جنرل باجوہ کی قلندر کے آستانے پر تیسری حاضری!

جنرل باجوہ کی قلندر کے آستانے پر تیسری حاضری!
پہلا منظر:
قلندر کے آستانے کے باہر سخت سکیورٹی۔ بکتر بند گاڑیاں، ٹینک شکن توپیں، چنگھاڑتے ہوئے سائرن والی ایمبولینسز اور فائر بریگیڈ کے ٹینکرز، آستانے کے اوپر منڈلاتے درجنوں ہیلی کاپٹر، انٹرنیٹ ڈاؤن، موبائل سروس معطل! یہ سمجھ کر کہ شاید وہ مردُود جسے آستانے کے مرید چھچھوندر مودی کہتے ہیں، پاکستان پر حملہ آور ہو چکا ہے۔

قلندر اپنے بزرگوں کی صدیوں پرانی تلوار ہاتھ میں تھامے آستانے کے باہر آ جاتا ہے جیسے مد مقابل یقیناً چھچھوندر ہی ہو گا۔ مگر اس کا جذبہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ ٹینک کے ڈھکنے سے جنرل باجوہ برآمد ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ منظر قلندر کی آنکھوں کے لیے بہت ہی مایوس کن ہوتا ہے۔ اپنی دانست میں تو آج وہ منحوس مُودی کا سر قلم کر چکا تھا!

'ابے دھیان سے باہر نکل۔ کہیں کمر میں چُک نہ پڑ جائے!' قلندر باجوہ صاحب کو متنبہ کرتا ہے۔ اپنے آپ کو گھما پھرا کر وہ بھی کسی نہ کسی طرح ٹینک سے باہر آ ہی جاتے ہیں۔

'نہیں پڑتی چُک سرکار۔ ابھی تو میں جوان ہوں۔ بیسیوں ایکس ٹینشنز کے لیے تیار ہوں!' باجوہ صاحب گنگناتے ہوئے کہتے ہیں۔

'ابے تو پھر سمری کیوں بھیجی؟'
"سرکار بچوں کی خواہش تھی کہ اب تھوڑی بہت چھپن چھپائی ان کے ساتھ بھی کھیل لوں۔ آرمی چیف اگر وردی میں ہے تو لاکھ والا اور ریٹائرمنٹ کے بعد سوا لاکھ والا ہاتھی ہوتا ہے۔ ویسے عاصم اپنا بڑا ہی سعادت مند بچہ ہے۔ مجھے قسم اٹھا کر یقین دلا چکا ہے کہ جب میرا دل کرے، واپس آ جاؤں۔ وہ فوراً وردی اتار کر میرے قدموں میں ایسے ڈال دے گا جیسے شیدے ٹلی نے پنڈی والی دونوں نشستیں جیت کر نوسرباز شریف کے قدموں میں ڈال دی تھیں۔ اسے میں زیب تن کر کے دوبارہ نت نئے تجربات کر سکتا ہوں۔ میں نے اسے کہا کہ نئیں پُتر اس کی کوئی لوڑ نئیں۔ اصلی فیصلے تو میں ہی کروں گا۔ تُو صرف دکھاوے والا آرمی چیف ہو گا۔ اس پر وہ فرماں بردار 'بے شک بے شک' والا پلٹہ الاپنا شروع ہو گیا۔" باجوہ صاحب بولے۔

'بڑی باچھیں کھل رہی ہیں تیری۔ کوئی خاص بات ہے؟ اور یہ اتنا بڑا لاؤ لشکر کس لیے لایا ہے؟'

'سرکار یہ لاؤ لشکر نہیں ہے۔ ان توپوں، بکتر بند گاڑیوں، ہیلی کاپٹروں، ایمبولینسز، فائر بریگیڈ ٹینکروں وغیرہ میں مٹھائیوں کے ٹوکرے ہیں۔ آستانے کی نذر ہے! اور باچھیں کیوں نہ کھلیں۔ کیا آپ نے کل والی تقریب نہیں دیکھی؟'
'کون سی؟'
'یوم دفاع اور شہدا والی جو مواصلاتی سیارے نے جی ایچ کیو سے براہ راست ساری خلقتِ خدا کو دکھلائی۔۔'
'اچھا وہ والی! اس میں باچھیں کھلنے والی کیا بات تھی؟' قلندر پوچھتا ہے۔

