انگریزی تقریر سیکھنے کے لئے میاں صاحب قلندر کے آستانے پر!

انگریزی تقریر سیکھنے کے لئے میاں صاحب قلندر کے آستانے پر!
میاں صاحب نے محسوس کیا کہ ان کا ووٹ بنک دھیرے دھیرے سکڑ رہا ہے۔ دماغ لڑایا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی اردو حیرت انگیز درجے تک بہتر کر لی ہے۔ تلفظ بھی صاف اور لغت میں جگہ جگہ محاورات اور ضرب الامثال کی درست بھرمار۔ کہاں یہ بچہ توشہ خانے کو ٹوچہ خانے کہا کرتا تھا اوراب متروک محاورے استعمال کرکے عوام کو نہ صرف متاثر کر رہا ہے بلکہ انہیں اپنی جانب کھینچ بھی رہا ہے۔

نانی اماں نے دماغ کے گھوڑے دوڑائے تو دور کی کوڑی نکالی۔ پاٹے خان اور بلاول ولایت کے پڑھے فر فر انگریزی بولنے والے اگر بہترین اردو سیکھ سکتے ہیں تو ابا حضور اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اسی درجے کی بہتری لا کر ان سے بھی اچھی گٹ پٹ گٹ پٹ انگریزی بول سکتے ہیں۔

نانی نے فوراً بائیکیا کیا اور جھٹ سے لندن کے سب سے بڑے کباڑ بازار پر۔ اب ناقدین کہیں گے کہ نانی کے پاس تو پانچ مرلہ سائز کی گاڑیوں کا انبار ہے۔ بائیکیا کیوں کیا۔ ایسے جید جہلا کے لیے عرض ہے کہ برطانیہ ماچس کی ڈبیا سے بھی چھوٹا دیس ہے۔ جب بھی نانی کی لینڈ کروزر سڑک پر آتی ہے باقی گاڑیوں کے لئے جگہ نہیں بچتی اور یوں کئی کئی ہفتے ٹریفک بلاک رہتی ہے۔

نانی نے قدیم ترین پرانی کتابوں کی دکان سے جو جو ڈکشنریاں، لغات، گرائمر اور انگریزی محاورات کی کتابیں ڈسکاؤنٹ پر دستیاب تھیں جھٹ سے خرید لیں۔ ابا حضور نے دن رات ایک کرکے سب رٹ لیں اور انگریزی بھاشا میں ایک معرکتہ الآرا تقریر لکھنے میں سفل ہوئے۔

طے پایا کہ یہ پاکستان پہنچتے ہی ملک کے سب سے بڑے شہر بھائی پھیرو جو پٹواریوں کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے کے جلسے میں لائیو پڑھیں گے۔ عوام کا ٹھاٹیں مارتا سمندر میاں صاحب کی انگریزی کے سحر میں مبتلا ہو جائے گا۔

بھائی پھیرو کی وجہ شہرت اس کی انگریزی ادب کے لئے بے مثال خدمات ہیں۔ یہ اعزاز اس شہر کے پاس ہے کہ شیکسپیئر نے یہاں آنکھ کھولی۔ بس پھر تو لائن لگ گئی۔ شیکسپیئر کے بعد جین آسٹن، ولیم بلیک، جیفری چوسر، جارج ایلیٹ، جان ملٹن، جارج اورویل اور اس کا بڑا بھائی جارج اوریا مقبول جان، جارج برنارڈ شا، لارڈ بائرن، جان کیٹس، وغیرہ وغیرہ سب بھائی پھیرو ہی میں پیدا ہوئے۔ سب کے سب نے اسی شہر کے واحد پرائمری سکول سے انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کی۔

لیکن اس ہدف کے حصول میں ایک رکاوٹ تھی۔ تقریر کی ایڈیٹنگ کون کرے گا؟ بڑے سے بڑے گورے نے اوکے کر دیا یہ کہہ کر کہ انگریزی کی حد تک تو زبردست ہے مگر جو محاورے مستعمل ہیں وہ سمجھ سے یوں باہر ہیں کہ پس منظر پاکستانی کلچر ہے۔ انگریزوں کے یہاں وہ حالات پائے نہیں جاتے جن کے تناظر میں یہ مشرقی محاورات، جو میاں صاحب نے انگریزی میں ڈھالے ہیں، معرض وجود میں آئے۔ اصلاح تو وہی کر سکتا تھا جسے نہ صرف دونوں زبانوں پر عبور ہو بلکہ وہ مشرقی اور مغربی کلچر کے سر تال سے بھی مکمل واقف ہو۔ ایسا تان سین تو صرف قلندر ہی تھا!

نانی کو معلوم تھا کہ بلاول کی کلاسیکل اردو کے پیچھے قلندر کا ہاتھ ہے۔ خوش قسمتی کہ وہ آج کل اپنے لندن والے آستانے پر بیٹھ رہا تھا۔ پھر کیا تھا۔ میاں صاحب بمعہ نانی پلک جھپکتے آستانے پر بذریعہ بائیکیا!

