24 گھنٹوں میں جنرل باجوہ کی قلندر کے آستانے پر دوسری حاضری!

24 گھنٹوں میں جنرل باجوہ کی قلندر کے آستانے پر دوسری حاضری!
منظر 1:
قلندر سو رہا ہے۔ ٹیں ڑی ٹیں ڑی۔۔۔ چنگھاڑتے ہوئے سائرن اس کی نیند خراب کر دیتے ہیں۔ اس کا مشیر صفدر چول بتاتا ہے کہ جنرل باجوہ آئے ہیں۔

'یہ پھر آ گیا! کل تو بخشا تھا اسے شرف باریابی۔' قلندر بڑبڑاتے ہوئے کہتا ہے۔
'ریشماں سے بول وہ کر لے اٹینڈ۔۔۔'
'سرکار ریشماں وہیں ہے۔ وہ آپ ہی سے بات کریں گے۔'
'اچھا میں نیچے آتا ہوں۔'

منظر 2:
باجوہ صاحب صوفے پر براجمان گلوکو بسکٹ چائے میں بھگو بھگو کر کھا رہے ہیں۔ قلندر سفید رنگ کے باتھ گاؤن میں سیڑھیاں اتر رہا ہے۔ اسے دیکھتے ہی باجوہ صاحب ادب سے کھڑے ہو کر سلیوٹ مارتے ہیں۔

'ابے بیٹھ جا۔ اس پروٹوکول کی ضرورت ہو گی پاٹے خان کو۔ ہمیں یہ مرعوب نہیں کرتا۔ لگتا ہے خیریت نہیں ہے۔ جبھی تو 24 گھنٹوں میں دوسری بار آ ریا ہے۔ اگر ویلا ہے تو ہو جاوے شطرنج کی بازی!'

'نہیں حضور۔ آپ سے کون جیت سکتا ہے شطرنج میں۔ خاص بات کرنا چاہتا ہوں تخلیے میں۔' باجوہ صاحب ریشماں، پنکھے اور کریلے کو آس پاس دیکھتے بولے۔

'ابے یہ سپریم کورٹ کا لاج نہیں، قلندر کا آستانہ ہے۔ بڑے بڑے راز دفن ہیں اس کی چھت اور دیواروں میں۔ یہ میرے مرید ہیں، کوئی خفیہ کیمرے نہیں۔ تُو جس مقصد کے لئے آیا ہے میں بتا دیتا ہوں۔ اصولی فیصلہ کر لیا ہے نہ تو نے مارشل لاء لگانے کا؟'

'جی سرکار! مگر یہ ٹاپ سیکرٹ تو میرے فرشتوں سے بھی پوشیدہ تھا، آپ تک کیسے پہنچ گیا؟'

'ابے وہ ہے نا اپنا مخبر۔۔۔ کیا نام ہے اس کا۔۔۔ ہاں ہضم سیٹھی۔ اسے جو خبر ملے ہے فوراً ہضم کر لیتا ہے۔ مجال ہے اس کے معدے سے باہر نکلے۔ بھلے جتنی مرضی بڑی رشوت آفر کرو، پیٹ ہلکا نہ کرے گا۔'

'ہاں اس کے ساتھ شیئر کیا تھا! پر اس نے تو قسم کھائی تھی کہ آگے کسی سے ذکر تک نہ کرے گا۔۔۔'
"ابے چپ۔ قلندر 'کسی' میں نہیں آتا۔ اگر قلندر کو بتایا تو درست کیا۔ قلندر آگے کسی کو نہیں بتاتا۔ ہمارا فتویٰ ہے کہ ہضم سیٹھی کی قسم برقرار اور کوئی کفارے کی ضرورت نہیں۔ اور خبردار! سیٹھی کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا!"

"جی مائی باپ۔ تو حضور میں نے پہلے سوچا کہ پی ٹی وی جاؤں اور وہ جو آپ نے مجھے 'میرے عزیز ہم وطنوں' والا پلٹہ سکھایا تھا اس کی میرکھنڈ کر کے بڑھت کر دوں۔ پھر خیال آیا کہ پی ٹی وی کا رخ کیا تو سب کو بھنک پڑ جائے گی۔ ساری کائنات کا میڈیا تو آپ کے لنگر پر ہی ہوتا ہے۔ اور یہاں تو سکون کے لئے آتا ہی رہتا ہوں۔ کسی کو شک نہ ہو گا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔"