'سرکار کمال بات کرتے ہیں آپ۔ مایا علی کو نہیں سنا آپ نے؟ سنا نہیں کیا کہا اس نے؟' باجوہ صاحب کہتے ہیں۔
'کیا کہا بے اس نے؟' قلندر اپنے ترجمان کریلے کی جانب دیکھ کر پوچھتا ہے؟
'حضور کریلا کیا بتائے گا، مجھ سے پوچھیں۔ وہ میرے بارے میں تھا۔ مایا علی نے سب کے سامنے مجھے سند عطا فرمائی۔' باجوہ صاحب نے اپنا فون قلندر کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔

"ذرا توجہ فرمائیے، کیا کہہ رہی ہے مایا علی اس کلپ میں۔ وہ کہہ رہی ہے اور یہ میرے بارے میں ہے:
'آپ وہ جرات مند آفیسر ہیں جنہوں نے اپنی عسکری زندگی کا بیش تر حصہ لائن آف کنٹرول پر موجود دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گزارا۔ تاریخ جب آپ کا ذکر کرے گی تو آپ کا نام دنیا کی مشکل ترین جنگ لڑنے والے سپہ سالاروں میں لکھا جائے گا۔'"

مایا علی کا آخری جملہ ختم ہونے سے پہلے ہی قلندر کا لان فلک شگاف قہقہوں سے گونج اٹھتا ہے۔ سب مرید بشمول قلندر ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں اور باجوہ صاحب ہونّق!

'اس میں قہقہے لگانے والی کیا بات ہے سرکار؟' باجوہ صاحب پوچھے بغیر نہ رہ سکے۔

'ابے جب یہ لونڈیا تجھے دنیا کا عظیم ترین خراج تحسین پیش کر رہی تھی تو تیرے چہرے پر خوشی کے آثار دور دور تک نہ تھے۔ ہاں البتہ 12 ضرور بج رہے تھے۔ اور تُو خود گہری سوچ میں ڈوبا نظر آیا۔ سوچ رہا ہو گا کہ کس کے بارے میں کہہ رہی ہے! آیا سمجھ شریف میں!' قلندر بولا اور باجوہ صاحب کو سانپ سونگھ گیا۔

'چل اب منہ نہ لٹکا۔ اندر گپ شپ کرتے ہیں۔'

دوسرا منظر:
لاؤنج میں چار آدمی ہیں: قلندر، باجوہ صاحب، ریشماں اور کریلا۔ باجوہ صاحب اپنے پسندیدہ گلوکو بسکٹ چائے میں ڈبو ڈبو کر پاٹے خان انداز میں نوش فرما رہے ہیں۔

'تُو نے مجھے ایک کلپ دکھایا۔ میں تجھے ہزاروں دکھا سکتا ہوں۔ لیکن چند ایک پر ہی اکتفا کروں گا۔ ابے کریلے لگا تو ذرا۔'
اگلے لمحے ملٹی میڈیا پر پاٹے خان کی روحانی اولاد نمودار ہوتی ہے جن کے 'زبان پر عبور' کے سامنے مایا علی کا خراج تحسین ماند پڑ جاتا ہے اور باجوہ صاحب کے چہرے پر کئی رنگ آتے اور کئی جاتے نظر آتے ہیں۔

اس سے اگلے کلپ میں Civil Society (جسے قلندر اور اس کے پیروکار Evil Society جانتے ہیں) کے ٹھیکیدار بک بک کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سب کی زبان پر وہی گھسا پٹا جملہ۔۔۔ ملک چلانا سیاست دان کا اور سرحد کی حفاظت کرنا فوج کا کام ہے۔

غصہ تو باجوہ صاحب کو تب آتا ہے جب فوج کا سابقہ پالتو اینکر جامد پیر بھی 70 کے حوالے سے Evil Society کی زبان بولنے لگ جاتا ہے۔

'لوٹا کہیں کا۔ ایک وقت تھا ہمارے بزرگوں کے جوتے چاٹا کرتا تھا۔ اب جمہوریت، آزادی صحافت اور انسانی حقوق کا بہت وڈا علم بردار بنا پھرتا ہے۔' باجوہ صاحب تلماتے ہوئے بولتے ہیں۔

