نئے آرمی چیف کی قلندر کے آستانے پر حاضری!

نئے آرمی چیف کی قلندر کے آستانے پر حاضری!
منظر 1:
قلندر بوبی فشر کے ساتھ آن لائن شطرنج کھیل رہا ہے۔ بوبی شہہ پہ شہہ دیتے ہوئے اسے تگنی کا ناچ نچا رہا ہے۔ پر وہ بھی بادشاہ کو ہر بار کسی نہ کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی نازک اثنا میں کوئلہ مخل ہوتا ہے۔ یہ قلندر کا پیسٹری شیف ہے۔ رنگ گورا چٹا کیونکہ ماں اور باپ دونوں حسبی نسبی انگریز تھے۔ آستانے پر رہ کر کوئلہ اہل زبان کی طرح اردو اور پنجابی بمحاورہ بمعہ گالم گلوچ بولنے کے قابل ہو چکا ہے۔

'سرکار حافظ صاحب آئے ہیں۔'

'ارے! بھئی بٹھا۔ ہمارے پورے علاقے میں اکیلے حافظ جی ہی ایسے ہیں جو خالص دودھ دہی بیچتے ہیں اور ان کی تمام مٹھائیاں دیسی گھی میں تیار ہوتی ہیں۔ دام اونچے ہیں پر پکوان بھی اونچا ہے۔'

'حجور یہ حافظ سویٹس اینڈ بیکرز والے 'حافظ' نہیں ہیں!'

'سمجھا! ابے بوبی یہ باقی کی بازی میری جگہ کوئلہ کھیلے گا اور تجھے ہرائے گا انشاء اللہ!' قلندر یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

منظر 2:
قلندر اور جنرل صاحب تشریف فرما ہیں۔ میڈیا فوٹوویں لے رہا ہے۔ قلندر تخلیے کا اشارہ کرتا ہے۔ سب لاؤنج سے باہر! ان دونوں کے علاوہ کریلا، قلندر کا ترجمان اور ریشماں آستانے کی ڈپٹی اور ملکہ کتھک اس میٹنگ میں ہیں۔

'بہت بہت مبارک!'
'سرکار یہ سب آپ کی کرپا ہے ورنہ بندہ کس قابل!'
'ابے اتنی زیادہ کسرِ نفسی بھی اچھی نہیں ہوتی۔ تُو مستحق تھا۔ اچھا بسکٹ کھائے گا چائے میں بھگو کر؟'
'سرکار کون ہے جو نہیں کھائے گا؟ لیکن بسکٹ گلوکو ہو!'
'گلوکو ہی ہے۔ ابے کریلے!' قلندر اشارہ کرتا ہے اور وہ سمجھ جاتا ہے۔
'کیسے آیا؟'

'سرکار بہت ہو چکی۔ اب ہم اصولی طور پر اے پولیٹیکل ہو جائیں گے۔ ایک ہزار فیصد! آئین کی رُو سے مسلح افواج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں۔ فوج مکمل طور پر سویلین قیادت کے تابع ہے۔ میں نے نیا آئین بنایا ہے اور اسے اپنی پہلی تقریر کے فوراً بعد نافذ کر دوں گا۔ سوچا آپ سے نوک پلک درست کروا لوں۔ کوئی گرائمر یا املا کی غلطی نہ ہی ہو تو اچھا ہے۔' یہ کہتے ہوئے جنرل صاحب ایک بھاری بھرکم کتاب قلندر کی جانب بڑھا دیتے ہیں۔

'ابے اسے اپنے پاس ہی رکھ۔ تیری مثال وہ ہے: نواں آیا ایں سوہنیا! علم ہے نتائج کا؟ قلندر تو دجلہ میں قطرہ دیکھ لیوے ہے! دیکھ کیا فلم چل چکی میری آنکھوں میں۔' قلندر کہتا ہے اور پھر کریلے کی جانب دیکھتا ہے۔ کریلا سمجھ جاتا ہے۔ لاؤنج میں بتیاں گل کر کے ملٹی میڈیا آن کر دیتا ہے اور ایک سنسنی خیز فلم شروع ہوتی ہے۔

