سیٹھی نہیں تو کون بے! ہے کون اِدھر؟

سیٹھی نہیں تو کون بے! ہے کون اِدھر؟
صحافت کے سہراب اور رستم یعنی احمد نورانی اور ہارون رشید نے بیک وقت ارشاد فرمایا کہ نجم سیٹھی تو صحافی ہی نہیں۔ خلیل خان تو اڑایا کرتے تھے فاختہ۔ یہ سیٹھی اڑاتا ہے چڑیا جو کہ ہم نے تو آج تک دیکھی ہی نہیں۔

بھئی یہ سنتے ہی میری آنکھوں کے آگے تو چھا گیا اندھیرا۔ فٹ لگایا فون اپنے پرنٹر کو اور دیا حکم کہ کر تبدیل فوراً ہمارا بزنس کارڈ اور جہاں لکھا تھا: Senior Most Junior Journalist اسے کر دے: Senior Most Junior

وہ لگا تاویلیں جھاڑنے کہ حضور آپ کا تو 32 برس کا تجربہ ہے ملکی اور غیر ملکی اخباروں میں لکھنے کا۔ میں نے کہا ابے بکواس بند کر اور جیسے کہہ رہا ہوں ویسے کر۔ بزنس کارڈ تیرا ہے یا میرا۔ میں جو مرضی لکھواؤں، تیرے باپ کا کیا جاتا ہے۔ میری شائستہ زبان اس کی سمجھ میں فوراً آ گئی۔ مجھے احساس ہوا کہ کچھ زیادہ ہی ہو گیا۔ دوبارہ فون کیا اور بتایا کہ: 'سیٹھی نہیں تو کون بے! ہے کون ادھر؟'

اس کے ساتھ ہی ذہن سن 40 میں پہنچ گیا۔ دنیائے کلاسیکی موسیقی پر دو گویوں کا راج ہے۔ قصور گھرانے کے استاد بڑے غلام علی خان اور اندور گھرانے کے استاد امیر خان۔ کیا گانا ہے دونوں کا۔ آکار ہی میں جسم کا رواں رواں کھڑا کر دیا کرتے تھے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی اپنے ساتھ 'استاد' کا دُم چھلا استعمال نہیں کرتا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کا گانا سنا کرتے تھے مگر ایک دوسرے کی تعریف نہ کرتے تھے۔

'ڈھیلا گاتا ہے!' یہ تھے بڑے غلام علی خان صاحب کے الفاظ امیر خان صاحب کے بارے میں۔ 'ہاں! ٹُھمری وُمری گا لیتا ہے!' یہ تھے امیر خان صاحب بارے بڑے غلام علی خان۔
ٹھمری راگ سے نیچے کی صنف سمجھی جاتی ہے۔

50 برس بعد حالات نیا پلٹہ کھاتے ہیں۔ 1992 ہے۔ میں 23 برس کا جوان بڈھا استاد سلامت علی خان صاحب کے سامنے گھنٹوں بیٹھا رہتا ہے ان کے داماد کے G-10 والے گھر میں۔ خان صاحب ایک دن فرماتے ہیں کہ وہ تو بڑے غلام علی خان سے اوپر ہی گائے۔ پھر کہتے ہیں کہ امیر خان صاحب سُر سے اترتے تھے۔

سچ تو یہ ہے کہ سلامت علی خان بڑے غلام علی خان کی گائیکی سے بے حد متاثر تھے۔ بقول میرے موسیقی کے استاد پروفیسر شہباز علی، خاں صاحب بڑے غلام علی خان کے گنڈہ بند شاگرد تھے۔ گنڈہ بندی کی رسم میں اِکا دُکا بزرگ موجود تھے جو جلد ہی گزر گئے۔ اس دوران سلامت علی خان کا نام ہو گیا تو وہ اس شاگردی سے مُکر گئے۔ لیکن خان صاحب بھی بادشاہ آدمی تھے۔ ایک دن مجھے کہنے لگے کہ گویا، گویا ہو ہی نہیں سکتا اگر امیر خان اور بڑے غلام علی خان کو نہ دیکھے!

