرہ استعمال نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ وہ بغیر حفاظتی لباس کے جان ہتھیلی پر رکھ کر فرائض سر انجام دیا کرتے تھے۔ بعد میں محکمے کی طرف سے بم یونٹ کو کچھ آلات دیے گئے لیکن وہ کوئی زیادہ جدید لباس نہیں ہے بلکہ دستی بم یا چھوٹی نوعیت کے دھماکہ خیز مواد سے حفاظت فراہم کرتا ہے جب کہ وزنی بموں سے حفاظت کرنے والا لباس بہت بھاری ہوتا ہے جس میں بم ناکارہ بنانے جیسے حساس اور خطرناک کام نہیں ہو سکتے۔ اس بھاری لباس کا صرف ایک ہیلمٹ پانچ، چھ کلو وزن پر مشتمل ہوتا ہے۔

اکرم خان کے بقول بم ڈسپوزل یونٹ کے قریباً چودہ اہلکار اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کے والد کی شہادت پر محکمہ پولیس کی طرف سے شہدا پیکج اور پانچ مرلہ پلاٹ دیا گیا جب کہ ان کے ایک چھوٹے بھائی کو پولیس میں نوکری بھی ملی۔ تاہم، وفاقی حکومت کی طرف سے بار بار وعدوں کے باوجود آج تک کوئی چیز نہیں ملی۔

'اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے بڑی گرم جوشی سے اعلان کیا تھا کہ شہید کے بیٹے کو FIA میں نوکری کے علاوہ مرحوم کو ستارہ جرات سے بھی نوازا جائے گا لیکن اس اعلان پر آج تک کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ میں نے والد کی شہادت کے بعد اسلام آباد کے کئی چکر کاٹے، FIA کے ہیڈ کوارٹرز بھی گیا۔ کئی درخواستیں مختلف محکموں میں جمع کرائی گئیں۔ کسی نے کہا کہ وقاقی محتسب کے دفتر میں کیس دائر کر دو لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ الٹا میرا آنے جانے پر اتنا خرچہ ہوا جو میں برداشت نہیں کر سکتا تھا۔'

Hukam Khan
حکم خان


پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے تباہ کن حملے کے بعد ملک میں پہلی مرتبہ سیاسی اور عسکری قیادت کی طرف سے متفقہ طورپر نیشنل ایکشن پلان کے نام سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ایک مربوط منصوبہ بنایا گیا جس کے تحت ملک بھر میں شدت پسند تنظیموں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز کیا گیا۔ سکیورٹی فورسز نے اس وقت کے تمام قبائلی علاقوں میں موجود شدت پسند تنظیموں کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرتے ہوئے انہیں پاکستان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا۔

پاکستان مخالف بیشتر تنظیمیں قبائلی علاقہ چھوڑ سرحد پار افغانستان منتقل ہوئیں جہاں وہ کچھ عرصہ تک خاموش رہیں لیکن دوبارہ منظم ہونے کے بعد پھر سے ضم شدہ اضلاع میں کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس وقت کوئی ایسا علاقہ موجود نہیں جہاں شدت پسند قابض ہوں لیکن ان تنظیموں کے خفیہ سلیپرسیلز بدستور فعال ہیں جہاں سے وقتاً فوقتاً سکیورٹی اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں بیشتر اوقات پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں پر حملے ہوتے ہیں جس کی ذمہ داری بھی قبول کی جاتی ہے۔

شیر عالم خان کا تعلق سوات کے علاقے سلام پور سے ہے۔ وہ 2002 میں رنگروٹ کی حیثیت سے محکمہ پولیس میں بھرتی ہوئے۔ چالیس سالہ شیر عالم کا کہنا کہ اپریل 2007 کی بات ہے جب سوات میں طالبان کی کارروائیاں عروج پر تھیں۔ وہ تھانہ رحیم آباد کی حدود میں اینگرو ڈھرئی کے مقام پر رات کے وقت اپنے ساتھی سمیت پیدل گشت کر رہے تھا کہ اس دوران اچانک پیچھے سے شرپسندوں نے فائرنگ کر دی جس سے ان کا ساتھی سلطان حسین موقع ہی پر شہیدا ہوا جب کہ انہیں جسم کے مختلف حصوں میں تین گولیاں لگیں۔

