ماحولیاتی انصاف مگر کس کے لئے؟؟

ماحولیاتی انصاف مگر کس کے لئے؟؟
موسمیاتی تبدیلیاں اور ماحولیات اس وقت پوری دنیا بشمول پاکستان میں ایک اہم موضوع گردانا جارہا ہے اور اس حوالے سے مکالموں کا سلسلہ جاری ہے ہر سال کی طرح اس سال بھی 5 جون کا دن ' ماحولیات کے عالمی دن' کے طور پر منایا جائے گا اور اس دن کو مناتے ہوئے یہ 50 واں سال ہوگا اور یقینا پاکستان بھر میں بھی اس حوالے سے سیمینار اور جلسے منعقد ہونگے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اتنے سالوں میں بھی ہم اس بات پر متفق نہیں ہوسکے کہ موسمیاتی تبدیلیاں مستقبل کی بات نہیں بلکہ یہ تو وقوع پذیر ہوچکی ہیں اور یکے بعد دیگرے واقعات اس کی گواہ ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کا وقوع طوفانوں، تباہ کن سیلاب، خشک موسم اور گرمی کی لہروں جیسی تباہیوں سے ظاہر ہے۔ موسم کے بدلتے تیور کے اثرات املاک کی تباہی اوربسا اوقات جانی نقصان کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں۔ یہ آفات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کم ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ نظر آتے ہیں کیونکہ شدید موسمی واقعات جیسے کہ گرمی کی لہریں اور سیلاب کے نتیجے میں خوراک کی فراہمی اور صاف پانی تک رسائی کمزور ہو جاتی ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سے ان کا ذریعہ معاش چھن جاتا ہے بے گھر ہونا اور اپنی آبائی زمین سے ہجرت کرنا ایک معمول کا عمل بنتا جارہا ہے ۔ جبکہ ماحول میں تبدیلی کے ساتھ ان آفات و واقعات کے مزید مسلسل اور سنگین ہونے کی توقع بھی کی جارہی ہے جس کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور حصول پر واضح اثرات ہوں گے۔ ہم دنیا کو درپیش مسائل پر نظر ڈالیں تو واضح نظر آتا ہے کہ انسانوں کو درپیش ہنگامی حالات و آفات کا ماحولیاتی بحران اور موسمیاتی تبدیلیوں سے گہرا اور مربوط تعلق ہے جو آگے جا کرمعاشی انتشار، انسانی حقوق کی پامالی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں ہماری زندگیوں کو نفسیاتی، جسمانی اور جذباتی طور پر بری طرح متاثر کر رہی ہیں اور نتیجے میں قدرتی ماحولیاتی نظام، اور ان پر منحصر انسانی معیشتوں اور ثقافتوں پر نمایاں اثرات نظر آرہے ہیں ۔

مگر آج بھی بہت سے معاشروں میں ماحولیاتی انصاف پر زیادہ بات نہیں کی جاتی جیسے پاکستان میں اس موضوع پر بہت زیادہ بات چیت نہیں کی جاتی حیران کن بات یہ ہے کہ ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والے ہمارے کئی احباب اس بات سے ناواقف ہیں کہ ماحولیاتی انصاف کیا ہے؟ دنیا اس حوالے سے کیا نقطہ نظر رکھتی ہے اور پاکستان کا اس میں کیا موقف ہے؟ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلیاں اور اس کے اثرات اب صرف ماحول کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی ، سیاسی اور معاشرتی مسئلہ ہے اور اب موسم کی تبدیلی کے اسباب اور اثرات کو انصاف کے تصورات بالخصوص ماحولیاتی انصاف اور سماجی انصاف سے جوڑ ا جانا ضروری ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں بڑھتا ہوا عدم مساوات انتہائی حد تک نظر انداز کیا جارہا ہےجبکہ ماحولیاتی بحران سے کمزور طبقات سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی بدولت کم آمدنی والے غریب اورپسماندہ طبقات ، اور ان میں بھی بالخصوص خواتین اور بیمار افراد کو اکثر بدترین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کہ یہ بدترین ثمراتی نتائج کوبھگتنے والا یہ طبقہ در حقیقت ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی کے لیے سب سے کم ذمہ دار ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ترقی پزیر ممالک کے لئے ان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سب سے زیادہ خطرہ ہے، کیونکہ ترقی یافتہ ممالک پھر کچھ حد تک ان خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت اور استعداد رکھتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لئے ان ترقی یافتہ ممالک کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں کہ اس حوالے سے ان کمزور ممالک کی مالی اعانت کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے کوپ 26 میں دیکھا کہ امیر ممالک کو ایندھن کے تاریخی اخراج کے بوجھ کے عوض اب موسمیاتی انصاف اور مساوات کے متعلق سوالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

