برطانوی پاکستانی، برطانیہ کے سرکاری اعدادوشمار کی روشنی میں سب سے پیچھے!

برطانوی پاکستانی، برطانیہ کے سرکاری اعدادوشمار کی روشنی میں سب سے پیچھے!
سمندر پار پاکستانیوں کی غالب تعداد خلیجی ممالک میں مزدوری اور نچلے درجہ کے شعبوں سے وابستہ ہے۔ ان ممالک میں شہریت نہیں دی جاتی اس لئے ًسمندر پارً وجود اقامہ کی سالانہ تجدید کا محتاج ہوتا ہے۔ بیرون ملک مستقلاً آباد رہنے والوں میں سب سے بڑا حصہ برطانوی پاکستانیوں کا ہے جن کا براہ راست اثر پاکستانی سیاست، ادب اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری پر پڑتا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ آخر بابائے قوم محمد علی جناحؒ بھی انگلستان سے ہی تعلیم یافتہ تھے جو ہندوستانی سیاست سے مایوس ہو کر اس وقت تک انگلستان میں وکالت کرتے رہے جب تک مسلم لیگ کے کچھ قائدین انہیں منا کر واپس نہ لے آئے۔ پچھلے کچھ دنوں میں برطانوی پاکستانی بہت زیادہ خبروں کی زینت رہے ہیں جن میں پارک لین میں مظاہرین کی عجیب و غریب حرکتیں، پاکستانی پاسپورٹ نذر آتش کرنا، جمائمہ گولڈسمتھ کی رہائش گاہ پر احتجاج اور پچھلے سال تحریک لبیک کا بہت بڑا مظاہرہ بھی شامل ہے جس میں مظاہرین نے چھٹی کے بجائے عام، کام کے دن کثیر تعداد میں شرکت کر کے ایک ریکارڈ قائم کیا۔

برطانوی دہری شہریت کی ابتدا

دوسری جنگ عظیم کے بعد جب برطانوی سلطنت کا سورج ڈوبا تو آزاد ہوتی اقوام کی انجمن دولت مشترکہ کی 1948 کی کانفرنس میں رکن ممالک کو ہدایت کی گئی کہ وہ جلدی سے اپنے شہریت کے قوانین وضع کریں۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ ان سابقہ کالونیوں کے کچھ باشندوں کو برطانیہ میں دہری شہریت بھی مل سکتی ہے۔ اسی رعایت کے تحت متعدد پاکستانی اور ہندوستانی ڈاکٹر برطانیہ میں نئے نئے قائم ہوئے قومی ادارۂ صحت این ایچ ایس میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ بعد از جنگ معاشی بحالی سے جب صنعت کا پہیہ چل پڑا اور مزدوروں کی ضرورت پڑی تو بھرتی کے لئے نگاہ انتخاب سابقہ کالونیوں پر ہی پڑی۔ پاکستان، بھارتی پنجاب اور ویسٹ انڈیز کے محنت کشوں کی تیسری اور چوتھی نسل اس دور کی یاد دلاتی ہے۔ شہریت کے قوانین میں حالات و واقعات کی مناسبت سے وقتاً فوقتاً ترامیم کی جاتی رہیں۔ مثلاً ہانک کانگ سے جو اس وقت برطانیہ کا حصہ تھا کئی ہزار مزدور پہنچے اور ایک ضلع سے تو تقریباً سارے مرد اٹھ آئے تو مہمانوں کی حوصلہ شکنی کے لئے 1962 کا قانون بنا۔ لیکن جب کینیا اور پھر یوگنڈا سے پڑھے لکھے ہندوستانیوں کو دیس نکالا ملا تو انہیں رجھا کر برطانیہ میں لانے کے لئے 1968 کا امیگریشن ایکٹ اتنی ہی پھرتی سے بنایا گیا جس طرح پاکستان میں توسیع جیسے بقائی معاملات پر سرعت سے قانون سازی ہو جایا کرتی ہے۔ حال ہی میں وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں باہر ہونے والے رشی سناک اور پچھلی وزیر داخلہ پریٹی پٹیل ایسے ہی مہاجرین کے ہونہار بچے ہیں۔

قومی شماریات میں نسلوں کا ریکارڈ

برطانوی مردم شماری میں قومیت کا خانہ پچھلے پچاس سال سے مختلف شکلوں میں موجود رہا۔ 2011 کی مردم شماری میں 18 نسلی شناختوں کے اعداد و شمار اکھٹے کیے گئے اور آئندہ برسوں میں اسی بنیاد پر نسلی تجزیے کیے جاتے رہے۔ آخری مردم شماری 2021 میں کی گئی لیکن اس کے اعداد و شمار رواں برس دسمبر تک شائع کیے جائیں گے۔

2011 کے نتائج کے مطابق آبادی میں 87 فیصد سفید فام جب کہ 13 فیصد غیر سفید فام تھے جن میں ڈھائی فیصد ہندوستانی، دو فیصد پاکستانی، اعشاریہ آٹھ فیصد بنگلہ دیشی جب کہ چینی اعشاریہ 7 فیصد ہیں۔

