ملکہ برطانیہ کا چہلم قلندر کے آستانے پر

ملکہ برطانیہ کا چہلم قلندر کے آستانے پر
آج قلندر کے آستانے پر بڑی رونق تھی۔ ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم کا چہلم تھا۔ لنگر کے بعد خاص محفل شروع ہوئی۔ ریشماں نے گھنگرو باندھے، قلندر نے طبلہ سنبھالا۔ دونوں نے کیا سماں باندھا، لوگ عش عش کر اٹھے۔ سوچتے رہ گئے کہ ریشماں غش کھا کر گرتی ہے یا نا دھن دھن نا کی درت لے کا ٹھیکہ قلندر کے ہاتھ سے نکلتا ہے۔ مگر دونوں اپنے اپنے کام میں بے پناہ مہارت رکھتے تھے۔ ریشماں تھکی نہ قلندر بے تال ہوا۔ یہ تھی فن کی معراج۔

'اب آپ میری تھکن اتاریے۔' ریشماں قلندر کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔
'میں بھی تو طبلہ بجا رہا تھا تیرے ساتھ۔، میری تھکن کون اتارے گا؟'
'میں اتاروں گی نا پر رات میں۔۔۔'
'پھر ٹھیک ہے۔' قلندر بولا۔ 'یہ بتلا کیسے اتاروں؟'
'ملکہ کی وہ باتیں بتلائیں جو منظر عام پر نہ آ سکیں۔ وہ انفارمیشن نہیں چاہئیے جو انٹرنیٹ پر پہلے سے موجود ہے۔' ریشماں بولی۔ تھکن اتارنے والے معاملات سمیت یہ ساری باتیں سب کے سامنے ہی ڈسکس ہو رہی تھیں۔ قلندر کے آستانے پر کسی کا بھی کوئی پردہ نہ تھا۔

'کیا تُو نے مجھے کسی پاکستانی یونیورسٹی کا پی ایچ ڈی پروفیسر سمجھ رکھا ہے جو میں انٹرنیٹ سے چھاپا ماروں؟ سب کو علم ہے ملکہ نے میری اماں کو اپنی بہن بنایا ہوا تھا اور مجھے اپنے سگے بیٹے چارلس سے زیادہ عزیز رکھتی تھی۔ ان کی زندگی میں تو یہ سب کچھ کہہ نہیں سکتا تھا لیکن اب میں آزاد ہوں۔ وہ برطانیہ سے زیادہ پاکستان کے بارے میں فکر مند رہتی تھیں۔' قلندر نے ڈرامائی انداز میں کہنا شروع کیا۔

'وہ کیوں؟' ایک مرید بولا۔
'ابے وہ ہماری مادر ملت تھی۔ وہ نہ ہوتی تو بٹوارہ نہ ہوتا۔ بٹوارہ نہ ہوتا تو پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کیسے وجود میں آتے؟ اب بیچ میں مت ٹوکیو!'

'دراصل ملکہ کو پاکستان کا سب سے اہم، نازک اور حساس ایشو یعنی آرمی چیف کی تعیناتی اور مدت ملازمت میں توسیع اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ ہر مسجد گئی۔ کس مندر کی گھنٹی نہ بجائی؟ کون گوردوارے ماتھا نہ ٹیکا؟ کس کلیسا شمع نہ جلائی؟ کون سا تیرت چھوڑا؟ لاکھ جتن کئے کہ بس مسئلہ حل ہو جاوے، پاکستان میں صحیح معنوں میں بادشاہت قائم ہو جاوے جس طرح برطانیہ میں جمہوریت ہے۔ بادشاہ سلامت صرف اور صرف آرمی چیف ہوں اور ان کا جانشین ان ہی کا بیٹا ہو۔ ایسا کرنے سے یہ ہر تین سال والا ٹنٹا اور مارشل لا ایک دم سے خلاص ہو! اسی غم نے ملکہ کی بے وقت جان لے لی!'

'سولہ آنے کھری بات ہے جی۔۔!' حاجی بے نورا بولا۔ 'آرمی چیف سے بڑھ کر محب وطن کون ہو سکتا ہے!'

'یہ تو میرے سامنے کی بات ہے۔ ملکہ کی جناح صاحب سے لڑائی ہو گئی۔ ملکہ دراصل جناح کے بجائے پاٹے خان کو قائد اعظم اور بانی پاکستان و بانی بنگلہ دیش دیکھنا چاہتی تھی اور ایسا سوچنا کیا غلط تھا؟ پاٹے خان گھر داماد تھا آخر ملکہ کا۔ پر کم بخت لارڈ ماؤنٹ بیٹن دھوکہ دے گیا۔ جناح نے ایسا شیشے میں اتارا کہ ملکہ کے آخری احکام ملنے سے پہلے پہلے پارٹیشن مکمل کر دی اور اس طرح بیچارہ پاٹے خان منہ ہی دیکھتا رہ گیا۔ پھر جب ڈیوڈ کیمرون کی چھٹی ہوئی تو ملکہ ماسی مصیبتے یعنی ٹریسا مے کی جگہ پاٹے خان کو برطانیہ کا وزیرِاعظم دیکھنا چاہتی تھی مگر باجوے نے ملکہ کو پٹی پڑھائی کہ اس وقت تبدیلی ناگزیر ہے۔ پاکستان کو پاٹے خان کی اشد ضرورت ہے۔ تو جاہلو وسیع ترین قومی مفاد میں ملکہ نے باجوے کا مشورہ مان لیا۔ ویسے بھی پاٹے خان برطانیہ کا وزیر اعظم بن ہی نہیں سکتا تھا۔'