'ایک گولی گردے اور دوسری کمر میں لگی جب کہ تیسری گولی معدے کے ساتھ بڑی آنت کو کاٹتے ہوئے نکل گئی جس کی وجہ سے وہ ابتدائی طورپر پندرہ دن ہسپتال میں زیر علاج رہا۔ اس دوران بہت تکلیف سے گزرا، میں بڑا پیشاب پاس نہیں کر سکتا تھا۔ پھر مجھے ایک بڑا پائپ لگایا گیا جس سے پیشاب پاس ہوتا تھا۔'

انہوں نے کہا کہ ان کا ایک آپریشن بھی ہوا جس کے لئے پھر سے ہفتہ دس اسپتال میں داخل رہا اور اس دوران اس سے کافی خون بہہ چکا تھا جس سے وہ بہت کمزور ہو گئے تھے۔

'میں تقریباً ایک سال تک بیمار رہا اور اس دوران ڈیوٹی پر نہیں جاتا تھا لیکن مجھے مسلسل تنخواہ مل رہی تھی۔ اب میں نے دوبارہ سے ڈیوٹی جوائن کر لی ہے لیکن گردے میں گولی لگنے کی وجہ سے زیادہ وزن نہیں اٹھا سکتا نہ بھاری کام کر سکتا ہوں، مجھے ہلکی ڈیوٹی دی گئی ہے۔ آج کل جوڑوں کے مرض میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ اب یہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کمزوری کی وجہ سے ہوا ہے یا کوئی اور وجہ ہے لیکن زیادہ دیر پیدل نہیں چل سکتا۔ جوڑوں کے درد کا الگ سے علاج کر رہا ہوں جس کے لئے مہنگی گولیاں استعمال کر رہا ہوں۔'



شیر عالم کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے کے بعد ان کا قریب ڈیڑھ لاکھ روپے کا خرچہ ہوا لیکن محکمہ پولیس کی طرف سے ان کو صرف 50 ہزار روپے دیے گئے۔ تاہم، کبھی کبھار افسران کی طرف سے زخمی پولیس اہلکاروں کے ساتھ نقد امداد کی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں ڈی آئی جی ملاکنڈ کی طرف سے ان کی کچھ مالی مدد کی گئی ہے۔

ان کے بقول سوات میں تیس سے پنتیس کے قریب پولیس اہلکار دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زخمی ہونے کے بعد ساری زندگی کے لئے معذور ہو چکے ہیں اور اب وہ ویل چیئرز کا استعمال کرتے ہیں۔

ان کے مطابق 'اگر میں فٹ ہوتا تو اب تک پولیس میں میری کافی ترقی ہو چکی ہوتی'۔ لیکن چونکہ زخمی ہونے کے بعد وہ کورسز پر نہیں جا سکتے اور ورزش بھی نہیں کر سکتے، اس وجہ سے ان کی اب کبھی ترقی نہیں ہو سکتی۔ 'آج کل میں ہیڈ کانسٹیبل ہوں اور اسی پر ریٹائرمنٹ ہوگی۔ جو زخمی پولیس اہلکار ہیں، ظاہر ہے انہوں نے ملک و قوم کی خاطر قربانی دی ہے تو ایسے اہلکاروں کو سپیشل کیس میں ترقی دینی چاہیے تاکہ انہیں محرومی کا احساس نہ ہو۔'

شیرعالم کے تین بچے ہیں جن میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا پندرہ سال کا ہے جب کہ بیٹا اور بیٹی چھوٹے ہیں لیکن تینوں مختلف سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔

'ایک ہیڈ کانسٹیبل کی کیا تنخواہ ہوتی ہے؟ اور جب وہ معزور بھی ہو، کوئی کام بھی نہیں کر سکتا ہو اور ان کے بچے تعلیم بھی حاصل کر رہے ہوں تو ایسے میں خرچے پورے کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔'

شیرعالم کے بقول انہیں کبھی اس بات پر ندامت نہیں ہوئی کہ وہ فرائض کی انجام دہی کے دوران شدید زخمی ہوئے بلکہ انہیں اس بات پر ہمیشہ سے فخر رہا کہ انہوں نے ملک و قوم اور اپنے فرض کی خاطر کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا لیکن اس کے بدلے میں حکومت کی طرف سے بھی ایسی ہی فراخ دلی دکھانی چاہیے تھی۔

'بیماری کی وجہ سے میں اکثر اوقات ذہنی دباؤ کا شکار رہتا ہوں لیکن کبھی بیماری کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ ہمیشہ سے بیماری کے خلاف مزاحمت کی۔'

مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