'عمران خان نے اپنی پوزیشن کی بنیاد پر خواتین کا فائدہ اٹھایا'

'عمران خان نے اپنی پوزیشن کی بنیاد پر خواتین کا فائدہ اٹھایا'
صحافی اسد علی طور نے کہا کہ عمران خان نے اپنی ذاتی اور سیاسی زندگی کو مکس کیا ہےاور وہ اپنی پوزیشن کی بنیاد پر اپنی ماتحت خواتین کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

صحافی اسد ظور نے اپنے یوٹیوب چینل پر وی- لاگ میں بتایا کہ عمران خان نے اپنی پوزیشن  کا استعمال کیا کہ ایک خاتون پارلیمنٹیرین ان کے "ذاتی" مفادات فراہم کرے جس کے بدلے میں خان صاحب اس خاتون کو پارٹی میں عہدہ دیں گے۔ یہ اخلاقی اور قانونی طور پر انتہائی غلط فعل ہے بلکہ ایک جرم ہے۔

خان صاحب جو بارہا اپنے جلسوں میں پاکستان کو ریاست مدینہ بنانےکے دعوے کر چکے ہیں ان کو تو پتا ہو گا کہ کس کس فعل کے لئے کتنے کوڑے مارنے کی سزا ہے۔ اب تو ماڈرن زمانہ ہے اور ان کو ایسے کوڑے بھی مارے نہیں جاسکتے۔ عمران خان جو اپنا موازنہ خلفائے راشدین سے کرتے ہیں درحقیقت ان کا چہرہ کتنا گھناونا ہے خصوصا خواتین کے معاملے میں۔ اور اگر ان آڈیوز کو سنا جائےتو واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ خان صاحب  اپنی پوزیشن کی بنیاد پر ان خواتین کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

جو آڈیوز منظر عام پر آئی ہیں جن میں کہا جارہا ہے کہ جو خاتون ہیں وہ مبینہ طور پر عائلہ ملک ہیں۔ وہ خان صاحب سے سیاسی "گوسپ" کرنا چاہ رہی ہیں تاہم خان صاحب ان کو بار بار 'فحش گفتگو اور کاموں' والے  موضوع پر لے کر آرہے ہیں۔ اس سے ان کی ذہنی پستی کااندازہ کیا جاسکتا ہےاور یہ "قومِ یوتھ" کے 'اخیرالمومنین' بنے ہوئے ہیں۔

خان صاحب نے یار محمد رِند کو بھی پارٹی میں لیا جو عائلہ ملک کے شوہر تھے اور ایسے کام کرتے تھے ۔ انہوں نے پیری مریدی کو بنیاد بنا کر  بشریٰ بی بی سے تب روابط بنائے جب وہ خاور ملک کی بیوی تھیں۔ عمران خان کی ایک سابق اہلیہ سے رابطہ کیا تو  انہوں نے بتایا کہ خان صاحب جو آڈیوزمیں باتیں کررہے ہیں ویسا شوق حقیقت میں بھی رکھتے ہیں۔

خان صاحب بہت کامیاب سیاست کر رہے وہ خود بھی نہیں چاہتے کہ اسمبلیاں تحلیل ہوں ورنہ 17 دسمبر کو یہ اعلان نہ کرتے کہ 23 دسمبر کو اسمبلیاں تحلیل کریں گے۔ بلکہ کہتے کہ یہ میرے ساتھ پرویز الٰہی بیٹھا ہے اور کل صبح ہی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری چلی جائے گی۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ اعتماد کے ووٹ اور عدم اعتماد کی تحریک آئے اور لڑائی پڑے  اور معاملہ التوا کو شکار ہو۔ اس سے اسمبلی بھی تحلیل نہیں ہو گی ۔میری حکومت بھی قائم رہے گی۔ اور سیاسی غیریقینی کی فضا بھی قائم رہے گی۔ جس کا نقصان ملک کو اور معیشت کو ہے اور خان صاحب نہیں چاہتے کہ معیشت چلے کیونکہ ان کا سب سے بڑا خواب یہ ہے کہ پاکستان سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہو جائے۔ جس کے لئے بہترین طریقہ سیاسی غیریقینی کی فضا قائم رکھنا ہے۔

اسمبلی بھی تحلیل نہیں ہو گی اور یہ معاملہ بھی اب عدالت میں جائے گا۔ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا اور گورنر نے آرٹیکل 130 کی شق7 کا حوالہ دیا ہے  اس کے بعد تکنیکی طور پر  چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب نہیں رہے۔ پنجاب اسمبلی سپیکر  سبطین خان اس وقت اعتماد کا ووٹ نہ لے کر وہی کام کر رہے ہیں جو  ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے کیا تھا۔ جس کو سپریم کورٹ نے ریورس کیا تھا۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے تو ان پر آئین توڑنے کے جرم میں آرٹیکل 6 لگانے کا کہا تھا ۔ آئین میں کہیں بھی درج نہیں کہ جاری سیشن کے دوران گورنر اعتماد کے ووٹ کا نہیں کہہ سکتا۔ گورنر کبھی بھی کہہ سکتا اور وزیر اعلیٰ پابند ہے کہ مقررہ وقت اور تاریخ پر  اعتماد کا ووٹ لے۔ اور اگر نہیں لے گا و گورنر اس کو ڈی نوٹیفائی کر دے گا۔

چوہدری پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ اس لئے نہیں لے رہے کہ 6 پی ٹی آئی اراکین اسمبلی ان سے بغاوت کر کے غائب ہو گئے ہیں اور  ان کے پاس 186 ووٹ نہیں ہیں۔