رئیس خان صاحب نے تعلیم لی اپنے ماموں آفتاب ستار استاد ولایت خان صاحب سے۔ ساری عمر ولایت خان صاحب انہیں اپنے شاگرد کے طور پر کنسرٹس میں متعارف کراتے رہے۔ جب رئیس خان ایک برانڈ بن گئے تو کہنے لگے کہ میں تو ولایت خان کا شاگرد ہی نہیں البتہ وہ میرے شاگرد ہیں کیونکہ وہ میرے باپ کا بجاتے ہیں۔

اور ذاکر بھائی (اوروں کے لیے ہوں گے استاد ذاکر حسین، میرے لیے تو ذاکر بھائی ہی رہیں گے) کو دیکھ لیں۔ ابھی 30 کے بھی نہ تھے کہ پدما شری مل گیا۔ پنڈت روی شنکر سٹیج پر بلا رہے ہیں 'استاد ذاکر حسین' کہہ کر۔ اب ذاکر بھائی 71 برس کے ہیں۔ کبھی اپنے آپ کو 'استاد' نہیں کہتے۔ دنیا کہتی ہے۔ ہمیشہ کہتے ہیں کہ میں تو ابھی تک شاگرد ہوں۔

بڑے غلام علی خان، امیر خان اور ولایت خان تو رہیں گے موسیقی کے ستون۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ذاکر بھائی ایسا طبلہ نواز نہ پہلے کبھی ہوا، نہ آئندہ کبھی ہو گا لیکن بھارت میں بھی ایک نہیں کئی 'ہارون رشید' اور 'احمد نورانی' ہیں جو ذاکر بھائی کو طبلہ نواز نہیں مانتے۔ ہمارے پاس لاہور میں ایک بازی گر ہیں جن کا نام طافو خان ہے۔ وہ طبلہ نوازی کے تین میں ہیں نہ ہی تیرہ میں۔ مگر دعویٰ بچپن سے یہی کرتے آئے ہیں کہ اپنے علاوہ کسی کو بھی طبلہ نواز نہیں مانتے۔ اس وقت قریب 83 برس کے ہیں۔

آج کل ہر کوئی یا تو استاد ہے، یا لیجنڈ ہے، یا پنڈت ہے۔ مجھے احتجاج کرنا پڑا جب شاکر شاہد پرویز کے نام کے آگے لیجنڈ دیکھا۔ شاکر میرے ستار نواز دوست استاد شاہد پرویز کا بیٹا ہے۔ بہت عمدہ بجاتا ہے۔ میرا احتجاج یہ تھا کہ بھئی شاکر اگر فی زمانہ کوئی لیجنڈ ہے تو شاہد پرویز ہی ہے۔ وہ تو کہتے ہیں کہ ابھی تلک ستار سیکھ رہے ہیں۔ تم کس کھاتے میں اپنے آپ کو لیجنڈ سمجھنے لگے!
خیر! اب تو عالم یہ ہے کہ ذاکر بھائی کے شاگردوں کے شاگرد بھی اپنے آپ کو استاد یا پنڈت کہتے ہیں۔ کلیُگ ہے بھائی کلیُگ!

پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کے آنے سے قبل سماعت 'سینیئر صحافی' یا 'سینیئر تجزیہ نگار' ایسی اصطلاحات سے بے بہرہ تھی۔ ابھی ڈان کے ضیاء الدین، دی نیوز کے شاہین صہبائی، راجہ اصغر، نصرت جاوید، مجید نظامی، عارف نظامی، عباس اطہر، ایاز امیر، خالد احمد، خالد حسین اور کئی بڑے صحافت میں مکمل طور پر متحرک ہیں۔ اگر لونڈے اور چھوکریاں سینیئر ہیں تو پھر یہ لوگ کون ہوئے؟ میں نے ڈانٹا اعزاز سید کو جب اس نے اپنا فیس بک اکاؤنٹ بنایا اور اپنے آپ کو سینیئر صحافی مشتہر کیا۔ کیا پھکڑ پن ہے۔ اب تو 'سینیئر' والا دُم چھلا ہر کن کٹے، کن ٹٹے، ٹٹ پونجیے، ایرے غیرے اور نتھو خیرے کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ مجھے تو یہ انتہائی توہین آمیز لفظ لگتا ہے۔

