سوئٹزرلینڈ دنیا کا نمبر 1 ملک کیوں ہے؟

سوئٹزرلینڈ دنیا کا نمبر 1 ملک کیوں ہے؟
سوئٹزرلینڈ آنے والے سیاحوں میں جرمن، امریکی اور برطانوی شہریوں کے بعد چینیوں کا نمبر آتا ہے۔ بعد ازاں خلیجی باشندے اور ہندوستانی یہاں قدم رنجہ فرماتے ہیں۔ یہ ملک ہر سال دنیا کا بہترین ملک قرار پاتا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

صفائی

سوئس سرزمین میں داخل ہوتے ہی صفائی اور تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ جابجا چار مختلف قسم کے کوڑے دان نظر آتے ہیں جہاں بوتل، کاغذ، نامیاتی اجزا اور عام کچرے کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے تاکہ انہیں ری سائیکل کر کے دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکے۔ اس سے عوام کی تعلیم اور شعور کی عکاسی بھی ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو۔ آخر سوئٹزرلینڈ دنیا میں انسانی ترقی میں نمبر ایک ملک ہے۔ غیر آلودہ فضا، نکاسی آب اور صاف پانی کی فراہمی میں بھی اس نے اقوام عالم میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ فی کس آمدنی میں یہ دنیا کی اولین دس اقوام میں شامل ہے۔

بھارتی سیاح

سوئٹزرلینڈ میں انڈین سیاح چھائے ہوئے ہیں۔ کسی کونے میں چلے جائیں، ٹرین میں بیٹھیں، پہاڑ پر چڑھ جائیں ہندی گفتگو مسلسل سماعت سے ٹکراتی ہے۔ انٹرلاکن میں بازار کے بیچوں بیچ یش چوپڑا جی کا مجسمہ نصب ہے۔ ہر ہندوستانی ان کے درشن کر کے تصویر ضرور بنواتا ہے۔ اسی شہر سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر جنگفراؤش نامی برفیلی پہاڑی چوٹی ہے جس تک پہنچنے کے لئے ٹرائی کیبل پانورامک گنڈولا یعنی شفاف کیبل کار میں بیٹھ کر ایک سٹیشن اور اس سے آگے گراری دار (کاگ ویل) ریل میں لے جاتے ہیں۔ یہ پورے یورپ میں سطح سمندر سے فاصلے کے لحاظ سے سب سے اونچا ٹرین سٹیشن ہے اور انسانی عزم و حوصلے کی عملی مثال ہے۔ ظاہر ہے اس نرالی کارکردگی کو دکھانے کی بھرپور قیمت وصول کی جاتی ہے۔ ہمیں زیادہ حیرانی یہ دیکھ کر ہوئی کہ برف پوش پہاڑ کے سر پر قائم اس شاپنگ سنٹر میں سوئس گھڑیوں کی دکانوں سے بھی اوپر آخری منزل پر "بالی وڈ ریسٹورنٹ" قائم ہے۔ یہاں دیگر ہندوستانیوں کے ساتھ جے پور کا ایک نوجوان انڈین جوڑا بیٹھا تھا جو بنگلور میں نچلے درجہ کی آئی ٹی نوکریوں سے منسلک تھے اور انہیں سوئٹزرلینڈ آنے کا پیکج ساڑھے پانچ لاکھ ہندوستانی روپے کا پڑا تھا۔ گھومنا پھرنا اور کھانا الگ۔ آج کے حساب سے یہ ساڑھے سولہ لاکھ پاکستانی روہے بنے۔ سوئٹزرلینڈ کی سیاحت پر شائع ہر انگریزی کتاب میں "دل والے دلہنیا لے جائیں گے" کا تذکرہ ضرور ملتا ہے۔ ہندوستانیوں کی شکم پری کے لئے پچھلے دو سال سے یہاں میکڈونلڈز پر تیز مرچ مسالے والے ویجیٹیرین برگر بھی دستیاب ہیں۔