پاکستان کو ممکنہ طور پر موسمیاتی تبدیلی کے ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ کیونکہ ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات واثرات کے حوالے سے صف اول میں ہیں اور اس کے لئے ہماری تیاری صفر ہے جبکہ عام مشاہدہ ہے کہ ملک پہلے ہی اپنے جغرافیائی تنوع کی وجہ سے آب و ہوا اور موسم سے متعلقہ قدرتی خطرات کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ جس میں بار بار آنے والی گرمی کی لہریں ، جیسا کہ کراچی میں 2015 سے لے کر اب تک تواتر سے یہ سلسلہ جاری ہے اور خشک سالی ، سندھ کا علاقہ تھر اور پنجاب کا علاقہ چولستان اس کی بڑی مثالیں ہیں، پھر تیز دریائی سیلاب ، جس نے 2010 میں پورے پاکستان کو لپیٹ میں لیا تھا اور تیز بارشیں اور اس کے نتیجے میں شہری سیلاب ، جیسا کہ 2020 میں کراچی زیر آب آگیا تھا، اسی طرح لینڈ سلائیڈنگ کے کئی واقعات ملک کے پہاڑی علاقوں میں ہوئے، اور سمندری طوفان اور بادوباراں کا واقعہ، جیسا مری میں 2021 میں ہوا پھر ابھی 2022 میں وادی ہنزہ میں برف کے پگھلنے سے جھیل میں سیلاب جیسے واقعات شامل ہیں ۔ بات یہیں تک محدود نہیں کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے توقع ہے کہ ان واقعات کی تعداد اور شدت میں ابھی اور اضافہ ہوگا اور ساتھ ہی لوگوں کے خطرات میں بھی اضافہ ہوگا۔ بدلتی آب و ہوا کے نتیجے میں پانی اور ہوا تیزی سے آلودہ ہوتے جارہے جس کے باعث آنے والے وقتوں میں بہت سی بیماریوں میں اضافہ متوقع ہے ۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ نچلا اور کمزور طبقہ متاثر ہو رہا ہے شہری علاقوں میں ساحلی پٹی کے ساتھ رہنے والے ماہی گیر، جبکہ دیہی علاقوں میں زیادہ تر وہ افراد جن کا ذریعہ روزگار زراعت یا مال مویشی پالنے سے وابستہ ہے۔ یہ تمام طبقات ماحول میں بڑی تبدیلیوں کے باعث زبوں حالی کا شکار ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہروں میں لوگوں کو گرمی کی لہر، شہری سیلاب اور سردیوں میں تاخیر کا سامنا ہے، جب کہ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں دھند کی وجہ سے لوگ پریشانی کا شکار ہیں۔

ہم ترقی یافتہ ممالک سے تو ماحولیاتی انصاف طلب کر رہے ہیں مگر ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ کیا ہم اپنے ملک میں علاقائی سطح پر بھی ماحولیاتی انصاف اور کمزور اور نازک طبقات کی مالی اعانت پر توجہ مرکوزکرتے ہیں کہ نہیں؟

موسمیاتی تبدیلیوں کے سماجی، اقتصادی، جغرافیائی اور سیاسی اثرات ہمارے لیے ایک بڑا خطرہ بنتے جارہے ہیں اوریہ انصاف اور شفافیت کا بنیادی تقاضہ ہے کہ ہم پسماندہ اور کمزور طبقات کے لیے کام کریں اور ان کی مالی اعانت پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دیں جن کے لیے موسمیاتی بحران فوری نوعیت کا حقیقی خطرہ ہے ۔ ہمیں یہ روش ترک کرنا ہوگی کہ صرف شہر کے پوش علاقوں میں درخت اور پودے لگائیں یا پانی کی فراہمی کی بات ہو تو کمزور طبقات کو غیر قانونی گردانتے ہوئے انہیں پانی فراہم کرنے سے منع کردیا جائے یا پھر ماحولیاتی پناہ گزین و مہاجرین کو لاوارث چھوڑ دیا جائے۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق جتنے اقدامات کیے جاتے ہیں اس میں ان کمزورطبقات کو شامل ہی نہیں کیا جاتا جبکہ وہی طبقہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔

اس وقت ہمیں موسمیاتی و ماحولیاتی انصاف کو فروغ دینا ہوگا بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اسکا تصور ہی موجود نہیں جبکہ پسماندہ اور کمزور طبقے پر اس کے اثرات کو کم کرنے کے لئے مالی اعانت کا سلسلہ بھی شروع کیا جانا ناگزیر ہے ساتھ ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے سماجی نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔


اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے