• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعہ, اگست 19, 2022
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

"میرے دوست وارث میر کا خمیر عوام میں سے اٹھا تھا اور اسی لیے اس درویش کا جنازہ لاہور میں فیض احمد فیض کے بعد سب سے بڑا جنازہ تھا جس میں اسے کے نظریاتی دشمن بھی کاندھا دینے آئے تھے کیونکہ وہ اسکی فکری دیانت کے قائل تھے اور اس کی حق گوئی اور جرات سے مر عوب تھے۔"

بشیر ریاض by بشیر ریاض
جولائی 11, 2022
in میگزین
96 1
0
آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”
113
SHARES
538
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

جنرل ضیاء الحق کے تاریک ترین مارشل لاء دور میں جب ایک طرف پروفیسر وارث میر اردو اخبارات میں اپنی فکر انگیز تحریروں کے ذریعے عوام کے لئے امیدوں کے دیے جلا رہے تھے تو دوسری طرف معروف انقلابی اور لکھاری احمد بشیر روزنامہ ڈان میں بلھے شاہ کے فرضی نام سے لکھے جانے والے اپنے کالم میں بین السطور ضیاء جنتا کا عوام دشمن ایجنڈا بے نقاب کرنے میں مصروف تھے۔ لیکن پھر ایک روز وارث میر اچانک اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

احمد بشیر نے اپنے دوست کی یاد میں ڈان اخبار میں بلھے شاہ کے نام سے جو کالم لکھا اسکا عنوان تھا ”ہی ڈائیڈ ود ہز بوٹس آن”۔ یعنی ”وہ آخری دم تک لڑتے ہوئے مارا گیا”۔ احمد بشیر نے لکھا کہ میرے دوست وارث میر کا خمیر عوام میں سے اٹھا تھا اور اسی لیے اس درویش کا جنازہ لاہور میں فیض احمد فیض کے بعد سب سے بڑا جنازہ تھا جس میں اسے کے نظریاتی دشمن بھی کاندھا دینے آئے تھے کیونکہ وہ اسکی فکری دیانت کے قائل تھے اور اس کی حق گوئی اور جرات سے مر عوب تھے۔

RelatedPosts

پاکستان کی 75ویں سالگرہ پر جمہوری قوتیں اداروں سے لڑ رہی ہیں

شہباز گل پر ٹارچر ہوا ہی نہیں، جھوٹ کو ریٹنگ بڑھانے کیلئے استعمال نہ کیا جائے: اعزاز سید

Load More

پروفیسر وارث میرکو ہم سے بچھڑے کئی عشرے بیت گے مگر آج بھی ان کی پر مغز اور فکر انگیز تحریوں کا مطالعہ کریں تو ان میں ہمیشگی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ انہوں نے جن بھی موضوعات پر لکھا وہ آج بھی تازہ ہی لگتے ہیں حالانکہ انکے دور میں ذرائع ابلاغ محدود تھے، کیبل تھی، نہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا، فیس بک تھی نہ یو ٹیوب، موبائل فون تھا نہ گوگل کا نام و نشان، بس چند ایک اخبارات تھے یا پھر ہر وقت حکومتی مدح سرائی کرتا ہوا سرکاری ٹیلی وڑن اور ریڈیو۔ اس دور میں اخبارات پر سخت ترین سنسر شپ عائد تھی کیونکہ جنرل ضیا ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہو چکا تھا۔ سیاسی کارکنوں کو قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی تھیں، آئین معطل تھا، جمہوری سرگرمیوں پر پابندی تھی، سچ لکھنے والے صحافیوں کے لئے تازیانے تھے اور بعض کو تو اس دور میں باقاعدہ کوڑے بھی مارے گئے۔ اسکے علاوہ ضیا کے حواری بے ضمیر اور قلم فروش صحافیوں کو پالنے پوسنے کا عمل بھی جاری تھا۔ مذہبی انتہا پسند اور دین اسلام کے نام پر سیاست کرنے والی جماعت اسلامی ان دنوں ضیاء کی ناجائز حکومت کی اندھا دھند حمایت کررہی تھی اور سرکاری سرپرستی میں انتہا پسندی کو فروغ دیا جارہا تھا۔ اسلام کے نام پر ملائیت کو پروان چڑھایا جا رہا تھا اور ہر نئی سوچ اور فکر کو مغرب زدگی کا نام دے کر کچلا جارہا تھا، جنرل ضیا اس کے عوض اسلام کے نام نہاد ٹھیکیداروں سے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے حمایت حاصل کررہا تھا۔