برطانوی شہریوں کو حاصل حقوق

پاکستانی یا دیگر نسلوں کے جو افراد برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم ہیں انہیں سولہ سال کی عمر تک بہت عمدہ مفت اور لازمی تعلیم، کم آمدنی والے گھرانوں کے بچوں کو سکولوں میں مفت کھانے، مفت علاج معالجہ، جمہوری عمل میں شرکت کا حق، سماجی تحفظ کے تحت دستیاب تمام بینیفٹس اور ایک انتہائی طاقتور پاسپورٹ جو دنیا کے بیشتر ممالک میں بلا روک ٹوک آمد و رفت کو ممکن بناتا ہے جیسی سہولیات حاصل ہیں۔

باعث شرمندگی اعداد و شمار

قومی شماریاتی ادارے کی ویب سائٹ پر نسلی موازنے کی متعدد رپورٹس شائع شدہ ہیں۔ کچھ پیش خدمت ہیں:

پسماندہ ترین علاقوں میں رہائش

انگلستان کی 10 فیصد آبادی ان محلوں میں رہتی بستی ہے جو مختلف محرومیوں سے دوچار ہیں۔ ان علاقوں کی پسماندگی کو تعلیم و تربیت، صحت کی سہولیات، روزگار کے مواقع، ہاؤسنگ اور خدمات کی دستیابی، جرائم کی شرح اور ماحول کے تحت درجہ بند کیا گیا ہے۔ یہ شرح چینی اور ہندوستانی نسلوں میں قومی اوسط سے کم جب کہ بنگلہ دیشیوں میں دگنی ہے۔ پاکستانیوں کی 31 فیصد آبادی ان پسماندہ علاقوں میں مقیم ہے یعنی عام برطانوی سے تین گنا۔

بینیفٹس یا ریاستی سپورٹ پر انحصار

پاکستان میں بینیفٹس کا نظام پہلے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کہلایا اور پھر اسے احساس پروگرام کر دیا گیا۔ اس سے کتنے اور کون سے انسان کس ذلت آمیز انداز میں مستفیض ہوتے ہیں اس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ برطانیہ کی ویلفیئر سٹیٹ کے تحت مستحقین کو کئی بینیفٹس حاصل ہیں۔

کل آبادی کا 51 فیصد بینیفٹس وصول کرتی ہے۔ بنگلہ دیشیوں میں یہ شرح 52، پاکستانیوں میں 48 جب کہ بھارتیوں میں 37 فیصد ہے۔ چینیوں میں یہ شرح تمام نسلوں سے کم صرف 25 فیصد ہے۔

بچوں کے نام پر ملنے والا خرچہ چائلڈ بینیفٹ کہلاتا ہے۔ پہلے بچے کو 22 پاؤنڈ جب کہ اس کے بعد ہر بچے کو ساڑھے چودہ پاؤنڈ ہفتہ دیا جاتا ہے۔ چائلڈ بینیفٹ سے فیضیاب ہونے والوں کی قومی اوسط 18 فیصد ہے لیکن 34 فیصد بنگلہ دیشی، 30 فیصد پاکستانی، 19 فیصد ہندوستانی جب کہ صرف 12 فیصد چینی یہ امداد پاتے ہیں۔ چائلڈ بینیفٹ کے علاوہ چائلڈ ٹیکس کریڈٹ بچوں پر ملنے والی ریاستی اعانت ہے۔

حالیہ برسوں میں حکومت تمام بینیفٹس کو ختم کر کے ان کی جگہ یونیورسل ٹیکس کریڈٹ کا نظام نافذ کر رہی ہے۔ اس کی قومی اوسط 6 فیصد ہے لیکن بنگلہ دیشی اور پاکستانی نژاد افراد میں یہ کریڈٹ حاصل کرنے والوں کی شرح بالترتیب 18 اور 17 فیصد یعنی تین گنا ہے۔ 6 فیصد بھارتی جب کہ 4 فیصد چینی یونیورسل ٹیکس کریڈٹ کے لئے دعویدار ہیں۔

معذوری یا ڈس ایبلٹی سے خدا محفوظ رکھے، یہ ذہنی یا جسمانی دونوں طرح کی ہو سکتی ہے۔ معذور افراد کو دو قسم کے بینیفٹ مل سکتے ہیں۔ ایک کیئر یعنی دیکھ بھال کے نام پر جس سے مستفید ہونے والوں میں دس فیصد بنگلہ دیشی، 6 فیصد پاکستانی، 4 فیصد ہندوستانی جب کہ محض ایک فیصد چینی ہیں۔

معذوری کے لئے دیا جانے والا دوسرا بینیفٹ نقل و حرکت سے متعلق ہے جس کے تحت موبیلیٹی سکوٹر، سیڑھیوں کے ساتھ لفٹ، خصوصی گاڑیوں تک رسائی شامل ہیں۔ اس سرکاری مدد سے بہرہ مند ہونے والوں میں تمام آبادی کا چھ فیصد جب کہ بنگلہ دیشی 8 فیصد، پاکستانی 6 فیصد، بھارتی 2 فیصد اور چینی صفر فیصد تھے۔