منظر 3:
جنرل صاحب کو چارج سنبھالے چھ ماہ ہو گئے ہیں۔ بڑا صاحب شریف وزیر اعظم ہے۔ 'لوٹے کو عزت دو' کے نعرے کی بدولت سو فیصد مالک ہے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا۔ قوم سے خطاب کر رہا ہے:

'میرے عزیز ہم وطنو! ہمارے ازلی دشمن تروتازہ ہو کر ہم پر پھر سے حملہ آور ہیں۔ ہمارے سپہ سالار چھ ماہ سے بنا آرام کئے ان سے نبرد آزما ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں انہیں آرام کی ضرورت ہے۔ اس لئے میں نے اتفاق رائے سے اپنے ہمزاد کے ساتھ مشاورت کر کے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آج سے آرمی چیف کی مدت ملازمت چھ ماہ ہو گی۔ چونکہ جنرل صاحب یہ معیاد پوری کر چکے ہیں لیکن ملک کے عظیم ترین مفاد میں یہی ہے کہ وہ اس منصب پر قائم و دائم رہیں۔ لہٰذا میں بہت خوشی سے انہیں 24 گھنٹے کی ایکس ٹینشن دے رہا ہوں۔'

منظر 4:
24 گھنٹے گزر چکے۔ بڑا صاحب ایکس کلوسِو پریس کانفرنس کر رہا ہے جس میں زیادہ تعداد باضمیر، با کردار، نڈر، باہمت، ایمان دار اور اصول پرست صحافیوں، اینکروں اور اینکرنیوں کی ہے۔ جمہوریت کا انگ دینے کے لئے چند بے ضمیر صحافی بھی مدعو ہیں مثلاً معروف ملاکھڑا، عامل متین، حسرت جاوید، وغیرہ۔

'عزیز ہم وطنو! میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں یہ اعلان کرتے کہ آپ کے نئے آرمی چیف آپ کے ہر دلعزیز کیپٹن (ر) بھگدڑ عوام ہوں گے۔ آپ کے ذہن میں لاکھوں سوالات ہوں گے تو میں سب سے پہلے درخواست کروں گا جناب جید صحافی صاحب سے کہ وہ کھل کر پوچھیں۔' بڑا صاحب کہتا ہے۔

جید صحافی کسی زمانے میں بے انتہا متحرک ہوا کرتا تھا۔ بھاری بھرکم لمبے بوٹ سیکنڈوں میں پالش کر دیا کرتا تھا لیکن کب تک۔ ڈھلتی عمر کے ساتھ توانائی کم ہوئی تو اس نے ارشد شریف کی طرح سوچا کہ کھیڑیاں پالش کی جاویں۔ چھوٹی ہوتی ہیں۔ زیادہ پالش بھی نہیں لگتی۔ زور بھی بہت کم لگتا ہے۔ لیکن بوٹوں والوں کو یہ ادا پسند نہ آئی۔ انہیں اس سے بہتر پالشیا و مالشیا مل ہی نہیں سکتا تھا۔ پھر کیا تھا۔ ٹھاہ ٹھاہ اور ایک دم درجن بھر ڈسپرین کی گولیاں چائے میں ڈال کر پیش کر دیں۔ اسی دن سے یہ بیچارہ جامد ہے مگر جمہوریت کی جنگ میں سب سے زیادہ متحرک! فیصلہ کر چکا ہے کہ کبھی بوٹ پالش نہیں کرے گا، حق کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہے گا۔ صرف کھیڑیوں پر توجہ دے گا لیکن بدمعاشوں کی نہیں صرف شریفوں کی!

