'لاڈ ختم، اب کوئی ریلیف نہیں ملے گا'

'لاڈ ختم، اب کوئی ریلیف نہیں ملے گا'
معروف صحافی و تجزیہ نگار مزمل سہروردی نے کہا کہ 2022 کے عدم اعتماد کے باوجود بھی عمران خان عدلیہ کے لاڈلے تھے لیکن اب نہیں رہیں گے۔ آنے والے سال میں عمران خان نااہل بھی ہوجائیں گے اور ان کو کوئی ریلیف بھی نہیں ملے گا۔

نیا دور کے پروگرام 'اندر کی بات' میں ملکی سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ نگار مزمل سہروردی نے کہا کہ پاکستان کی عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی ک مطابق چلے گی کیونکہ یہ دونوں ادارے ایک دوسرے کے متوازی چلتے آئے ہیں۔ ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ دونوں میں اختلاف پایا گیا ہو۔ جیسے جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کی پنجاب اور وفاق دونوں میں الگ پالیسی تھی، عدلیہ کی پالیسی بھی مختلف رہی۔ باجوہ صاحب وفاق میں شہباز شریف کے ساتھ تھے اور پنجاب میں عمران خان کے ساتھ، اسی طرح عدلیہ بھی وفاق میں پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ جبکہ پنجاب میں عمران خان کے حامی رہی۔

جب وفاق میں عدم اعتماد کی بات آئی تو عدلیہ نے عمران خان کو ریلیف نہیں دیا۔ سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ کو، پاکستان تحریک انصاف کی الیکشن پالیسی کو کسی خاطر میں نہ لائے۔ رات میں عدالتیں کھل گئیں اور عمران خان کے خلاف سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ کو اڑا کر رکھ دیا۔ تاہم جب پنجاب کا معاملہ آیا تو وہی عدلیہ عمران خان کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔ پوری پی ڈی ایم 'بنچ فکسنگ' کا نعرہ لگاتی رہ گئی لیکن جسٹس عمر عطا بندیال نے رات کو عدالتیں بھی کھولیں اور عمران خان کی پنجاب کی حکومت بھی بحال کر دی۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا نئے ججوں کی تقرری پر وفاقی حکومت کے ساتھ تناو پیدا ہو گیا اور وڈیشل کمیشن کے اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گئے۔ اعظم نذیر تارڑ  کو جسٹس عمر عطا بندیال اور اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑگیا اور پھردیکھا گیا کہ باجوہ صاحب کی مداخلت سے جسٹس عمر عطا بندیال کی مرضی کے جج صاحبان کی سپریم کورٹ میں تقرری ہوئی۔ اب تارڑ صاحب واپس تو آگئے ہیں تاہم من پسند جج صاحبان کی تقرری تو کر لی گئی۔ لیکن اب جسٹس عمر عطا بندیال کی پالیسی میں بھی کچھ تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ عدلیہ کی پالیسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ چلے گی۔ یہ پی سی او کے تحت بھی حلف اٹھاتے ہیں، یہ آمروں کو آئین میں ترمیم کا حق بھی دیتے ہیں، یہ مارشل لاء  کی حمایت بھی کرتے ہیں اس کے جواز بھی پیش کرتے ہیں۔ عدلیہ نئی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کے تحت ہی چلے گی۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ لاہور رجسٹری نے عمران خان کی ہتک عزت دعوے میں دفاع کا حق ختم کرنے کے خلاف اپیل خارج کر دی جس کے بعد ایسا نظر آرہا ہے کہ شہباز شریف یہ کیس جیت جائیں گے۔ عمران خان کی شکست کی زیادہ امکانات ہیں۔ سپریم کورٹ کی نے عمران خان کی اپیل خارج کر کے شہباز شریف کے لئے مقدمہ جیتنے کی راہ ہموار کی ہے۔

شہبازشریف کے دعوے پر حق دفاع ختم کرنے کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اپیل پر سماعت کے لئے جو بنچ بنا اس میں جسٹس اعجازالاحسن کو شامل نہیں کیا گیا جبکہ جسٹس منصورعلی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ  نے سماعت کی جس میں جسٹس امین اور جسٹس عائشہ اے ملک شامل تھے۔ عمومی رائے یہ ہے کہ اگر بنچ میں جسٹس اعجازالاحسن ہوتے تو عمران خان کو ریلیف مل جاتا۔ اور اگر پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف دائر  مقدمات کے بنچ میں اعجازالاحسن نہیں ہوں گے تو عدلیہ کی پالیسی کی تبدیلی بھی نظر آئے گی۔ جیسا کہ کہا جارہا ہے کہ دیگر تمام سافٹ ویئرز کی طرح عدلیہ کا سافٹ ویئر بھی اپ ڈیٹ ہو گیا ہے۔

اسی کے زیراثر اسلام آباد ہائیکورٹ کی پالیسی میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آئے گی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ جج اطہر من اللہ عمران خان کے اتنے شدید حامی تھے کہ ان کے گھر جا کر ضمانت کے آرڈر دے آتے، اتوار کو عدالت کھول لیتے  تو ان کی موجودگی سے بھی پی ٹی آئی کو ہر طرح کا ریلیف نظر آرہا تھا کیونکہ جو بھی حکومت کہتی تھی اسلام آباد ہائیکورٹ اس کے آگے رکاوٹ ڈال دیتی تھی۔ توہین عدالت کیس میں اطہر من اللہ نے عمران خان کو تین مواقع دیئے کہ معذرت طلب کرلیں۔ جس کے بعد یہ تاثر دیا گیا کہ عمران خان عدلیہ کے لاڈلے ہیں۔

تاہم ان اطہر من اللہ کے جانے کے بعد پی ٹی آئی اسلام آباد ہائیکورٹ کے نئے چیف جسٹس کے خلاف خط لکھ رہی ہے کیونکہ انہیں ضمانتیں نہیں مل رہیں، مقدمات میں وہ ریلف نہیں مل رہا۔ بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر بھی اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو ریلیف دیا اور پی ٹی آئی کے موقف کو اہمیت نہیں دی گئی۔ لہٰذا پالیسی میں تبدیلی ہوئی ہے جو کہ آئندہ دنوں میں واضح طور پر نظر آئے گی۔

عمران خان کو اندازہ ہو گیا ہے کہ اب وہ عدلیہ کے لاڈلے نہیں رہے۔ میرے خیال میں پنجاب میں اعتماد کے ووٹ کا ماعملہ بھی جب سپریم کورٹ میں جائے گا تو عمران خان اور پی ٹی آئی کو وہ ریلیف نہیں ملے گا جو انہیں لاہور ہائیکورٹ سے ملا تھا۔ امکان ہے کہ انہیں کہاجائے گا کہ اعتماد کا ووٹ لیں جو کہ ان کے لئے کافی حد تک مشکل ہو جائے گا۔

مسلم لیگ ن کی جانب لاہور ہائیکورٹ کے گورنر پنجاب کے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے حکمنامے کو معطل کرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ اس مین بھی عمران خان کو ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا۔ جن لوگوں کا خیال تھا کہ 2022 کے عدم اعتماد کے باوجود بھی عمران خان عدلیہ کے لاڈلے ہیں اب 2023 میں نہیں رہیں گے۔ آنے والے سال میں عمران خان نااہل بھی ہوجائیں گے اور ان کو اس طرح ریلیف بھی نہیں ملے گا۔

اسی طرح آئندہ عام انتخابات جب ہوں گے جسٹس عمر عطا بندیالریٹائر ہو چکے ہوں گے اور  الیکشن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ماتحت ہوں گے جو کہ عمران خان کبھی نہیں چاہیں گے۔