'ابھی بھی چاٹتا ہے لیکن رات کی تاریکی میں۔ تجھے پتہ نہیں چلتا کیونکہ تُو عشاء کے بعد سو جاتا ہے۔ ابے جامد کسی کھیت کی مولی نہیں۔ فساد کی جڑ تُو خود ہے۔' قلندر کہتا ہے۔
"میں کیسے؟ میری تعریفوں کے پُل تو کل نجم سیٹھی نے بھی باندھے، باوجود اس کے کہ میں اب قصہ پارینہ ہونے جا رہا ہوں اور پچھلے چھ سال میں نے اسے گھاس اور اس کی کاٹھ کی چڑیا کو دانہ پانی تک نہ ڈالا۔ ویسے اب احساس ہو رہا ہے کہ سچا صحافی، تجزیہ نگار اور اینکر ٹینکر ہے۔ غروب ہوتے سورج کو بھی سلام کر رہا ہے۔ اپنی آٹو موبائل بائیوتھراپی اس سے ہی لکھواؤں گا اور اسی کے پریس 'سوزوکی وین گارڈ' ہی سے چھپواؤں گا۔ اور اگر دوبارہ وردی پہننے کا موڈ ہوا تو اسے وائس چیف آف آرمی سٹاف لگاؤں گا۔' باجوہ صاحب بولے۔

'تیری بک بک ختم ہو گئی ہو تو کام کی باتیں کروں؟'
'جی جی سرکار حکم کریں'

'ابے کیا ضرورت تھی تجھے کل بھاشن آمیز تقریر کرنے کی۔ کہہ تُو ریا تھا کہ ہم غیر سیاسی بن چکے ہیں اور کر تُو ریا تھا نیتا گیری۔ تجھے کس پاگل کے پُتر نے مشورہ دیا تھا کہ 71 کا ذکر چھیڑ۔ اپنی تقریر رسمی اور ٹو دی پوائنٹ بھی رکھ سکتا تھا۔ یہ پولیٹیکل سائنس کا پرچہ حل کرنے کیوں بیٹھ گیا!' قلندر اب غصے میں مخاطب تھا۔

'لیکن سرکار وہ مایا علی۔۔۔'
'ابے بھاڑ میں جھونک مایا علی کی بکواس کو۔ کل کو اگر کوئی بھانڈ، نوٹنکی کار، مراثی، کنجر یا ڈومنی یہ کہہ دیوے کہ کتھک کی دنیا میں پاٹے خان سے بڑا مہاراج کوئی نہیں جو ایک ٹانگ کے علاوہ دونوں پر بیٹنگ پیڈز والے پلستر باندھ کر بنا گھنگرو کے پائل بجا سکتا ہے تو کیا دنیا مان لے گی؟ ابے مایا علی لکھا لکھایا سکرپٹ پڑھ رہی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کال کریو اسے۔ اٹینڈ تک نہ کرے گی۔ ہو سکتا ہے تجھے بلاک ہی کر دے۔' قلندر کہتا ہے۔

'پھر کیا کروں سرکار؟' باجوہ صاحب پوچھتے ہیں۔
"میری مان، 'ریٹائرڈ آرمی چیف (صرف ایکس ٹینشن والے) ویلفیئر ایسوسی ایشن' قائم کر جنرل فیض علی چشتی کی طرح اور اس کا تاحیات پیٹرن ان چیف بن جا۔ اس ملک کے رنڈی رونے تو بڑھنے ہی ہیں۔ تُو بس روز ایک ٹنٹے کو لے کر شام کو پریس کلب پر نازل ہو جائیو۔ صحافیوں و اینکروں سے ایک آدھ خطاب کر لیجیو۔ خبروں میں بھی زندہ رہے گا اور 'ٹور' (چودھراہٹ) بھی بنی رہے گی!"

'واہ قلندر واہ!' باجوہ صاحب صوفے سے اچھل کر نعرہ بلند کرتے ہیں اور اسی اثنا میں ان کی کمر میں چُک پڑ جاتی ہے!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