فی زمانہ صحافت ہی ایسا پیشہ رہ گیا ہے جس میں کسی تعلیم، کسی مہارت، کسی تجربے، کسی بھی زبان۔۔ اردو یا انگریزی پر عبور کی قطعاً ضرورت نہیں۔ بس آپ کو ایک عدد کائنات کا مالک ہونا ضروری ہے۔ اور وہ ہے کم از کم ایک عدد پھٹیچر سا سمارٹ فون، بھلے استعمال شدہ ہو اور ایک مُفتے کا یوٹیوب اکاؤنٹ۔ جب آپ کے 99 سے زیادہ سبسکرائبرز ہو جائیں تو اپنے نام کو سینیئر کا تڑکا لگا دیں۔ کوئی اعتراض نہ کرے گا کیونکہ مصنف، مدیر اور پبلشر سب آپ ہی ہیں۔ کوئی کاپی رائٹس والا رولا نہیں۔ کسی کے بھی خیالات کو آگے پیچھے کر کے اپنے بنا کر نشر کر دیجیے۔ آپ کی جے جے کار ہووے ہی ہووے۔

یو ٹیوب بچہ تو اب شرلاک ہومز اور جیمز بانڈ کے بھی ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ ان میں سے ایک کینیا پہنچ جاتا ہے اور ہمیں وہ گولیاں دکھاتا ہے جو ارشد شریف کی گاڑی پر برسائی گئی تھیں۔ اسے فی الفور لیاقت باغ پہنچنا چاہئیے اور اس گولی کو زوم کر کے دکھانا چاہئیے جس کے کارن لیاقت علی خان شہادت کے درجے پر فائز ہوئے تھے۔

ان اینکرز کا جنرل نالج ملاحظہ ہو۔ ماحولیات کی وزیر زرتاج گل فرما رہی ہیں کہ کووڈ 19 میں 19 کا مطلب وہ نکات ہیں جو کسی بھی ملک پر کسی بھی حالت میں لاگو ہو سکتے ہیں اور سامنے بیٹھا جاہل اینکر ہاں میں ہاں ملا رہا ہے۔

مجھے ہارون رشید کبھی نہ بھایا۔ لہجے میں کرختگی اور تکبر محسوس ہوا لیکن اس نے نجم سیٹھی کے خلاف گندی زبان ہرگز استعمال نہ کی۔ اتنا ہی کہا کہ کون ہے ان کی چڑیا۔ اس کے مقابلے میں احمد نورانی جو کہ ہارون رشید سے کئی گنا ڈگری یافتہ ہیں، شروع اپنی تعریفوں سے ہوئے۔ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا سب سے اعلیٰ علمبردار مشتہر کر کے سیٹھی کے بارے میں بازاری و ٹپوری زبان استعمال کرنے لگ گئے جس کو یہاں دہرانا ناممکن ہے۔ خود ہی اپنا تعارف کروا دیا کہ کہاں سے ہیں اور کس گھرانے میں پیدا ہوئے۔

میں تو اتنا جانتا ہوں کہ دنیا کے 24 ممالک میں پھرا، وہاں کے کئی صحافیوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ کسی نے اگر نام لیا تو فرائیڈے ٹائمز اور نجم سیٹھی کا یا امور افغانستان کے ماہر احمد رشید کا۔ اس بات کو بھی برسوں بیت گئے۔ احمد نورانی تو اس وقت پیدا بھی نہ ہوا تھا۔ ہارون رشید کس کھیت کی مولی ہے کسی کو نہ معلوم تھا۔ پہلے وہ سمجھے میں خلیفہ ہارون رشید کا ذکر کر رہا ہوں۔ جہاں تک بات ہے چڑیا کی تو جید جاہلوں کو کون سمجھائے کہ یہ تو ایک تشبیہ ہے۔ ظاہر ہے ذرائع ہی چڑیا یا کبوتر ہو سکتے ہیں۔ کسی کو کتا، بلا یا چوہا پسند ہے تو وہ رکھ لے۔ ہم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے؟

اگر نجم سیٹھی صحافی نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں۔ اگر ذاکر حسین طبلہ نواز نہیں تو یقین مانیے طبلہ بطور ساز کبھی تھا ہی نہیں! ہور تہاڈی خیر ہووے!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