'اس سے زیادہ دانشمندانہ فیصلہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا! میں آپ کو اپنے ٹی وی چینل 'پیو' (P.K والا ٹُن) کی جانب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔' جید کہتا ہے اور ہم نوا اسی طرح تالیاں بجاتے ہیں جیسے قوال پارٹی۔ اگلے پچاس سوال یہ سب باضمیر کرتے ہیں جو دراصل ایک کمنٹ ہوتا ہے ہو بہو ویسا ہی جیسا جید کا تھا۔ کافی دیر بعد بے ضمیر صحافیوں کو بولنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ معروف ملاکھڑا بڑا صاحب کو یاد دلاتا ہے کہ آئین کی رو سے صرف ایسا حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل آرمی چیف بن سکتا ہے جس نے کور کمانڈ کی ہو۔

'اجی آپ بہت بڑے 'باخبر' صحافی بنے پھرتے ہیں! معلوم نہیں کہ فوج اب اے پولیٹیکل ہو چکی ہے۔ اب ہمارے تھلّے ہے۔ ہماری مرضی جسے مرضی لگائیں، ہیں جی!' بڑا صاحب جواب دیتے ہی پریس کانفرنس ختم کر دیتا ہے۔

منظر 5:
چھ ماہ مکمل ہوئے۔ بڑا صاحب پھر وہی تماشہ لگائے بیٹھا ہے۔ اب بتلا رہا ہے کہ آئین میں اس نے ایک نئی تبدیلی کر دی ہے جس کی رو سے کیپٹن (ر) بھگدڑ عوام تاحیات آرمی چیف ہوں گے۔ سب باضمیر صحافی با آواز بلند کہتے ہیں: 'بڑا صاحب ساڈا شیر اے، باقی ہیر پھیر اے!' اس بار حسرت جاوید سوال کرنے کے لئے ہاتھ کھڑا کرتا ہے مگر بڑا صاحب یہ کہہ کر چپ کرا دیتا ہے کہ 'پریس کانفرنس از اوور!'

منظر6:
کیپٹن (ر) بھگدڑ عوام کور کمانڈرز میٹنگ کی سربراہی کر رہا ہے۔ جہازوں کی خریداری کا معاملہ ہے۔ بھگدڑ کہتا ہے ہم اسلام کے سچے مجاہد ہیں۔ گھوڑوں اور تلواروں سے لڑتے ہیں۔ ہمیں جہازوں کی ضرورت نہیں۔ ویسے ایک انوائس حاصل کر لو جو بائیڈن سے ایک ہزار جہاز کا مگر پے منٹ صرف ایک کی کرنا۔ بقایا لندن کے مشہور فلاحی ادارے He Fled میں عطیہ کر دو۔

'یہ کیا بھونڈا مذاق ہے سرکار!' جنرل صاحب پوچھتے ہیں۔
'بیٹا ابھی تو ٹریلر ہے! اگلے منظر میں مسز بھگدڑ عوام کو ڈی جی آئی ایس آئی لگانا تھا بڑے صاحب نے!'
'آپ کا سٹوڈیو ریڈی ہے کیا؟' جنرل صاحب پوچھتے ہیں۔
'چوبیس گھنٹے ریڈی رہتا ہے!' قلندر آنکھ مار کے کہتا ہے۔

آخری منظر:
جنرل صاحب قلندر کے آستانے سے براہ راست ساری دنیا سے مخاطب ہیں:

'میرے عزیز ہم وطنو! میرے کندھوں پر اس نازک وقت میں بہت ہی بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ اس سے کئی گنا بھاری جسے میرے بزرگوں ایوب، ضیاء اور مشرف نے وردی میں سرعام اٹھایا تھا۔ جسے میرے بزرگوں بیگ، کاکڑ، کیانی، راحیل اور باجوہ نے پس پردہ اٹھایا۔ چونکہ یہ اس سے بھی زیادہ بھاری ہے اور آپ کے تعاون کی مستحق ہے، لہٰذا اسے سر عام وردی پہن کر ہی اٹھانا پڑے گا۔ اس سے زیادہ نازک وقت ہمارے پیارے وطن پر پہلے کبھی نہیں آیا۔ پاکستان تخریبی انتشار (پی ٹی آئی) کے فتنے پاٹے خان کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے لازمی ہے کہ ملک میں غیر معینہ مدت کے لئے مارشل لاء لگا دیا جائے اور آئین جیسی عیاشی کو فی الفور حرام قرار دے دیا جائے۔ کیا آپ اس کار خیر میں میرے ساتھ ہیں؟'

سب نعرہ بلند کرتے ہیں: 'چیف تیرے جانثار بے شمار!' اور قلندر دل ہی دل میں کہتا ہے: 'جی خوش کر دتا ای سوہنیا!'

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