پروفیسر وارث میر نے ان مشکل ترین حالات میں بڑی جرات مندی کے ساتھ ضیاء کے نام نہاد اسلامائزیشن کے عمل کی مخالفت کی اور اسکی اسلام کے نام پر اپنے آمرانہ اقتدار کو طول دینے کی کوششوں کو بے نقاب کیا، انہوں نے اسلام کی اپنی مرضی کی تعبیر کے ذریعے عورتوں کے حقوق غصب کرنے کی کوششوں کی مخالفت کی۔ وارث میر نے جذباتیت کی بجائے سنجیدہ علمی انداز میں عورتوں کے حقوق کا مقدمہ لڑا۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کے عمیق مطالعے اور تحقیق کے بعد اپنا طویل سلسلہ مضامین شروع کیا جو ان کی وفات کے بعد ”کیا عورت آدھی ہے؟”کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔ وارث میر نے بنیادی انسانی حقوق، جمہوریت اور آئینی بالادستی کے حق میں اپنا قلم نشتر کی طرح چلایا، ضیا کے نام نہاد شریعت بل کی شدت سے مخالفت کی، انہوں نے اس سے پہلے کے ماشل لا ادوار کے میں اپنائے گے ہتھکنڈوں کو بھی موضوع تحریر بنایا، اس دور میں ضیا حکومت کی دست راست جماعت اسلامی وارث میر کی شدید مخالف تھی اور بہانے بہانے سے ان کو تنگ کرتی رہتی تھی۔ زندگی کے آخری دنوں میں اس اسلامی ٹولے نے وارث میر کو ایک بڑا صدمہ یہ دیا کہ ان کو بلیک میل کرنے کے لیے اور ذہنی دباؤ میں لانے کے لیے انکے ایک 16 سالہ بیٹے کے خلاف قتل کا جھوٹا مقدمہ درج کروا دیا۔ بعد میں یہ کیس عدالت میں بھی جھوٹا ثابت ہوا لیکن تب تک وارث میر شدید ذہنی اذیت کا شکار ہو کر اس جہان سے جوانعمری میں ہی رخصت ہو چکے تھے۔

پروفیسر وارث میر کے اپنے الفاظ میں ایک سچا اور کھرا دانشور اپنے عہد سے جڑا ہوتا ہے۔ وہ عصری مسائل پر بات کرتا اور بہتر مستقبل کے لئے عوام الناس کی فکری رہنمائی کرتا ہے، وہ آج کے حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے مستقبل میں جھانک لیتا ہے اور اسکی خبر دیتا ہے۔ وارث میر نے بھی اپنے عہد میں آئیں شکن ضیاالحق اور اسکے پروردہ مذہبی حلقوں کی پھیلائی ہوئی تنگ نظری اور جہالت کو موضوع بنایا اور بتایا کہ یہ ایک صحت مند معاشرے کے لئے کس قدر خطرناک ہے۔ آنے والے وقت میں ان کا لکھا ہوا ہر حرف درست ثابت ہوا۔ یہی فکری تنگ نظری، شدت پسندی اور رجعت پسندی بعد میں انتہا پسندی اور پھر دہشت گردی میں بدل گئی جس نے پاکستان کے چپے چپے کو لہو رنگ کردیا۔

وارث میر اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر مارشل لا کے حواریوں کے خلاف قلمی اور علمی محاذ پر برسر پیکار رہے۔ وہ مسلمانوں کو جدید سائنسی علوم کے حصول پر قائل کرتے اور مسائل و معاملات میں سائنسی اور عقلی انداز فکر اپنانے پر زور دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوچنا، سوال کرنا، شک کرنا اور انکار کرنا علم و معرفت کی پہلی سیڑھی ہے۔ وارث میر ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک استاد، صحافی،  دانشور اور بلا کے مقرر تھے، انہوں نے زندگی میں ان گنت موضوعات پر قلم اٹھایا اور قوم کی فکری رہنمائی کا فریضہ جرات مندی سے انجام دیا۔ وہ اپنے نظریات کی عملی شکل تھے، ان کی اچانک اور پراسرار موت پر ایک زمانہ ملول تھا۔ وارث میرکی جنگ دراصل جہل، ظلمت، تنگ نظری، انتہا پسندی اور آمریت کے خلاف تھی، وہ عمر بھر اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے حریت فکر کے چراغ جلاتے رہے، اپنے نظریات کا پرچار ان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا اور ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ جس بات کو وہ درست سمجھتے ہوں اسے زبان پر یا ضبط تحریر میں نہ لائیں۔

