ڈاکٹر مہرب معز اعوان مرد ہیں یا خواجہ سرا؟

ڈاکٹر مہرب معز اعوان مرد ہیں یا خواجہ سرا؟
ڈاکٹر مہرب معز اعوان پاکستان میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے حقوق کی علمبردار اور خاتون ٹرانس جینڈر ہیں جن کے بارے میں یہ تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے کہ وہ مرد ہیں یا خواجہ سرا؟

ڈاکٹر مہرب معز اعوان نے خیبر یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کیا اور فل برائٹ حاصل کرنے کے بعد امریکہ سے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز بھی کیا۔ بعد ازاں وہ پاکستان آ گئیں اور 2012 میں ٹرانس جینڈرز میں ایچ آئی وی کے حوالے سے کام شروع کیا، آج کل وہ ٹرانس جینڈرز کے لئے بننے والے قوانین، ان پر ہونے والے تشدد اور سوشل انٹیگریشن پر کام کر رہی ہیں۔

وہ مخنث افراد سمیت مختلف متنازع جنسی رجحانات رکھنے والے افراد کے حقوق سے متعلق بات کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مختلف فلاحی تنظیموں اور اداروں کے ساتھ خواجہ سرا کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر کام کرنے کے علاوہ سوشل میڈیا پر تشہیری مہم بھی چلاتی دکھائی دیتی ہیں۔

ڈاکٹر مہرب معز اعوان اس وقت خبروں کی زینت بنیں جب فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے دعویٰ کیا ہے کہ خود کو خواجہ سرا قرار دینے والے سماجی رہنما ڈاکٹر مہبر معز اعوان خاتون کے روپ میں مرد ہیں۔ ماریہ بی نے اپنی انسٹاگرام سٹوریز میں مہرب معز اعوان کے حوالے سے متعدد سٹوریز شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہیں خواجہ سرا یا مخنث افراد میں شامل کرنا دھوکہ ہوگا۔



مہرب معز اعوان کے حوالے سے ماریہ بی نے مذکورہ سٹوریز اس وقت کیں جب کہ خواجہ سرا کارکن نے بتایا کہ اسلام آباد انٹرنیشنل سکول لاہور کی انتظامیہ نے انہیں وہاں ہونے والے ’ ٹیڈ ٹاک‘ شو میں آنے سے روک دیا، جس پر انہوں نے سلسلہ وار ٹوئیٹس کیں۔ مہرب معز اعوان نے سلسلہ وار ٹوئیٹس میں لکھا کہ انہیں سکول انتطامیہ نے بتایا کہ بچوں کے والدین نہیں چاہتے کہ مخنث افراد ان کے بچوں کے سامنے آ کر خطاب کریں، اس لئے انہیں شو میں آنے سے روک دیا گیا۔ انہوں نے ایسا کرنے پر سکول انتظامیہ پر تنقید کی اور ساتھ ہی ’ ٹیڈ ٹاک‘میں بطور مہمان شرکت کرنے والے دیگر افراد سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ان سے اظہار یکجہتی کے طور پر شو کا بائیکاٹ کریں۔ مہرب معز اعوان کی ٹوئیٹس اور انسٹاگرام پوسٹ پر بھی کئی لوگوں نے کمنٹس کرتے ہوئے ان سے اختلاف کیا اور لکھا کہ وہ درست معنوں میں مخنث شخص نہیں ہیں، وہ ملک میں عریانیت و فحاشی پھیلانے کے ایجنڈے پر کام کرنے والے شخص ہیں جن کی اصل شناخت کچھ اور ہے۔

https://twitter.com/TMItalks/status/1559481696323502080

مہرب معز اعوان کی جانب سے پوسٹ کیے جانے کے بعد ہی ماریہ بی نے ان کے حوالے سے انسٹاگرام سٹوریز شیئر کیں، جن کے سکرین شاٹ وائرل ہو گئے اور ٹوئٹر پر فیشن ڈیزائنر کا نام ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ کچھ لوگوں نے ان کے خیالات سے اتفاق بھی کیا جب کہ بہت سوں نے مہرب معز اعوان کے حق میں بھی ٹوئیٹ داغے۔

ماریہ بی نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ’انٹرنیشنل سکول آف لاہور (آئی ایس ایل) جہاں ان کے بچے بھی پڑھتے ہیں، نے مہرب معز اعوان کو ’ ٹیڈ ٹاک‘میں بطور مہمان مدعو کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا۔ انہوں نے سکول انتظامیہ کا ساتھ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے بچے بھی مذکورہ سکول میں پڑھتے ہیں اور وہ بطور والدہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ غلط لوگ ان کے بچوں کے سامنے خطاب کریں۔



نیا دور میڈیا نے ڈاکٹر مہرب معز اعوان کا اس حوالے سے مؤقف لیا تو انہوں نے بتایا کہ میرے گھر، خاندان اور تمام دوستوں کو شروع دن سے پتہ ہے کہ میں خواجہ سرا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ معاشرہ ہم سے چاہتا کیا ہے۔ جب میں ایک مرد کے طور پر زندہ رہ رہی تھی تو میرا مذاق اڑا کر کہتے تھے کہ یہ 'خسرا' ہے، اور اب میں نے جب قبول کر لیا کہ میں خسرا ہوں تو اب بھی زندہ نہیں رہنے دیتے۔