تعلیم

سوئس نظام تعلیم بڑا مختلف اور دلچسپ ہے۔ چار پانچ سال کے ننھے ننھے بچے آپ کو ٹولیوں میں یا اکیلے سکول کی طرف پیدل جاتے ملیں گے۔ نہ ابا جان ہاتھ پکڑے روتے دھوتے بچے کو زبردستی کھینچتے نظر آئے نہ اماں ٹفن اور بیگ سنبھالے پیچھے پیچھے۔ اکیلے آنے جانے سے بچوں میں کم عمر سے ہی آزادی، خودمختاری اور غیر محتاجی کا تصور راسخ ہو جاتا ہے۔ قوت مشاہدہ اور قوت فیصلہ کو مہمیز ملتی ہے۔ یونیفارم کا جھنجھٹ نہیں۔ بچے نہ اغوا ہوتے ہیں نہ انہیں ریپ کیا جاتا ہے۔ بہت سے دیگر ممالک نے سوئس نظام تعلیم سے سیکھا اور اپنی اصلاح کی۔ تعلیم پر یہ لوگ سالانہ بجٹ کا 16 فیصد یا جی ڈی پی کا ساڑھے چھ فیصد کھپا دیتے ہیں۔ تیرہ جماعت تک تعلیم مفت اور بہت معیاری ہے لیکن نویں کے بعد سکول کی تعلیم کے ساتھ پیشہ ورانہ تربیت (اپرینٹس شپ) کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو تمام شعبہ ہائے زندگی میں موجود ہوتی ہیں۔ اس کا کچھ مشاہرہ بھی دیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی کی تعلیم مفت نہیں لیکن برطانیہ سے نسبتاً سستی ہے۔ سوئس تجدیدی سوچ یعنی انوویشن میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کی اول قوم ہیں۔ انوویشن کا اردو ترجمہ جدت کیا جاتا ہے۔ فی ملین آبادی سب سے زیادہ نوبیل پرائز حاصل کرنے کا تاج بھی اسی قوم کے سر پر سجا ہے۔ دو بڑے مفکرین جن کو دنیا بھر میں تعلیم کے مضمون میں ضرور پڑھایا جاتا ہے یہیں کے باسی تھے۔ روسو جنہیں فرانسیسی انقلاب کے نقیبوں میں شمار کرتے ہیں کا ناول ایمیل ایک جدید نظام تعلیم کی عکاسی کرتا ہے جس میں بچے فطرت سے سیکھتے ہیں۔ اسی طرح ژین پیازے جو بچوں میں ادراکی ارتقا پر کام کرنے والے پہلے نفسیات دان تھے یہیں سے تعلق رکھتے تھے۔

سوئس گھڑیاں اور چاکلیٹ

زیورخ میں کلاک اور واچ میوزیم دیکھ کر پتہ چلا کہ انوویشن اور جدت میں واقعی بڑا گہرا تعلق ہے۔ آج دستی گھڑی کا نام سنتے ہی فوراً سوئٹزرلینڈ ذہن میں آتا ہے۔ جب پروٹسٹنٹ مصلح جان کیلون نے سولہویں صدی میں سادگی کے سخت مذہبی اصول متعارف کراتے ہوئے زیورات پہننے پر پابندی لگا دی تو سوئس جوہریوں نے گھڑیاں بنانی شروع کر دیں اور پھر یہ صنعت مسلسل ترقی کرتی گئی۔

لنٹ چاکلیٹ میوزیم میں چاکلیٹ کی تاریخ فلموں، نمائشی اشیا اور انٹرایکٹو بصری (وژوئل) آلات سے بہت عمدگی سے بیان کی گئی ہے۔ چاکلیٹ کی کہانی میکسیکو میں ہسپانوی آبادکاروں کے ظلم و جبر، لوٹ مار اور غلاموں کی تجارت کے ذکر کے بغیر سنانی ممکن نہیں اس لئے ابتدا میں ہی وضاحت کر دی گئی ہے کہ سوئٹزرلینڈ کا اس سارے معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ہم نے تو صرف تلخ اور بدذائقہ کوکوا کو انتہائی لذیذ اور پرکشش ڈیلی کیسی میں بدل دیا ہے۔ سوئس چاکلیٹ گھڑیوں کی طرح بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ یہاں کے لوگ چاکلیٹ کے اتنے شوقین ہیں کہ یہ خطہ چاکلیٹ کے فی کس استعمال میں پہلے نمبر پر آتا ہے۔

دفاعی نظام

سوئٹزرلینڈ میں تمام بالغ مردوں پر 18 ہفتے کی عسکری تربیت لازمی ہے جب کہ عورتوں کے لئے یہ اختیاری ہے۔ اس تربیت یافتہ فورس کو جس کی تعداد پندرہ سے بیس لاکھ کے درمیان ہے کسی بھی وقت ملکی دفاع کے لئے طلب کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف باقاعدہ فوج کی تعداد میں 2003 کی آئینی ترمیم کے بعد سے مسلسل کمی کی جا رہی ہے اور یہ چار لاکھ سے سکڑتے سکڑتے اب ڈیڑھ لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے۔ مجموعی قومی آمدنی کے محض اعشاریہ 7 فیصد کے ساتھ فوجی اخراجات نہایت غیر متاثر کن ہیں۔