پاکستان میں ایسے دانشور کم ہی گزرے ہیں جنہوں نے اپنے نظریات پر قائم رہنے کی خاطر اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی ہو۔ وارث میرکا شمار ان دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی کی آخری سانس بھی اپنے نظریات کے پرچار کی نظر کردی۔ بلاشبہ وارث میر آخری دم تک آمروں سے لڑتے ہوئے وہیں اپنے مورچے میں مارا گیا۔

Tags: آزادی صحافتآزادی صحافت پر قدغنیںآمریتحامد میرصحافیوارث میر
Previous Post

تصویروں کا رنگ محل اور اَن کہی کہانی، فوٹوجرنلزم کا بڑا نام "راحت ڈار”

Next Post

جیمز ویب خلائی دور بین کی پہلی رنگین تصویر جاری کر دی گئی

بشیر ریاض

بشیر ریاض

Related Posts

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

by عبداللہ مومند
اگست 8, 2022
0

یہ سال 2006ء کا دور تھا اور میں ضلع مہمند کے ایک مقامی سکول میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ہمارے...

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

by حسن نقوی
اگست 8, 2022
0

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف پروپیگنڈے کئے گئے کہ انہوں نے اپنے ہی سینما کے باہر ٹکٹ بلیک کئے۔ شہید...

Load More
Next Post
جیمز ویب خلائی دور بین کی پہلی رنگین تصویر جاری کر دی گئی

جیمز ویب خلائی دور بین کی پہلی رنگین تصویر جاری کر دی گئی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Hamid Mir

پاکستان کی 75ویں سالگرہ پر جمہوری قوتیں اداروں سے لڑ رہی ہیں

by حامد میر
اگست 19, 2022
0

...

Imran Khan lobbying US CIA Station chief

عمران خان کی لابنگ فرم کا سربراہ پاکستان میں CIA کا سابق سٹیشن چیف ہے

by نیا دور
اگست 17, 2022
0

...

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

by عمر اظہر بھٹی
اگست 13, 2022
0

...

"آپ آزاد ہیں”، نوجوان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کو واپس لیں

"آپ آزاد ہیں”، نوجوان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کو واپس لیں

by عرفان رضا
اگست 13, 2022
1

...

سوات پر عسکریت پسندوں کے سائے: کیا جنت نظیر وادی سوات ایک بار پھر کشیدگی کی جانب گامزن ہے؟

سوات پر عسکریت پسندوں کے سائے: کیا جنت نظیر وادی سوات ایک بار پھر کشیدگی کی جانب گامزن ہے؟

by عبداللہ مومند
اگست 13, 2022
0

...

میگزین

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

by عبداللہ مومند
اگست 8, 2022
0

...

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

by حسن نقوی
اگست 8, 2022
0

...

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

by بشیر ریاض
جولائی 11, 2022
0

...

Abdul Sattar Tari

عبدالستار تاری – جس کے پائے کا طبلہ نواز آج دنیا میں موجود نہیں

by محمد شہزاد
جولائی 7, 2022
1

...

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,739
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

Naya Daur Urdu plans to premiere a video.

3 hours ago

Naya Daur Urdu
General Faiz got me removed from the divisional bench and he frankly admitted too that his legal team had warned him about me, says Justice Shaukat Aziz Siddiqui in a tell-all interview. These details are just shocking, to say the least ... See MoreSee Less

General Faiz Admitted He Got Me Removed From Divisional Bench: Shaukat Siddiqui

www.facebook.com

View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

Naya Daur Urdu

3 hours ago

Naya Daur Urdu
نوازشریف کے ذہن میں یہ بات کافی عرصے تک بیٹھی رہی کہ آرمی چیف اپنا بندہ لگانا چاہیے مگر انہیں آج تک اپنا بندہ نہیں ملا۔ کہا جاتا ہے کسی کو بھی آرمی چیف لگائیں وہ فوج کا آرمی چیف ہوتا ہے کسی سیاسی کے انٹرسٹ کو وہ نہیں دیکھتا۔ ... See MoreSee Less

Video

View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In