'کیوں جی؟ کیا کمی ہے اپنے پاٹے خان میں؟ آکسفورڈ سے پڑھا ہے۔' حاجی ملاوٹ دین بولا۔
'ابے تو ساری عمر گدھا ہی رہے گا ملاوٹی۔ پاٹے خان کے پاس preliminary education سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس کے بغیر ملکہ کا باپ بھی اسے پرائم منسٹر نہیں بنا سکتا تھا۔' قلندر نے غصے سے جواب دیا۔

'حضور ساتھ ساتھ explain بھی تو کرتے رہیں۔ سب تو آپ کی طرح صاحب علم نہیں۔' اسحاقے کنجر نے لقمہ دیتے ہوئے کہا۔ 'کم از کم preliminary educationکی وضاحت تو کر دیں۔'

'ابے اسے کامن سینس بولتے ہیں اور اردو میں عقلِ سلیم کہتے ہیں۔'
'اچھا!!!!! پاٹے خان کا تو اس سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں!' سب بیک آواز بولے۔

'ایک دفعہ میں بکنگم پیلس میں تھا۔ کیا دیکھتا ہوں ملکہ تہجد پڑھ رہی ہے۔ سلام پھیرنے کے بعد رو رو کر اللہ میاں سے دعا مانگ رہی ہے کہ یا پاک پروردگار میرے پاٹے خان کو عقل سلیم میری زندگی میں ہی دے دے۔ افسوس ملکہ کی دعا قبول نہ ہوئی۔ اب یہی دعا ہر پاکستانی کے لبوں پر ہے!'

'بی بی سی اردو سروس کا دن بہ دن گرتا معیار اور پھکڑ پن بھی ملکہ کی صحت پر منفی اثر چھوڑ رہا تھا۔ کہاں رضا علی عابدی اور کہاں آج کل کی برگر فیملی جنہیں ڈھنگ کی اردو آتی ہے اور نہ ہی انگریزی۔ ملکہ بی بی سی کی اردو کا کھویا عروج پھر سے دیکھنا چاہتی تھی اور یہ تب ہی ممکن تھا کہ نذیر ناجی یا عطا الحق قاسمی فی الفور بی بی سی اردو سروس کی باگ ڈور سنبھال لیں۔ مگر ہمارے میاں صاحب نے ایک کو مقتدرہ قومی زبان اور دوسرے کو پی ٹی وی میں جوت دیا۔ اس طرح بی بی سی کا بھی مکمل سروناش ملکہ کی زندگی میں ہی ہو گیا۔'

'ملکہ اپنی آنکھوں کے سامنے انگلستان میں انگریزی ادب کا زوال نہیں دیکھ سکتی تھی۔ شیکسپیئر کے انتقال کے بعد اس فن کو بھی نظر لگ چکی تھی۔ ملکہ چاہتی تھی کہ ہمارے چکوال والے شیکسپیئر جناب ایاز امیر انگلستان کی مقتدرہ قومی زبان کی قیادت سنبھال لیں مگر اپنے میاں صاحب نے انہیں ایم این اے کا ٹکٹ پکڑا کر قومی اسمبلی روانہ کر دیا۔ اب کم بخت چارلس نے فلم سٹار میرا کو یہ ذمہ داری سونپ دی ہے!'

'ملکہ اپنی زندگی میں اپنے شیخ رشید کا گھر بھی بستے دیکھنا چاہتی تھیں پر یہ آرزو بھی پوری نہ ہو سکی۔ سیاست کے علاوہ ملکہ کی پاکستان کےdevelopment اور ہائر ایجوکیشن سیکٹر پر بھی گہری نظر تھی۔ جب پاٹے خان نےHigher Education Commission (HEC) کے انتہائی قابل ڈاکٹر طارق بنوری کو راتوں رات صدارتی آرڈیننس جاری کروا کے فارغ کیا تو ملکہ کو بہت غصہ آیا۔ پاٹے خان کو تو جو سنائیں وہ سنائیں پر فوراً بنوری صاحب کو ایک خط لکھا جس پرPar Avion والا ٹکٹ لگا کر مجھے دیا اور تاکید کی کہ اپنے سامنے پوسٹ ماسٹر سے مہر لگوا کر تھیلے میں ڈلواؤ۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ ملکہ نے بنوری صاحب کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کیلئے HEC کی طرز پر آکسفورڈ اور کیمبرج کو آپس میں ضم کر کے ایک نیا کمیشن بنایا تھا۔ بنوری صاحب نے اس کمیشن کی سربراہی و رہنمائی کرنی تھی مگر وہ پاٹے خان کو عدالت میں گھسیٹتے ہوئے لے گئے اور اسے تھوکا ہوا چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ بنوری صاحب کو شاید علم نہیں کہ ملکہ نے ان کی بحالی کے لئے کتنے نفلی روزے رکھے۔ مگر وہ ابھی تلک کریڈٹ عدلیہ کو دے رہے ہیں!'

