ہم پر الزام لگانے سے پہلے پی ٹی آئی لاہور پلان میں اپنی کرپشن کا حساب دے؛ (ق) لیگ

ہم پر الزام لگانے سے پہلے پی ٹی آئی لاہور پلان میں اپنی کرپشن کا حساب دے؛ (ق) لیگ
عمران خان نے پرویز الہیٰ پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پرویز الہیٰ پنجاب میں کرپشن کر رہے ہیں، ان کے اوپر پہلے بھی کرپشن کے کیسز چل رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت کا گراف نیچے جا رہا ہے۔ اس کے جواب میں مسلم لیگ (ق) کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی ہم پر الزامات لگانے سے پہلے لاہور اربن ڈویلپمنٹ پلان 2050 میں اپنی کرپشن کا حساب دے۔ فواد چودھری جہلم میں اربوں کے منصوبوں پہ کرپشن کا حساب دیں، شیخ رشید پنڈی میں کرپشن کا حساب دیں اور اسلم اقبال کے اوپر 100 کے قریب ہاؤسنگ سوسائٹیز کی کرپشن کا الزام ہے، لہٰذا پی ٹی آئی ہمارے اوپر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکے۔ یہ کہنا ہے صحافی شہبازمیاں کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے رپورٹر شہباز میاں نے کہا کہ کل ہائیکورٹ میں بڑی سماعت ہونے جا رہی ہے۔ پرویز الہیٰ کی پنجاب حکومت ہائیکورٹ کے عبوری حکم پر ہی کھڑی ہے۔ پرویزالہیٰ مقررہ وقت میں اعتماد کا ووٹ نہیں لے پائے، دونوں پارٹیوں کے پاس نمبر پورے نہیں ہیں، پی ٹی آئی کے کچھ اراکین کہہ رہے ہیں کہ وہ پرویز الہیٰ کو ووٹ نہیں دیں گے۔ پرویز الہیٰ کو اعتماد کے ووٹ کے لیے 186 اراکین کی ضرورت ہے، یہ نمبر ملسم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے پاس نہیں ہیں۔ پرویز الہیٰ ابھی بھی دھڑا دھڑ ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرر ہے ہیں جس میں خدشات ہیں کہ سیاسی لوگ اور بیوروکریٹ کمیشن کھا رہے ہیں۔ پرویز الہیٰ نے ایک سابق بیوروکریٹ کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر کو ملاقات کا پیغام بھیجا مگر انہوں نے ملنے سے انکار کر دیا۔

پرویز الہیٰ کا معاملہ سپریم کورٹ بھی جا سکتا ہے، جس سے پرویز الہیٰ کو مزید وقت مل سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی فوری طور پر گورنر راج کے کوئی امکان نہیں ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی اجتماعی طور پر استعفے منظور نہیں کر سکتے، تحریک انصاف کے 15 سے 20 اراکین استعفے دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ اگر عمران خان استعفے دلوانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو پھر بھی فوری الیکشن ہوتے نظر نہیں آ رہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سینئیر رہنما افراسیاب خٹک نے کہا کہ عمران خان نے آج کے خطاب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا برائے نام حصہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا ایک اپنا طریقہ واردات ہے، وہ پہلے کہتے ہیں، پھر یوٹرن لے لیتے ہیں۔ عمران خان 11/9 کے بعد پرویز مشرف کی بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں بھی شریک تھے، 2014 میں آپریشن ضرب عضب والی نواز شریف کی میٹنگ میں بھی موجود تھے۔ انہوں نے ان میٹنگز میں حکومتوں کا ساتھ دیا تھا مگر اب ایک مختلف بات کر رہے ہیں۔
عمران خان کا طالبان کے بارے میں جو مؤقف ہے وہ پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرے گا اور ان کا مؤقف حکومت اور باقی سیاسی پارٹیوں کے مؤقف کو بھی کمزور کرے گا۔ اپنے کندھوں سے ذمہ داری کو کسی اور کے کندھے پر ڈالنا عمران خان کا پرانا طریقہ واردات ہے۔ عمران خان وفاق اور صوبے میں 4 سال تک حکومت میں رہے ہیں، اس دوران فاٹا کا انضمام کیوں مکمل نہیں ہوا۔

عمران خان بہانے بازی میں ماہر ہیں، آج کل ڈرون حملے نہیں ہو رہے تو پھر ٹی ٹی پی کیوں حملے کر رہی ہے؟ ٹی ٹی پی نے ان علاقوں میں اپنے ادارے بنائے ہیں، ان کو بااختیار بنانے میں پی ٹی آئی اور عمران خان کی حکومت کا ہاتھ ہے۔ عمران خان اور ان کی پارٹی نے کبھی بھی شہید ہونے والے اہلکاروں کا ساتھ نہیں دیا، انہوں نے لوگوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا ہے۔ عمران خان نے ایک دفعہ پھر سے دہشت گردی کے ماحول کو ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کے پی کے کی چیمر آف کامرس نے جو باتیں کی ہیں کہ دہشت گردوں کو حکومتی اہلکاروں کی طرف سے تاجروں کا ڈیٹا فراہم کیا گیا ہے، اس معاملے میں ملوث افراد کو سزا ملنی چاہئیے۔ عمران خان کو اس بات کا جواب دینا چاہئیے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کر کے سہولیات کس نے دیں؟ ٹی ٹی پی کو تازہ ترین امریکی اسلحہ کس نے دیا؟ ان سوالوں کے جواب کون دے گا؟ پاکستان کو امریکہ، چین، روس اور برطانیہ کے مسائل میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

پروگرام کے میزبان مرتضی سولنگی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