'تو بڑا سمجھدار ہو گیا ہے۔ لیکن اس وقت میرا سٹوڈیو فارغ نہیں۔' قلندر بولا۔
'کیوں؟'
'یار وہ اعظم سواتی کر رہا ہے ایک تین گھنٹے کی مختصر پریس کانفرنس۔۔۔'
'اب کس کے خلاف؟' باجوہ صاحب نے پوچھا۔
'ایف آئی اے کے۔ کہہ رہا ہے ایجنسی بکواس کر رہی ہے کہ میری اور میری بیگم والی سیکس وڈیو جعلی ہے۔ بضد ہے کہ وہ اصلی ہے۔ اتنی ہی جتنی سنی لیون کی ماضی والی فلمیں!' قلندر بولا۔

'تو انتظار کر لیتے ہیں۔'

'تو انتظار نہ کر بلکہ واپس چلا جا!' قلندر بولا۔
'کیوں حضور؟ آپ ہی نے تو کہا تھا کہ مارشل لاء لگا دو!'

'ابے مجھے مس کوٹ نہ کر۔ تیرا سوال تھا کہ ایسا کیا کروں جس کے کارن پرویز الہیٰ ساری عمر یہی راگ الاپے، اوپر اللہ میاں اور نیچے باجوہ! تو اس بیک ڈراپ میں تھا مارشل لاء والا سولیوشن۔' قلندر بولا۔

'جی جی۔ سوری سوری! لیکن مجھے واپس جانے کا کیوں کہہ رہے ہیں؟ کیا سواتی کی مختصر پریس کانفرنس سارا دن چلے گی؟'
'نہیں باجوے۔ ایسا نہیں ہے۔ ابے کریلے چلا تو ذرا ننّھے والا کلپ۔'

کریلا ہے تو ماؤتھ پیس قلندر کا بالکل ایسے جیسے ارشد شریف تھا پاٹے خان کا۔ مگر کمال کا شاعر بھی ہے۔ تخلص 'شیریں' کرتا ہے۔ کریلے کی شیریں گفتار بد تمیز سے بدتمیز اور جاہل سے جاہل اینکر کو اس کا مرید بنا دیتی ہے۔ کریلا ملٹی میڈیا آن کرتا ہے۔ کلپ چلتا ہے۔

معین اختر ننّھے سے: 'ننھا صاحب مجھے کسی نے ایک دفعہ یہ بتایا تھا کہ شاید ننھا ٹیلی وژن پر خبریں پڑھنے والے ہیں۔'

ننھا: ہاں۔ ایک دن کہا تھا مجھے۔۔۔ کہنے لگے کہ وہ نیوز کاسٹر نہیں آیا تو ننھا بات سنو۔۔۔ جلدی سے جلدی سے۔۔۔ (اس وقت لائیو پروگرام تھا۔ میں نے کہا فرمائیے۔ یہ۔۔۔ یہ خبریں پڑھ دو۔ میں نے کہا پڑھ تو دوں گا، یقین کوئی نہیں کرے گا!'

'سرکار یہ کلپ تو میں نے کئی بار دیکھا ہے۔ ننھا میرا پسندیدہ کامیڈین تھا۔ اس ٹوٹے کا میرے مارشل لاء سے کیا تعلق؟'
'مجھے معلوم تھا تیری سمجھ سے اوپر کی چیز ہے۔ ابے ننھے کی طرح تیرے مارشل لاء پر یقین کوئی نہیں کرے گا۔ سب سے پہلے تو تیرے اپنے ہی نہ مانیں گے! کریلے ذرا لگا تو ڈاکٹر پلید چترزادہ والا کلپ۔ ویسے یہ بھی سمجھ نہیں آئے گا اور مجھے ہی تشریح کرنا پڑے گی۔' قلندر بولا۔

کلپ چلتا ہے۔ ڈاکٹر پلید چترزادے کا باپ بستر مرگ پر ہے۔ اس کے ہاتھوں میں پراپرٹی کے کاغذات ہیں۔ وہ باپ کے انگوٹھے پر لگاتا ہے سیاہی اور اگلے لمحے عکس کاغذات پر۔ بہنوں بھائیوں کا وراثت میں حصہ ہڑپ! کیونکہ کاغذات کی رو سے والد یہ سب پراپرٹی ڈاکٹر پلید کو مارکیٹ پرائس پر بیچ چکا ہے!

