'بچی کو چھوت کی بیماری نہیں تھی لیکن سکول سے نکال دیا گیا'

'بچی کو چھوت کی بیماری نہیں تھی لیکن سکول سے نکال دیا گیا'
’سب مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ کوئی بھی مجھ سے پیار نہیں کرتا۔ اب میں شاید کبھی بھی سکول نہیں جا پاؤں گی۔‘

ایسا کہنا تھا سات سالہ ننھی سدرہ سلطانہ کا، جو پیدا تو بالکل تندرست و توانا ہوئی تھی لیکن پانچ ماہ کی عمر میں اس کی ٹانگ پر ایک چھالا نمودار ہوا جو بعد میں دانے کی شکل اختیار کر گیا۔

اسی دانے سے بعد میں خون بہنا شروع ہو گیا اور یہ دانے آہستہ آہستہ ٹانگ سے چہرے، کانوں حتیٰ کہ پورے جسم پر پھیل گئے۔ اس ایک چھالے کی وجہ سے سدرہ کے مطابق ان کی زندگی بدل گئی اور وہ ہمیشہ کے لئے علم حاصل کرنے کے حق سے محروم ہو گئی۔

سدرہ کی والدہ نجمہ (فرضی نام) اپنی بیٹی کو پڑھا لکھا کر ڈاکٹر بنانے کے خواب دیکھ رہی تھیں۔ چنانچہ سدرہ جیسے ہی چار سال کی عمر کو پہنچی تو نجمہ اس کو سکول داخل کروانے کے لئے لے گئیں۔

سدرہ کے سکول میں داخلہ لینے کے بعد دیگر بچوں کے والدین نے پرنسپل سے یہ مطالبہ کیا کہ سدرہ کو سکول سے نکالا جائے کیونکہ اس کی بیماری ہمارے بچوں میں منتقل ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اس صورت میں ہم اپنے بچوں کا کسی اور سکول میں داخلہ کروا دیں گے۔

ان الفاظ نے سدرہ کے ذہن پر بہت منفی اثر چھوڑا۔ اتنا منفی کہ سدرہ نے اپنی والدہ سے حسرت بھری نگاہوں سے سوال کیا کہ، ’اماں کیا میں اتنی بری ہوں کہ لوگ میرے ساتھ بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتے؟‘

یہ قصہ ہے خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی-آئی-خان) سے تعلق رکھنے والی بچی سدرہ سلطانہ کا، جو علم حاصل کرنا تو چاہتی تھی لیکن معاشرے کی بے رحمی کی وجہ سے اپنے علم حاصل کرنے کے شوق کو ارمانوں کے کسی صندوق میں دفن کر کے ہمیشہ کے لئے دفنا بیٹھی۔

سدرہ کی بیماری کے حوالے سے ان کے گھر والوں نے تفصیل سے نہیں بتایا اور نہ اس بیماری کے نام کے حوالے سے انھوں نے کچھ بتایا ہے۔ تاہم، اتنا کہہ دیا ہے کہ یہ ایک قسم کی الرجی ہے۔

سدرہ کی والدہ نے بتایا، ’میری بیٹی کو کوئی چھوت یا وبائی بیماری نہیں ہے۔ اگر چھوت کی بیماری ہوتی تو سب سے پہلے مجھ میں منتقل ہوتی کیونکہ میں سارا دن سدرہ کی خدمت کرتی ہوں۔‘

انہوں نے بتایا کہ میں نے ڈی آئی خان اور پشاور کے ڈاکٹروں سے کئی بار سدرہ کا معائنہ کروایا ہے اور سب ڈاکٹروں نے یہی بتایا ہے کہ سدرہ کی یہ بیماری اس کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ خود بہ خود گھٹ جائے گی اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔

سدرہ اب 19 سال کو پہنچ گئی ہے البتہ اس کی بیماری مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی لیکن کم ضرور ہوئی ہے۔

نجمہ نے بتایا، ’اب کیا فائدہ جب پہلے میری بچی پڑھنے کے خواب دیکھ رہی تھی تب لوگوں کے طعنوں اور خود غرض جملوں نے اسے گھر بٹھا دیا۔ اب اس کی بیماری عمر بڑھنے کے ساتھ کم ہو گئی ہے لیکن سدرہ اب خود پڑھنا نہیں چاہتی۔ وہ مجھے کہتی ہے کہ میرا دل مر گیا ہے، اب میرا پڑھنے کو جی نہیں چاہتا کیونکہ لوگ مجھے دیکھ کر ڈر جاتے ہیں اور مجھ سے دور بھاگتے ہیں۔‘

سدرہ کی والدہ نے بتایا کہ سدرہ نے تین سکول تبدیل کیے ہیں جن میں دو نجی اور ایک سرکاری سکول شامل تھے۔ ’میری بچی نہایت ذہین ہے، اپنی جماعت میں ہمیشہ اول پوزیشن حاصل کرتی تھی پر سکول انتظامیہ اس کی بیماری سے خوفزدہ ہو کر اس کو ہر بار سکول سے نکال دیا کرتے۔‘

سدرہ کی والدہ نے کہا کہ ’میں تو ماں ہوں نا جی! لوگوں کا سدرہ کے ساتھ اس قسم کا رویہ دیکھ کر میرا کلیجہ پھٹ جاتا تھا۔‘