انہوں نے کہا کہ یہ حقوق دینے سے پہلے ہر کسی کی شلوار کے پیچھے ہیں، انہوں نے کہا کہ اگر میں ماریہ بی پر الزام لگا دوں اور کہوں کہ یہ عورت تو ہے ہی نہیں تو کیا لوگ تب بھی اس بات پر یقین کریں گے؟




ڈاکٹر مہرب کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ والدین اور انتظامیہ کی ملی بھگت ہے۔ ہماری اشرافیہ ہمیشہ یہی کام کرتی ہے، اخلاقیات کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو سنسر کرتی ہے کیونکہ وہ امیر ہیں اور ان کے پاس پلیٹ فارم ہے اور وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کی بات سنی جائے گی، کس کی بات نہیں سنی جائے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ماریہ بی مجھے ہرگز نشانہ نہ بناتی اگر میں سڑک پر بھیک مانگ رہی ہوتی، یا کسی جگہ ڈانس کر رہی ہوتی، میں ایک خوددار خواجہ سرا ہوں جس نے کبھی اپنا رونا نہیں رویا، انہیں تکلیف اس لئے ہوئی کہ ایک خواجہ سرا ان کی کمیونٹی میں کیسے بیٹھ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایلیٹ ذہنیت ہے جو خواجہ سرا کو انسان نہیں سمجھتے۔ گاؤں دیہات میں لوگ اگر ہمارا مذاق اڑاتے ہیں تو عزت بھی دیتے ہیں، کراچی میں جہاں میں رہتی تھی وہاں کے ہوٹل والے مجھے باجی اور بچے خالہ کہتے تھے جب کہ ایلیٹ اپنے بچوں کو خواجہ سرا کے قریب نہیں جانے دیتے۔

ڈاکٹر مہرب معز اعوان نے مزید کہا کہ جنس کو ہم نہیں بیچتے ماریہ بی جیسے فیشن ڈیزائنر بیچتے ہیں۔ اور اگر ماریہ بی کہتی ہے کہ اللہ کو سب نے مکمل پیدا کیا تو ماریہ بی جیسی ایلیٹ خواتین لاکھوں روپے کے میک اپ اپنے منہ پر کیوں لگاتی ہیں؟

"ان لوگوں نے خواجہ سرا کو کیا حقوق دینے ہیں جو ہر کسی کے کپڑوں کے نیچے جھانکتے ہیں۔ مجھ پر الزام لگانے والے کوئی ایک انٹر سیکس بندہ لا کر دکھائیں۔ یہ کسی ایک کو نہیں دکھا سکتے۔"

ڈاکٹر مہرب معز اعوان نے کہا کہ یہ سرمایہ دار سماج ہے اور یہ ہر چیز کو جنسِ بازار کی طرح دیکھتے ہیں، یہ ہمیں حقوق تب دیتے ہیں جب ہم سڑک پر بھیک مانگیں، ان کے بچوں کی پیدائش اور شادیوں پر جا کر مجرے کریں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے مورو کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ آپ پورن سیلر تھیں اور اپنے دوستوں کو پورن دکھاتی تھیں، تو انہوں نے کہا کہ اس پورے انٹرویو میں 1 منٹ کا کلپ نکال کر پھینک دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس شو میں اس الزام کا ذکر کیا جا رہا تھا کہ کہ تمام ٹرانس ایتھلیٹ مرد ہیں۔ اس شو میں میں ماریا شراپوا اور سرینا ویلیمز پر بات کر رہی تھی، اس وقت لوگ سرینا ویلیمز کو ان کی رنگت کی وجہ سے بندر کہتے تھے جب کہ ماریا شراپوا کی برہنہ تصاویر دیکھتے تھے۔ اس فلو میں میں نے یہ بات کی کہ میرے گھر میں انٹرنیٹ تھا تو میرے بہت سے دوست مجھے کہتے تھے کہ انٹرنیٹ سے اس کی برہنہ وڈیو ڈاؤن لوڈ کر کے لاؤ۔ ڈاکٹر مہرب معز اعوان نے کہا کہ پاکستان پورن دیکھنے میں نمبر ون ہے، مگر سماج میں بہتری لانے کے لئے آپ اس اصطلاح کو بھی استعمال نہیں کر سکتے، یہ سب منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟

آخر میں انہوں نے کہا کہ میں ماریہ بی کے خلاف لیگل ایکشن لوں گی، اور چپ نہیں بیٹھوں گی، اگر میرے کپڑوں کے نیچے والے اعضا پر بات کی گئی ہے، تو میں بھی اب کروں گی اور اس ایلیٹ کو بے نقاب کروں گی۔ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے لیگل نوٹس تیار ہو چکا ہے جس میں ماریہ بی اور اسلام آباد انٹرنیشنل سکول لاہور کو فریق بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ سرا کمیونٹی میرے ساتھ ہے اور میری سپورٹ میں انہوں نے ویڈیوز بھی لگائی ہیں۔

حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