گوادر میں آئین، قانون اور جمہوریت کے جواب میں ریاستی تشدد

گوادر میں آئین، قانون اور جمہوریت کے جواب میں ریاستی تشدد
26 دسمبر کی صبح رابطے کے تمام ذرائع منقطع کر دیے گئے، حق دو تحریک کے کارکنان کے مطابق انہوں نے مساجد میں اعلانات کیے جس کے بعد لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے۔ شہر کے کئی مقامات پر مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان پتھراؤ اور آنسو گیس کی شیلنگ سے کئی مظاہرین زخمی ہوئے تھے۔ آج کئی دن بعد بھی شہر میں رابطے کے تمام ذرائع بند ہیں، اب تک ایک پولیس کانسٹیبل جاں بحق ہوا ہے۔ سرکاری مؤقف کے مطابق مظاہرین کی فائرنگ سے اہلکار جاں بحق ہوا ہے جب کہ حق دو تحریک اور مظاہرین کا مؤقف ہے کہ سکیورٹی فورسز کی ہوائی فائرنگ سے ان کا ساتھی جاں بحق ہوا ہے۔

شہر کے مختلف مقامات پر آنسوگیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج سے خواتین سمیت متعدد مظاہرین زخمی ہوئے ہیں۔ حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے نامعلوم مقام سے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ریاست نے ان کے کارکنان سمیت عام شہریوں پر تشدد کیا ہے۔ انھوں نے اپنے گرفتار کارکنان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بہت جلد وہ اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

اطلاعات کے مطابق گذشتہ تین دنوں سے سکیورٹی فورسز نے کم از کم دو سو سے زائد لوگ گرفتار کر لیے ہیں۔ پَسِّنی پریس کلب کے سامنے بھی خواتین سمیت سینکڑوں شہریوں نے دھرنا دیا ہوا ہے، جن کا الزام ہے کہ ان کے کم از کم پانچ لوگ لاپتہ کر دیے گئے ہیں۔

گوادر شہر کے مختلف مقامات پر جن میں پدی زِرمیرین ڈرائیو، موسیٰ موڑ، جی ٹی گیٹ اور سید ہاشمی چوک پر آگ، دھواں اور توڑ پھوڑ کی وجہ سے راستے بند ہیں۔ شہر میں آج چھوتھے روز بھی سکیورٹی فورسز مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے گشت کر رہے ہیں اور خوف کا ماحول ہے۔ رابطے کے تمام ذرائع مکمل طورپر بند ہیں۔ موسیٰ موڑ پر خواتین مظاہرین کا کہنا تھا کہ 26 دسمبر کی رات فورسز نے انھیں ہر طرف سے گھیرے میں لیا اور نعرہ تکبیر لگا کر ان پر حملہ کیا، آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا جس سے کئی خواتین اور بچے زخمی ہوئے۔

حالات کب خراب ہوئے؟

گذشتہ 60 دنوں سے حق دو تحریک کے کارکنان نے گوادر میں شہید لالا حمید چوک پر گوادر کے بنیادی مسائل کے حل، غیر قانونی ٹرالرنگ کا خاتمہ، لاپتہ افراد کی بازیابی، پاک ایران سرحد پر آزادانہ تجارت اور غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ وغیرہ کے مطالبات کے حق میں دھرنا دیا ہوا تھا لیکن حکومت کی جانب سے کوئی شنوائی نہیں ہوئی تو حق دو تحریک کے کارکنان نے گوادر پورٹ کے راستے ایکسپریس وے کو بھی دھرنا دے کر بند کر دیا، جہاں صوبائی وزیر داخلہ کی سربراہی میں ایک وفد مذاکرات کرنے گوادر آیا تھا لیکن مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے۔ وزیر داخلہ بلوچستان نے مذاکرات کے بعد دھرنا گاہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مذاکرات کو خوشگوار ماحول میں ہونے کو تسلیم کیا اور کہا کہ مذاکرات کا ایک اور دور بھی ہوگا۔ مگر پھر اچانک 26 دسمبر کی رات کو سکیورٹی فورسز نے دھرنے کے دونوں مقامات پر دھاوا بول دیا اور 26 کارکنان کو گرفتار کر لیا۔ تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کو خواتین نے بحفاظت خفیہ طورپر نکال لیا جو اب روپوش ہیں۔ 26 دسمبر سے شہر کے حالات کشیدہ ہیں۔ سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے مابین پتھراؤ اور سکیورٹی فورسز کی شیلنگ سے کئی لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں، اور اب تک سینکڑوں لوگ گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

گوادر سمیت سربندر، جِیوَنی، پَسِّنی، اورماڑہ اور تُربَت میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ شہر میں ہر طرف خوف کا ماحول ہے، اس وقت ہر طرف سکیورٹی فورسز، دھواں اور آگ کا منظر ہے۔

حق دو تحریک کے گذشتہ 60 دنوں کے دھرنے میں روزانہ کئی دفعہ تقریر کرتے ہوئے اس تحریک کے رہنما آئین، قانون اور جمہوریت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ تسبیح کے دانوں کو پڑھتے ہوئے بھی یہی ورد کرتے ہیں۔ تحریک کے بزرگ قوم پرست رہنما واجہ حسین واڈیلہ نے گرفتاری کے وقت اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا کہ اُن پر رات کے اندھیرے میں شدید تشدد کر کے گرفتار کیا جا رہا ہے، انھوں نے انتہائی مایوسی کی عالم میں پیغام ریکارڈ کروایا کہ انھیں آئین، قانون اور جمہوریت کے پیغام کے جواب میں ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

سی پیک کا مرکزی شہر جو کبھی سلطنت آف عمان کا خوشحال ترین صوبہ ہوا کرتا تھا آج خوف، آگ اور دھوئیں کی لپیٹ میں ہے۔ شہر میں ایک مرتبہ پھر یہاں کے باسی بدترین ریاستی جبر کو دیکھ رہے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر منصوبہ ساز آمرانہ سوچ رکھنے والے اسلحے اور طاقت کے زور پر یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ آئین اور جمہوریت صرف کتابی باتیں ہیں، بلوچ کے لئے ریاست کا رویہ وہی ستر سال پرانا ہے جس میں آئین، قانون اور جمہوریت کا جواب خوف، آگ اور دھواں ہے۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