کیا سکول انتظامیہ نے سدرہ کو نکالنے سے پہلے ڈاکٹر سے رجوع کیا؟

سدرہ کو جن سکولوں سے نکالا گیا ان میں سے ایک نجی سکول (نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر معلومات دی گئیں) انتظامیہ سے جب ہم نے سوال کیا کہ کیا سدرہ کو سکول سے بےدخل کرنے سے پہلے آپ نے کسی ڈاکٹر سے یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ آیا سدرہ کی یہ بیماری چھوت ہے یا نہیں تو ایک اہلکار نے جواب دیا کہ، ’ویسے تو ہم نے کسی ڈاکٹر سے رجوع نہیں کیا تھا لیکن سدرہ کی بیماری کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا تھا کہ اسے کوئی چھوت کی بیماری ہے جو کہ باآسانی کسی اور میں بھی منتقل ہو سکتی ہے۔"

اہلکار نے بتایا کہ سکول انتظامیہ سدرہ کو نکالنے کی قائل نہیں تھی اور ہم تو چاہتے تھے کہ وہ مزید پڑھے لیکن دیگر بچوں کے والدین نے ہمیں یہ فیصلہ لینے پر مجبور کیا۔

"ہم کیا کر سکتے تھے؟ کیونکہ اگر سدرہ کی وجہ سے دیگر بچے ہمارا سکول چھوڑ کر کسی اور سکول میں داخلہ لیتے تو ہمیں مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا۔ سدرہ کو سکول سے نکالنا ہماری مجبوری بن گئی تھی۔"

کیا ہمارے لوگ متعدی اور غیر متعدی بیماریوں کا شعور رکھتے ہیں؟

ڈاکٹر رضوان ماہر امراض جلد ہیں اور ڈی آئی خان میں اپنا نجی کلینک بھی چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یوں تو پاکستان میں بہت سی متعدی بیماریاں پائی جاتی ہیں جن میں زیادہ تر ہیپاٹائٹس بی اور سی، ایڈز اور ٹی-بی جیسی بیماریاں سرفہرست ہیں۔

کچھ متعدی بیماریاں ڈاکٹر رضوان کے مطابق ایسی بھی ہیں جو کہنے کو تو چھوت ہیں یا چھوت کی بیماریوں کی فہرست میں آتی ہیں لیکن وہ براہ راست ایک انسان سے دوسرے انسان میں آسانی سے منتقل نہیں ہوتیں جیسے پیچش اور ٹائیفائڈ جیسی بیماریاں لیکن پاکستان میں لوگ اس بات کا زیادہ علم نہیں رکھتے۔

اسی طرح اگر ظاہری طور پر سدرہ کو دیکھا جائے تو یہ زرد زخم کا انفیکشن لگ رہا ہے جسے انگریزی میں "bullous impetigo"  کہا جاتا ہے۔ یہ بیماری غیر صحت مند آبادی میں جانے سے لگتی ہے اور یہ بیماری ایسی کوئی چھوت کی بیماری نہیں ہے۔ اگر اس کے لئے احتیاطی تدابیر لی جائیں تو یہ بیماری کچھ عرصے میں ختم ہو سکتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ بغیر کسی وبائی بیماری کے بچی کو سکول سے نکالنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ہمارے لوگوں میں واقعی متعدی اور غیر متعدی امراض کو لے کر شعور نہیں۔‘

سدرہ کی طرح کئی اور ایسے بچے بھی موجود ہیں جو چھوت کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کئی اور دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں۔ ڈی آئی خان ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس سے حاصل کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق 2021 میں متعدی بیماریوں میں مبتلا کل 2 لاکھ 95 ہزار 533 مریض سول اسپتال ڈی آئی خان میں اپنا معائنہ کروانے آئے تھے جن میں خارش، خسرہ اور ملیریا جیسی چھوت کی بیماریاں شامل ہیں۔

ڈائریکٹر ایجوکیشن خیبر پختونخوا حافظ ابراہیم سے جب ہم نے یہ پوچھا کہ کیا خیبر پختونخوا محکمہ تعلیم نے متعدی مرض میں مبتلا طلبہ کے لئے کوئی ایسی پالیسی تشکیل دی ہے جس سے چھوت کی بیماریوں میں مبتلا بچوں کی تعلیم بھی متاثر نہ ہو، باقی بچے بھی مرض سے محفوظ رہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دیگر بچوں کی طرح چھوت کے مرض میں مبتلا بچے بھی تعلیم حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن محکمہ تعلیم نے ایسے بچوں کے لئے تاحال کوئی پالیسی مرتب نہیں کی ہے۔

حافظ ابراہیم نے بتایا کہ 'ہمارے پاس آج تک ایسا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ البتہ اگر وبائی صورتحال ہو تو اس بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ انفرادی معاملے پر کوئی پالیسی تشکیل نہیں دی جا سکتی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اگر سنجیدگی سے کہا جائے تو ہمارا کبھی اس مسئلے کی طرف دھیان نہیں گیا۔ آپ کے سوال کرنے کے بعد اب اس مسئلے پر نظرثانی کر کے ایک پالیسی تشکیل دی جا سکتی ہے۔

مصنفہ ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والی صحافی ہیں۔ انہوں نے گومل یونیورسٹی، ڈی آئی خان سے ابلاغِ عامہ کی تعلیم حاصل کی ہے اور فلم مقابلوں میں کئی انعامات بھی جیت رکھے ہیں۔ سمیرا لطیف Peace Without Borders کی بھی Peace agent ہیں۔