ائرپورٹ، ٹرین سٹیشن اور ہر مقام سیاحت پر وکٹورنکس کمپنی کی دکانوں پر سوئس چاقو، سوئس فوج کے کمبل اور سویٹر وغیرہ بکتے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ شاید اس بہانے عسکری ادارے کچھ کما کھا لیتے ہوں گے لیکن تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ ایک پرائیویٹ کمپنی ہے۔

2008 میں سوئس فضائیہ کے سربراہ کو صرف اتنی سی بات پر نوکری سے برخاست کر دیا گیا کہ ایک تربیتی دورے پر بھیجے گئے فضائیہ کے چار اہلکار کشتی ڈوبنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد سوئس فوج کے سپہ سالار نے اپنے متعلق مشہور افواہوں اور خبروں پر خود استعفا دے دیا۔ قصہ بس اتنا ہی تھا کہ آرمی چیف ماضی میں اپنی ایک سابقہ شریک حیات کو ہراساں کیا کرتے تھے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے ان عفیفہ کو اغوا کروا کے شمالی علاقہ جات کی سیر پر نہیں بھیجا تھا اور نا ہی کسی رقیب کو سالوں غائب کرایا تھا ہاں مگر چپکے سے محبوبہ کا فون نمبر ایک پورنوگرافک ویب سائٹ پر ڈال دیا تھا جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

سوئٹزرلینڈ کا اصل عجوبہ۔۔ اس کا سیاسی نظام

بحیثیت ایک ملک کے سوئٹزرلینڈ کی تاریخ کا آغاز پہلی اگست 1291 سے ہوتا ہے جب چند پہاڑی قبائل نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف متحد ہو کر اپنا دفاع کرنے کا معاہدہ تحریر کیا۔ اس دور کو کمزور وفاقی وحدت یا کنفیڈریسی کہا جاتا ہے۔ قدیم قبائلی تنظیموں کے یہ اتحاد ٹوٹتے جڑتے رہے۔ اس خطے کو مختلف جنگوں، بیرونی مداخلتوں، خانہ جنگی، غلامی سب برداشت کرنا پڑا۔ بالآخر 1815 میں اس نے اپنی سرحدوں کا تعین کر کے اقوام عالم میں اپنی نئی شناخت قائم کی اور اپنے غیر جانبدار رہنے کا عزم کر لیا۔ اس کی جدید تاریخ کا اہم ترین سنگ میل 1848 میں اس وقت عبور ہوا جب علاقائی اکائیوں کے ڈھیلے ڈھالے گٹھ جوڑ نے ایک نیا وفاقی آئین بنایا۔

ریاستی مشینری میں سب سے اوپر کنفیڈریشن ہے جو اصل میں وفاق ہے۔ اس سے نیچے 26 علاقائی اکائیاں یا کینٹن ہیں جو دراصل پاکستانی صوبے، ہندوستانی ریاستوں یا برطانیہ کی کاؤنٹی کے ہم معنی ہیں۔

تمام 26 کینٹن کو اپنا آئین، عدلیہ، انتظامیہ، پولیس اور نچلی کورٹس رکھنے کا حق حاصل ہے۔ صحت، بہبود عامہ، امن و امان، تعلیم اور محاصل کے نظام بنانے میں یہ خود مختار ہیں۔ ان کے اپنے جھنڈے اور اپنی زبانیں ہیں۔ ان میں سے 19 میں جرمن، 4 فرانسیسی، 2 اطالوی جب کہ صرف ایک کینٹن میں رومانش زبان بولی جاتی ہے لیکن ان چاروں زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ ہر سوئس شہری کم از کم دو زبانوں پر عبور رکھتا ہے۔ قومی یا رابطے کی زبان قرار دے کر کسی ایک زبان کو مسلط نہیں کیا گیا۔ بڑی اکثریت انگریزی بولتی اور سمجھتی ہے۔ کینٹن یقینی بناتے ہیں کہ ان کی زبان، ثقافت، شناخت، تاریخ اور طرز تعمیر اپنی اہمیت برقرار رکھیں، بچے ان سے واقف ہوں اور یہ معدوم نہ ہو جائیں۔