بیروزگاری اور بے کاری

جنوری 2021 کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں بیروزگاری کی شرح چار فیصد تھی لیکن بنگلہ دیشی اور پاکستانی اقوام میں یہ شرح دگنی یعنی 8 فیصد پائی گئی۔ انہی دو نسلوں کی خواتین میں بیروزگاری کی شرح 11 فیصد تھی۔

بے کاری سے مراد 16 سے 64 سال کی عمر کے وہ افراد ہیں جو برسرروزگار نہیں لیکن وہ ملازمت کے متلاشی بھی نہیں۔ ایسے افراد کی قومی شرح 21 فیصد ہے اور بھارتی آبادی میں بھی اتنے ہی لوگ بے کار ہیں لیکن پاکستانی اور بنگلہ دیشیوں میں یہ شرح بہت اونچی 39 فیصد ہے۔

زبان یار من انگلش و من انگلش نمی دانم

2018 کی رپورٹ کے مطابق یہاں رہتے ہوئے انگریزی سے نابلد افراد میں سب سے زیادہ شرح بنگلہ دیشی، چینی اور پاکستانیوں کی ہے۔ بالخصوص خواتین میں اس کا تناسب بلند تر ہے۔

تعلیمی میدان میں اوسط سے کم کارکردگی

پروفیسر سٹیو سٹرینڈ آکسفورڈ یونیورسٹی میں شعبۂ تعلیم کے پروفیسر ہیں۔ نسلی، طبقاتی اور صنفی عدم مساوات ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ نسلی اقلیتوں کا سماجی رتبہ بلند کرنے کا واحد راستہ تعلیم ہے۔ ان کی تحقیق کو سند تصدیق دیتے ہوئے برطانوی سرکاری دستاویزات کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس مفصل رپورٹ کا مختصر ترین خلاصہ کچھ یوں ہے۔

اس ملک میں چار سے پانچ سال کی عمر کے بچوں میں متوقع نشوونما کا ہدف حاصل کرنے میں 78 فیصد ہندوستانی، 76 فیصد چینی، 67 فیصد بنگلہ دیشی جب کہ 64 فیصد پاکستانی کامیاب رہے۔

10 سے 11 سال کی عمر میں درکار تعلیمی استعداد 80 فیصد چینی، 77 فیصد ہندوستانی، 70 فیصد بنگلہ دیشی جب کہ 62 فیصد پاکستانی بچوں میں پائی گئی۔

16 سال کی عمر میں ہونے والے سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ امتحان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ 76 فیصد چینی، 64 فیصد ہندوستانی، 50 فیصد بنگلہ دیشی اور 41 فیصد پاکستانی کر سکے۔

اے لیول امتحان میں 25 فیصد چینی، 15 فیصد ہندوستانی، 7.8 فیصد بنگلہ دیشی جب کہ 7.3 فیصد پاکستانی نوجوان تین اے لائے میں کامیاب ہوئے۔

والدین کی مالی حیثیت، تعلیمی قابلیت اور پیشہ ورانہ مقام کا بچوں کی فتوحات میں عمل دخل نمایاں نظر آیا لیکن صرف دو گروپ والدین کی خوشحالی کے باوجود تعلیمی میدان میں پیچھے نظر آئے: سیاہ فام لڑکے اور پاکستانی نژاد لڑکیاں۔

نسلی اعداد وشمار یا فرد جرم

اعداد وشمار بذات خود بے حس، بے روح اور بے جان ہوتے ہیں۔ انہیں استعمال کرنے والی سوچ اور طاقت طے کرتی ہے کہ انہیں کس بیانیے کو تقویت دینے کے لئے بروئے کار لایا جائے۔ ایک مثالی دنیا میں برطانوی سرکار کو اخراجات کی پروا کیے بغیر اپنی پاکستانی (اور بنگلہ دیشی) رعایا کو پہلے سے زیادہ فوقیت دیتے ہوئے انہیں بہترین رہائشی، تعلیمی اور سماجی سہولیات فراہم کرنی چاہیے تھیں۔ لیکن کیا کریں ہم ایک مثالی دنیا میں نہیں رہ رہے۔ یہ ایک پوسٹ بریکسٹ، پوسٹ داعش اور پوسٹ کوویڈ دنیا ہے۔ رودرھیم کے واقعات، شمیمہ بیگم کے انٹرویوز اور انجم چوہدری کے خطبات کی بازگشت کو شاید ہم فراموش کر چکے ہیں لیکن کچھ حافظوں نے انہیں مکمل جزب کر لیا ہے۔ اس سال جون میں بنا شہریت کا نیا قانون وزارت داخلہ کو اختیار دیتا ہے کہ کسی بھی شخص کی شہریت بغیر وجہ بتائے منسوخ کر کے اسے ملک بدر کر دیا جائے۔ یہ قانون دہری شہریت اور اس سے برآمد دہری شخصیت پر کاری ضرب بن سکتا ہے۔