کلپ ختم ہوتے ہی قلندر باجوہ صاحب کی جانب دیکھتا ہے۔ وہ نفی میں سر ہلاتے ہیں۔ قلندر پھر سے سمجھاتا ہے۔

'ماں باپ کا سایہ تا حیات رہے، یہ دعا تو سب نے سنی ہو گی۔ مگر طویل سائے اولاد کو پسند نہیں۔ اولاد دل میں کوستی ہے۔ بڈھا سالا مرتا نہیں؟ کب مکمل کرے گا آخری سانسیں اور ہو گا بٹوارہ! تُو باپ ہے فوج کا۔ تیرے جرنیل اولاد کی طرح ہیں۔ تُو ایک ایکس ٹینشن جو کہ نری ٹینشن ہوتی ہے، لے چکا۔ ایوب کا مارشل لاء 10 برس۔ ضیاء کا 11 برس۔ مشرف کا 9 برس۔ تیرا ان آفیشل مارشل لاء ایوب کے آدھے سے تو زیادہ ہو ہی چکا۔ ایک لمبی قطار ہے جن کی نگاہیں اس کرسی پر ہیں جس پر ابھی تُو براجمان ہے۔ تیرا مزید سایہ تیری اپنی اولاد کے لئے مصیبت بن جائے گا۔ کہیں وہ ڈاکٹر پلید چترزادہ نہ بن جائے۔ لیکن تو اگر خاموشی سے شیروانی اور جناح کیپ پہن لے 29 نومبر کے بعد تو تیری بڑی جے جے کار ہو گی۔ اور تیری اولاد نہ صرف بہت عزت دے گی بلکہ تجھے کوئی بہت بڑا عہدہ بھی مل سکتا ہے مثلاً وزیر دفاع!' قلندر بولا۔

'سرکار یہ کیسے ممکن ہے۔ اس کے لئے تو الیکشن لڑنا پڑے گا۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد تو نہیں حصہ لے سکتا سیاست میں کیونکہ قانونی مجبوری ہے۔ اور میں چناؤ میں کھڑا ہو بھی گیا تو شاید اپنے گھر کے ووٹ بھی نہ پڑیں۔'

'ابے مارشل لاء کی صورت میں سب ممکن ہے۔ سارے قوانین بشمول آئین ایب روگیٹ (منسوخ) ہو جاتے ہیں!' قلندر بولا۔
'مارشل لاء کون لگائے گا؟'

'تیرا جانشین!' قلندر بولا۔

'یہ کیسے ممکن ہے؟'

'یہی تو ممکن ہے! جو صورت حال ملک کی اس وقت بن چکی ہے یہ تیری ہی دین ہے۔ صرف مارشل لاء ہی سے درست کی جا سکتی ہے۔ یہ مارشل لاء والا پھلدار پودا تو نے لگایا تھا۔ اب یہ تناور درخت بن چکا ہے اور پھل دینے ہی والا ہے۔ مگر اس کا پھل کھائے گی تیری اولاد۔ اگر بامراد ہوئی تو صلے میں کچھ تجھے بھی مل جاوے گا، بخشش میں۔ کوئی وزارت یا کسی ملک میں سفارت! تیرے مارشل لاء کو کوئی انڈورس نہیں کرے گا کیونکہ پاٹے خان نے تجھے بہت ہی متنازعہ بنا دیا ہے۔ نئی سلیٹ صرف تیرے جانشین کو میسر ہوگی۔ اگر اس نے مارشل لاء لگا دیا تو مٹھائیاں تقسیم ہوں گی۔ سب سے پہلا ہار ڈالے گا چودھری پرویز الہیٰ۔ دم ہلاتے آوے گا شاہ محمود قریشی بطور پی ٹی آئی کا نیا کپتان۔ باقی سارے مثلاً شیدا ٹلی، اسد عمر، فواد چودھری، پرویز خٹک، فردوس عاشق اعوان، وغیرہ وغیرہ بھی اس کے نو رتن بننے کی امید میں دم ہلاتے آ جاویں گے۔ ایک اور مسلم لیگ وجود میں آ جاوے گی اور ہو جائے گا دما دم مست قلندر!'

'درست فرمایا سرکار۔ اچھا ہوا آپ نے مجھے روک لیا۔ میں چلتا ہوں۔' باجوہ صاحب بولے۔

'اچھا ہے۔ یہ لیتا جا۔' قلندر ایک بڑا سا تحفہ باجوہ صاحب کے ہاتھوں میں تھماتا ہے۔
'اس کی کیا ضرورت تھی سرکار! ویسے کیا ہے اس میں؟'
'شیروانی اور جناح کیپ!' قلندر بتاتا ہے!
باجوہ صاحب مشکور نظروں سے دیکھتے ہوئے رخصت ہو جاتے ہیں۔

آخری منظر:
کریلا آستانے پر پریس کانفرنس کر رہا ہے۔ سب ملکی و غیر ملکی میڈیا موجود ہے۔ چلّا چّلا کر بریکنگ نیوز دے رہا ہے کہ کیسے جنرل باجوہ کو باز رکھا قلندر نے مارشل لاء لگانے سے اور کیا گُر سکھلایا آنے والے چیف کو مارشل لاء لگانے کا!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