کینٹن کے نیچے سوا دو ہزار کمیون یا بلدیاتی کونسل ہیں۔ جب کہ اوپر پاکستان کی طرح دو ایوانی پارلیمان پے۔ قومی کونسل ( قومی اسمبلی) اور ریاستوں کی کونسل (سینیٹ)۔ دونوں ایوانوں کے ارکان کا چناؤ براہ راست عوامی ووٹ سے چار سال کے لئے ہوتا ہے۔ حکومت کا نظام بھی انوکھا ہے۔ وفاقی حکومت میں صرف سات وزرا ہوتے ہیں جو دنیا کے اس منظم ترین ملک کا منظم ترین نظام چلانے کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں۔ 1848 سے یہ تعداد سات ہی رہی ہے۔ یہ سات آپس میں سے ایک کو چن لیتے ہیں جسے سوئٹزرلینڈ کا صدر کہا جاتا ہے۔ یہ خوش قسمت شخص اپنی وزارت دیکھنے کے ساتھ ساتھ کابینہ کے اجلاس کی صدارت بھی کرتا ہے۔ صدارت پر فائز رہنے کی مدت صرف ایک سال ہے یعنی سوئٹزرلینڈ میں ہر سال ایک نیا فرد کرسی صدارت پر براجمان ہوتا ہے۔ اتنی کم مدت حکومت کے باوجود سوئٹزرلینڈ کو سیاسی طور پر مستحکم ترین ملک سمجھا جاتا ہے۔

اپنے مثالی وفاقی نظام کے ساتھ ساتھ سوئٹزرلینڈ براہ راست جمہوریت کا بہترین عملی مظہر ہے۔ یہاں ہر قانون سازی کے لئے عوامی ریفرنڈم کرایا جاتا ہے۔ سال میں کم و بیش چار ریفرنڈم منعقد ہوتے ہیں۔ اس سال ہونے والے استصواب رائے انسانی و حیوانی تجربات، تمباکو کی تشہیر پر پابندی اور سٹیمپ ڈیوٹی کے قانون میں ترمیم کے حوالے سے تھے۔ پچھلے سال چہرے کو ڈھانپنے پر پابندی اور انڈونیشیا کے ساتھ کاروباری تعلقات پر عوام سے رائے لی گئی۔

تضادات

اس جنت نظیر ملک کی متضاد باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک طرف یہاں کم از کم فی گھنٹہ تنخواہ 23 فرانک ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے لیکن دوسری طرف شدید مہنگائی کے باعث اس کم از کم تنخواہ میں گزارا کرنا ناممکن ہوتا ہے۔

یہاں 1991 میں تمام عورتوں کو حق رائے دہی نصیب ہو سکا جب کہ 2004 تک گھریلو تشدد جرم ہی نہیں تھا۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں غیرجانبداری کا بہت چرچہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دوران جرمنی سے سوئس بینکوں میں آنے والی دولت کو چھپا کر رکھا گیا۔ عالمی یہودی کانگریس کی طرف سے قائم کیے گئے مقدمے کے تصفیے میں بالآخر سوئس بینک متاثرین کو سوا ارب ڈالر کی ادائیگی پر مجبور ہوئے۔

2019 میں جب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سوئٹزرلینڈ کو دنیا کے کم کرپٹ ممالک میں دوسری پوزیشن دے رہا تھا اسی وقت ٹیکس جسٹس نیٹ ورک سوئس بینکنگ سیکٹر کو دنیا بھر میں کرپٹ ترین قرار دے چکا تھا۔

مذہبی معاملات میں روک ٹوک نہیں اور لادین افراد کی تعداد 25 فیصد سے اوپر ہو چکی ہے لیکن ساتھ ہی پروٹسٹنٹ گرجا گھروں میں انتہائی اونچی آواز میں بار بار گھنٹے بجائے جاتے ہیں۔ اکثر علاقوں میں یہ سلسلہ علی الصبح شروع ہوتا ہے اور تادیر جاری رہتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رات دس بجے کے بعد ٹائلٹ فلش کرنے کو بدتمیزی اور پڑوسیوں کے آرام میں خلل ڈالنا سمجھا جاتا ہے۔

کیسے مزے کی بات ہے کہ سابق امریکی صدر بش اور نائب صدر ڈک چینی نے سرزمین سوئس کا سفر اس خوف سے ملتوی کیا کہ انہیں خدشہ تھا کہ وہاں عراق میں جنگی جرائم کے مقدمے میں ان کی گرفتاری کا امکان موجود ہے۔ اس ملک میں قانون کی حکمرانی کا اس سے بڑا ثبوت ممکن نہیں۔