'ڈویلپمنٹ سیکٹر میں کچھ ایسا ہی ہمارے ملک کے مایہ ناز climate change expert علی توقیر شیخ کے ساتھ بھی ہوا۔ شیخ صاحب میرے ہی مرید ہیں۔ آج کل بے مرادے ہو کر آستانہ چھوڑ چکے ہیں۔ سنا ہے اب کوئی اپنا آستانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، پر اپنے سامنے کس کی دال گلتی ہے!' قلندر فخر سے بولا۔

'تو علی توقیر شیخ کے ساتھ کیا ہوا؟' ریشماں بولی۔
'وہی جو جولیس سیزر کے ساتھ بروٹس نے کیا تھا۔ علی نے دن رات محنت کر کے Leadership for Environment And Sustainable Development (LEAD) Pakistan کی 1999 میں داغ بیل ڈالی۔ لیڈ کو زمین سے آسمان تک لے گیا۔ کل کے لونڈوں نے جنہیں علی نے ذرے سے ہیرا بنایا تھا، غداری کی اور اسی کا پتہ گول کر دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ لیڈ ہی کو ختم کر دیا۔ یہ بات کسی کو معلوم نہیں کہ علی کو ملکہ نے گود لیا ہوا تھا۔ چارلس تو بہت بعد میں آیا اس دنیا میں۔ ملکہ کو پتہ چل گیا تھا کہ چارلس بغاوت پر اتر آیا ہے۔ ملکہ نے اپنے شریف الدین پیرزادہ کو راتوں رات پیلس میں بلا کر ایک نئی وصیت بنوائی جس کے مطابق تخت چارلس کے بجائے علی کو ملنا تھا۔ چارلس کو یہ بریکنگ نیوز اسی جادوگر آف جدہ نے دی۔ وہ دن اور آج کا۔ چارلس نے اسلام آباد میں موجود برطانوی ہائی کمشنر جو اس کا لنگوٹیا تھا، کو حکم دیا کہ جب تک بڑھیا یعنی ملکہ کا ہری اوم نہیں ہو جاتا، علی شیخ کو برطانیہ کا ویزا مت دینا۔ اس طرح چارلس نے علی کا حق مارا۔ تاریخ میں حق ہمیشہ صرف دو ہستیوں کا ہی مارا گیا ہے: علی اور حسین کا!'

'علی مولا!!!!!' سب نے نعرہ بلند کیا۔

'مرنے سے چند روز قبل ملکہ سے میاں صاحب نے تنہائی میں میرے سامنے ملاقات کی۔ میاں صاحب نے ڈرتے ڈرتے ملکہ سے ایک عدد سوال پوچھنے کی اجازت مانگی۔ ملکہ نے فراخ دلی سے اجازت دے دی۔ میاں صاحب کا سوال تھا: 'اماں جی مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ مجھے کیوں نکالا!'

'تو ملکہ نے کیا جواب دیا؟' شمیم نے بے قراری سے پوچھا جو آستانے کی میڈیا سپیشلسٹ تھی۔
'ملکہ نے میاں صاحب کو ہاتھ کے اشارے سے باہر نکل جانے کو کہا!' قلندر نے جواب دیا۔

'ملکہ کو پاکستانی فلمیں اور ڈرامے بہت پسند تھے۔ آخری ڈرامہ بھی انہوں نے میرے ساتھ ہی دیکھا۔ مجھے پنجابی میں کہا کہ مینوںlatest ڈرامہ وکھا۔ میں بھاگا بھاگا پنڈی کی امپیریل مارکیٹ گیا اور حاجی صاحب سے وی سی آر، ٹی وی اور نئے ڈرامے کی وڈیو کیسٹ کرائے پر لے آیا۔ سیکنڈوں میں ملکہ کے محل میں تھا۔ ڈرامے کا نام تھا: 'پاٹے خان کا فیصل آباد میں تاریخی جلسہ'۔ ملکہ اس میں پاٹے کو نئے روپ میں دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ مرنے سے پہلے اچھل کر کھڑی ہو گئی۔ اپنے مظہر شاہ کی طرح ایک زور دار بڑھک ماری، دونوں ہاتھ اٹھا کر اور منہ آسمان کی طرف کر کے بولی: 'پاٹے خان، جیوندا رہ، کم نوں چُک کے رکھ میرا پتر! اور پھر مالک حقیقی کو جان دے دی!' قلندر کا اتنا کہنا تھا کہ سب ایسے بین ڈال کر رونے لگ گئے جیسے مجالس میں مصائب کا ذکر ہوتا ہے!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