'آؤ آؤ!' قلندر بولا۔

'حضور آپ کی مدد کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں۔ بلاول کو تو آپ نے مولوی عبدالحق بنا دیا۔ ہم پر بھی کرم کیجیے!' میاں صاحب شروع ہوئے۔

'قلندر سب کی دوا دارو کرتا ہے۔ بول کیا مانگتا ہے؟' قلندر شروع ہوا جیسے اس کا انداز ہے۔ میاں صاحب نے تمہید باندھی اور ساری رام کہانی بیان کی۔

'ہاں تو اس میں کیا مشکل ہے۔ تُو پڑھ اور جہاں جہاں ضرورت ہو گی، اصلاح کر دوں گا۔' قلندر بولا۔

'نانی نے اپنے مگرمچھ کی کھال سے بنے پرس سے کاغذ نکال کر ابا جی کو دیا اور وہ شروع:


‘Sisters and brothers! Hypocrisy of a watch thief has been over exposed. You know my signal – Paatay Khan. In power, he said Bajwa is the greatest democrat. Now he says he is Mir Jafar. Is he not a brinjal of the tray (Thali ka baingan)? Hain jee! Religion and faith is also something! (Deen aur eman bhi koi cheez hoti hay). No present is! (Koi haal nai!)


سب مرید اور قلندر قہقہے بلند کرتے ہیں۔ میاں صاحب سمجھتے ہیں پاٹے خان کے بیانات پر ہنس رہے ہیں۔ اب کے وہ ذرا جوش سے پڑھتے ہیں۔


Sisters and brothers listen with open ears (Kaan khol kay sun lo). Paatay Khan is unreliable. He is one gram in one second and two kilograms in another! (Pal mein tola pal mein maasha). He is vomiting poison (Zehar ugal raha hay) against the Army and General Bajwa who made him prime minister. He is making a hole in the saucer in which he eats. (Jis thali mein khayay oosi mein soorakh karay.) I don’t understand why the judiciary is giving him rate. (Bhao day rahay hain). Stop giving him check (Sheh dena choro). He wants Bajwa to make him PM again. Is he not the strange blue eyed boy who is asking for moon for his gaming?


اس بار مزید قہقہے بلند ہوتے ہیں اور میاں صاحب مزید پرجوش ہو جاتے ہیں۔


Paatay Khan’s long march has failed. He can’t go back. There is a well on the front and a broad ditch behind. (Aagay kunwa’n peechay khaee). He is now blaming Rana Sanaullah and my little brother Showbiz Sharif. Paatay is such a cat who is scratching the electric pole in embarrassment (Khisyani billi khamba nochay). Here is another sample of his hypocrisy. He said he will not appoint Sheikh Rashid aka sheeda talli as his peon. But he appointed him train and admission minister (Railway and Dakhla). He can make donkey his father to straighten his owl. (Ghadhay ko baap banana/apna ulloo seedha karna).


Punjab government warned him about the attack. But he does not listen to anyone except Pinki Peerni. He is just a buffalo before whom it is useless to play pipe. (Bhains kay aagay been bajana).


Paatay Khan you claim you will defeat me in my constituency. I will say that you are not a politician but a barber who makes wonderful daigs of imaginary pulao (as well as biryani, hareesa, nehari, sri paway, maghaz in free time. (Khayali pulao pakana). Paatay you staged an attack on yourself. The food container of your lies has exploded in the middle of the crossroads. (Jhoot ki haandi beech chorahay mein phoot gai). Truth is, lies don’t have feet! (Sach hay jhoot kay paoo’n nai hotay).


Paatay Khan! You are...


میاں صاحب مزید پڑھنا چاہتے تھے لیکن قلندر نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا کیونکہ مریدوں پر ہنسی کا ایک نہ رکنے والا دورہ پڑ چکا تھا جس سے قلندر نے اپنے آپ کو بڑی مشکل سے بچایا۔


'اس تاریخی تقریر میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ انگریزی بھاشا میں اس سے بہتر تحریر نہ پہلے لکھی گئی، نہ آگے لکھی جا سکے گی۔ تُو فوراً بھائی پھیرو پہنچ اور لوگوں سے خطاب کر۔ اس تقریر کے بھاگوں تجھے تیرے دیرینہ سوال کا جواب بھی مل جاوے گا جو تُو ہر ایرے غیرے نتھو خیرے سے پہلے پاکستان اور اس کے بعد برطانیہ میں پوچھتا پھرتا ہے۔' قلندر بولا۔


'وہ کون سا مائی باپ؟' میاں صاحب نے اچنبھے سے پوچھا۔
'مجھے کیوں نکالا!' قلندر نے جواب دیا اور میاں صاحب قلندر کے چرنوں میں!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